• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرمپ انتظامہ میں تبدیلیوں کی وجوہات

ٹرمپ کا اپنے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کویک دم معزول کردیناکوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔کیوں کہ وہ کہیں بھی،کچھ بھی کر گزرنے والے شخص کے طور پرمعروف ہیں۔ حالاں کہ اگر غیر ملکی دورے کے دوران ٹلر سن کو ان کے عہدے سے برطرف نہ کیا جاتاتو امریکا پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

مگر انہیں اس طرح برطرف کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ ٹرمپ ریکس ٹلرسن کی توہین بھی کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ خبروں کے مطابق جب ریکس ٹلرسن نے اس انداز پر احتجاج کرنے کے لیے اپنے ایک دوست کے ذریعے وائٹ ہائوس سے رابطہ کیا تو اسے یہ تضحیک آمیز جواب ملا کہ ٹلرسن کو اس وقت فارغ کیا گیا جب وہ ٹوائلٹ میں بیٹھا اپنا معدہ صاف کر رہا تھا۔ اس انداز سے صدر ٹرمپ کی اپنے سابق وزیر خارجہ سے ناراضی کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ ناراضی کی اس انتہا تک کیوں پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دسمبر ہی میں حالات ایسے ہو گئے تھے کہ ریکس ٹلرسن کا جانا ٹھہر گیا تھا۔ 

اختلافات میں شدت اس وقت آئی جب ٹرمپ نے ا مر یکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ ریکس ٹلرسن اس کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس اقدام سے غیر ضروری طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکا کے خلاف نفرت بڑ ھے گی۔ مگر یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے تمام فیصلے اپنے داماد Jred Kusher کے زیر اثر کرتے ہیں۔

ان کے داماد خود صہیونی خیالات رکھتے ہیں اور ان ہی خیالات کی وجہ سے وہ ٹرمپ کو سفارت خانے کی منتقلی کے اعلان تک لے آ ئے۔ لیکن ٹلرسن کی مخالفت کو امریکا میں موجود یہودی لابی اور اسرائیل میں سخت ناپسند کیا گیا اور انہیںان کے منصب سے ہٹوانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ 

ریکس ٹلرسن کے اختلافات ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کےضمن میں بھی گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ ایران کے معاملے میں اس بات کے قائل ہیں کہ صدر اوباما نے نیوکلیئر ڈیل درحقیقت کریڈٹ لینے کی غرض سے کی تھی۔ ٹرمپ یہ معاہدہ ختم کرناچاہتے ہیںیا وہ ایران پر اس حد تک سخت شرائط عاید کر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں تسلیم کرنا ایران کے لیے نا ممکن ہو۔ 

لیکن سابق امریکی وزیر خارجہ کا خیال تھا کہ ایسا کوئی اقدام غیر مناسب ہو گا۔ وہ خود بھی نیوکلیئر ڈیل کے خلاف ہیں، لیکن اسے مکمل طورپر ختم کرنے کو درست اقدام تصور نہیں کرتے۔ ان کے اس موقف کی وجہ سے ان کی برطرفی کے دوسرے روز ویانا میں امریکا،روس،یورپ،چین اور ایران کے سفارت کاروں کا اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے امریکا میں خارجہ ٹیم میں آنے والی تبدیلیوں کے پس منظر میں مستقبل کے ممکنہ حالات کا جائزہ لیا گیا۔

ٹلر سن شمالی کوریا کے حوالے سے بھی تحمل کی پالیسی کے حامی تھے۔لیکن ٹرمپ شمالی کوریامیں قیادت کی تبد یلی کا نظریہ درست تصور کر رہے ہیں۔ شمالی کوریاہی کے معاملےکے تناظر میں ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، میک ماسٹر کا بستر گول ہونے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ان کی جگہ بش دور کے سخت خیا لات کے حامل جان بولٹن کو تعینات کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ 

جان بولٹن کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ شمالی کوریا پر حملہ کرنے کے ضمن میں ایک طاقت ور آواز تصور کیے جاتے ہیں اور شمالی کوریا کی فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ بہ راہ راست کسی فوجی اقدام سے گریز ہی کریں گے، کیوں کہ شمالی کوریا کا رد عمل غیر معمولی طور پر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ جان بولٹن کی تقرری اسی مخمصے کی وجہ سے اب تک نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح ایف بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اینڈریوکیب کو ان کی مدت ملازمت کے اس سطح پر پہنچنے سے دو روز قبل فارغ کردیا گیا کہ وہ مکمل پنشن کے حق دار قرار پاتے۔ اس بارے میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات کی تھی۔ ان کی رخصتی پر صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ کر کے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ آج ایف بی آئی کے ملازمین کے لیے بہت خوشی کا دن ہے۔ 

اینڈریو کیب کا کہنا ہے کہ انہیں انتقام کا نشانہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ ایسے متوقع گواہ ہوسکتےتھے جو صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم اور کریملن کے درمیان روابط پر تحقیقات میں شا مل ہوتے۔ صدر ٹرمپ نے سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو کو نیا امریکی وزیرخارجہ مقرر کیا ہے۔ وہ کنساس سے کانگریس کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور اس حوالے سے معروف ہیں کہ ڈھکے چھپے لفظوں کے بجائے امریکا کے دنیا میں کہیں بھی Covert Operation کی پالیسی کے کھلم کھلاحامی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خیالات ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اوریروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے ضمن میں اسرائیلی لابی جیسے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کے معا ملات اورحکومت کے کام کرنے کے طریقے کے حو ا لے سے ناتجربہ کار نہیں ہیں۔

 پھر انہیں اب تک ریکس ٹلرسن کی نسبت صدر ٹرمپ کا زیادہ اعتماد بھی حاصل ہے۔ ان کے سامنے اس وقت تین بہت اہم مسائل ہیں۔پہلا یہ کہ کہ وہ شمالی کوریا سے ممکنہ مذاکرات کس طرح بہتر بناتے ہیں، کیوں کہ اگر کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا تو بھیانک غلطی ضرور ہوسکتی ہے۔

دوم، ایران سے نیوکلیئر ڈیل کے ضمن میں وہ کیا کرتے ہیں۔سوم،چین اور روس سے تعلقا ت کو کیسے بہتری کی جانب گام زن کرتے ہیں۔ اگر وہ ان حوالوں سے انتہا پسندانہ رجحانات کے حامل رہے تو دنیا کو کسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 

تازہ ترین