تجوریاں جب جاہلوں کی دسترس میں آجائیں، تو شعور مفلسی کی قبا پہنے دربدر پِھرنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، میری مادری زبان ایک گہرا سکوت ہے۔ اگرچہ بازار میں چہروں کا شور برپا ہے، مگر مَیں اپنے اندر کے خالی پن سے خوف زدہ رہتا ہوں۔ زندگی کے سفر میں کچھ مسافر ایسے بھی ملتے ہیں، جو آپ کے اندر کی خامشی کے پائوں میں گھنگھرو باندھ جاتے ہیں۔
بابا بلھے شاہ کے مزار کے قریب ایک کونج، کئی راتوں سے روتی ہوئی اُڑ رہی تھی۔ میری ماں بھی کئی راتوں سے سو نہیں پائی تھی۔ ایک دِن مجھے حیران دیکھ کر بولی، ’’عارف پُتّر! میری باتوں پر حیران نہ ہوا کر کہ ماں تو روح کی بینائی کا نام ہے۔‘‘ مَیں زندگی میں کبھی جیت نہیں پایا۔ ہار ہی ہمیشہ میرا مقدر بنی۔
جس دِن مَیں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا، تو مجھے لگا، جیسے مَیں جیت گیا ہوں، مگر پھر نہ جانے کہاں سے بلھے شاہ نگر کی ایک گڑیا، زینب میری نظروں کے سامنے آگئی اور مَیں پھر ہار گیا۔
اُس دِن تو مَیں اپنا وجود بھی ہار گیا تھا۔ مَیں نے زینب کو رُلانے کی بڑی کوشش کی، مَیں نے اُس سے کہا، ’’تمھارے ساتھ ظلم ہوا ہے، تمھاری گڑیا رو رہی ہے۔ تمھاری ساری چوڑیاں ٹوٹ گئی ہیں، تمھارے سارے کھلونے کوئی چُرا لے گیا ہے۔
تمھارے باپ کی بانہیں، تمھارے لیے اب بھی کُھلی ہیں اور تمھاری ماں کی آنکھوں کا دریا سوکھ گیا ہے۔‘‘مگر وہ خاموشی سے مجھے دیکھتی رہی، اُس کی آنکھوں میں عجیب سے ماتم کی خاموشی تھی۔ مَیں کانپ گیا۔ مظلوم اگر خاموش رہ جائے، تو پھر اسرافیل آتا ہے اور پھر کچھ بھی نہیں بچتا، نہ زمین نہ اس کے باسی۔
تہمتوں کی راہ گزر پر پڑے پتھر کی طرح مجھے کبھی زندگی کی سمجھ ہی نہیں آئی۔مجھے نہیں معلوم میرا دُکھ کیا ہے؟ شاید میرا سب سے بڑا دُکھ، آگہی ہے اور آگہی کے دُکھ، روح کو زخمی کر دیا کرتے ہیں۔ کبھی مجھے لگتا ہے، مَیں کسی کھنڈر کے ٹوٹے ہوئے مینار کی طرح ہوں۔ مجھے کچھ یاد سا پڑتا ہے کہ کبھی مَیں بھی زندہ ہوا کرتا تھا۔
کیسا عجیب دَور ہے، یہاں صرف حماقت کے زور پر ہی زندہ رہا جا سکتا ہے ۔احتیاج سوچنے کا انداز بھی بدل دیتی ہے۔ سورج کو جب رات کی حُرمت کا خیال نہ ہو، تو وہ دِن بَھر سوئی رہتی ہےاور اُداسی شب کی پتلیوں میں رقص کرتی رہتی ہے۔
جب گھنی دلدل کی صُورت، برگد سے گھنا دُکھ لیے اُداسی شام اوڑھے میرے اندر خامشی کے گھر اُترتی ہے، تو میری نظمیں رونے لگتی ہیں، قلم سے خون رِسنے لگتا ہے۔ فٹ پاتھ پر پڑی کتابوں کی زخم زخم لاشیں مجھے رو رو کہتی ہیں،’’ آخری لفظ کے مَرنے تک لکھو، وگرنہ بلھے شاہ کے شہر میں ’’زینب‘‘ ماں کی گود سے نہیں اُترے گی۔ ‘‘جس معاشرے میں ’’زینب‘‘ کو تحفّظ نہ ملے، ایسے معاشرے ،ایسی قومیں کتبے پر لکھی ہوئی عُمر کی طرح بے معنی ہو جایا کرتی ہیں۔ اخلاقی اقدار، زوال کے زرد پتّوں کی پازیب پہنے سانسوں کی تضحیک کرنے لگتی ہیں۔
یکسانیت سے اکتائی خوشی اور بِن دریافت ہوئے جزیرے کا دُکھ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔انسانیت یہ ہے کہ کوئی ڈوب رہا ہو، تو تم اس کے لیےساحل بن جائو اور وہ سفّاکیت و بربریت کے سمندر میں ڈوب گئی، مگر مَیں ساحل نہ بن سکا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ زندگی شہر کی بے چراغ گلیوں میں کہیں گم ہو گئی ہے۔
کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں، زینب تیرے بعد بلھے شاہ کے شہر کا کیا حال ہو گیا ہے۔ شریف النفس یہاں سے ہجرت کرنے لگے ہیں۔ بچّے شام ہونے سے پہلے ہی ماں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ اب یہ سہمے ہوئے پھرتے ہیں۔ شرارت بھی نہیں کرتے۔ ذرا سی بات پر رونا شروع کر دیتے ہیں۔
اپنے بابا سے کھلونوں کے لیے ضد بھی نہیں کرتے۔ سورج زوال کی طرف پلٹ پڑتا ہے، مگر اُجالا نہیں ہوتا۔ خوف کی بارش نے سارا شہر چُپ کے کیچڑ سے بَھر دیا ہے۔ گلیاں اور راستے آہٹوں کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔ لوگ چھوٹی چھوٹی قبروں کو دیکھ کر رونا شروع کردیتے ہیں۔ خواب ہجرت کر گئے ہیں۔
ماں، باپ کی نیندیں، اب ماضی کا قصہ بن گئی ہیں۔ بچّے ماں کی جھولیوں سے اُترتے ہوئے سہم جاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے ہیں۔ہم انسان سے درندے کیسے بنے؟ ہم قرآن رکھتے ہوئے بھی جاہل کیسے ہوئے؟ ہم رحمت اللعالمین کے اُمّتی ہوتے ہوئے بھی ظالم کیسے بنے؟ ہم اخلاقی زوال کا شکار کیوں ہوئے، ہمارا رزق کہاں گیا؟ رزق کیا ہے؟ ہر وہ چیز جو پستی سے بُلندی کی طرف لے جائے، رزق ہے۔
اور آج ہم سب بُلندی سے پستی کی طرف گر رہے ہیں۔ ذلّت ہمارا مقدر کیوں ٹھہری، ہمارا معاشرہ جنونی کیوں ہوا، ہماری پہچان کیا ہے؟ ہم عجیب دَور میں رہ رہے ہیں۔ جہاں آپ کو شناخت کرنے والا بائیومیٹرک سسٹم بھی خود آپ سے نا آشنا ہے۔ بلھے شاہ نگر کی معصوم گڑیا بربریت اور درندگی کا نشانہ کیسے بنی؟ ہم عزّت اور سُکون کی نعمت سے محروم کیسے ہوئے۔ ہم انسان سے جونک کیوں بنے۔ ہم قوم سے ہجوم کیوں ہوئے؟ ہم مخلوق ہو کر بھی خالق سے دُور کیوں ہوگئے؟
سوالوں کی ایک بڑی سی پوٹلی لیے، مَیں آج مظفر گڑھ کے گائوں، ہیڈ محمّد والا میں عبدالغفور شاعر اور بانسری نواز کے کچّے مکان میں بیٹھا ہوں۔ عبدالغفور نے مجھے دیکھا اور مُسکرایا۔ پھر رونے لگا۔ مَیں نے پوچھا ’’عبدالغفور! تم مجھے دیکھ کر پہلے ہنسے اور پھر روئے کیوں؟‘‘ کہنے لگا، ’’عارف خان! مَیں تمھیں دیکھ کر ہنسا اس لیے تھا کہ مَیں نے ایک عرصے بعد ایک حسّاس انسان دیکھا ہے، کسی مُلک کا حقیقی اثاثہ اور سرمایہ اُس کے حسّاس انسان ہوتے ہیں۔ اور رویا اس لیے ہوں کہ تم بھی میری طرح اس سفّاک، ظالم، جنونی، مادّہ پرست اور بے حس معاشرے میں آگہی کا دُکھ لیے جی رہے ہو۔ اس معاشرے کو اب تعلیم کی نہیں، تربیت کی ضرورت ہے۔
تربیت کے بغیر محض تعلیم سے انسان دعوے کرنے لگ جاتا ہے اور دعوے کرنے سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ انسان کا عمل، تعلیم سے نہیں تربیت سے ہوتا ہے۔‘‘عبدالغفور نے میری طرف دیکھا اور پھر اپنے جھوپنڑی نما کمرے کی طرف دیکھ کر بولا ’’فن کاروں اور تخلیق کاروں کا سرمایہ ہی کیا ہوتا ہے۔ خالی الماریاں اور پھٹے پُرانے کپڑے۔ لوگ اپنی تقریبات میں لے جاتے ہیں۔
عزّت بھی کرتے ہیں، واہ واہ بھی کرتے ہیں، مگر دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ بعض دفعہ تو فاقوں کی بھی نوبت آ جاتی ہے۔ ہم لفظوں اور محبّتوں کے سوداگر ہیں، مانگ بھی نہیں سکتے۔
جھولی بھی نہیں پھیلا سکتے۔‘‘پھراُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔’’ سُنو، عارف! یہ دنیا ایک پُتلی گھر ہے، جس میں ہر پُتلی کو کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں اپنے جیون سے زیادہ ہجر کاٹنا پڑتا ہے۔’’اچھا یہ تو بتا دو کہ ہم زوال کا شکار کیسے ہوئے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔’’بانسری سُنو گے؟‘‘اُس نے میرا سوال ٹال دیا۔ مَیں نے اقرار میں سَر ہلایا۔
اُس نے اپنی ایک جیب سے بانسری نکالی اور دوسری سے ایک ٹوٹی کمانی والی عینک اور آنکھوں پر لگا کر بانسری کی طرف دیکھا، پھر حیرانی سے میری طرف دیکھا، ’’عارف! کہاں جا رہے ہو، اپنے سوال کا جواب نہیں سُننا؟‘‘مجھےمیرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’ہاں، عبدالغفور! مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے کہ ہم زوال کا شکار کیسے ہوئے ۔
ہم شدّت پسند اور جنونی کیسے بنے۔ جس مُلک اور جن معاشروں میں تخلیق کار اور فن کار کو ٹوٹی کمانی والی عینک پہننا پڑے، ایسی قومیں اور معاشرے وقت کے برمودا ٹرائی اینگل میں گم ہو جایا کرتے ہیں۔ جہاں اسپتالوں کی ایمرجینسیز اور پھانسی گھاٹ آباد ہیں۔ تابوت بنانے والوں کی چاندی ہو، وہاں بوریوں کا کفن دیا جاتا ہے۔ ’’زینب‘‘ کی گڑیا اُداس رہتی ہے۔ خوف حکم رانی کرتا ہے اور پھر محبّت کی تبلیغ اور امن کا پرچار کرنے والے صوفی کا شہر، شہر قابیل بن جایا کرتا ہے۔‘‘
جب مَیں نے آخری بار اُس کو مُڑ کر دیکھا، تو وہ اپنے میلے ہاتھوں سے آنسو پونچھ رہا تھا اور اُس کی ٹوٹی کمانی والی عینک زمین پر گِری پڑی تھی۔
ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار
٭میرے سَر پر ماں کا آنچل، ادھورا سپنا، میرا اھورا فن، شگفتہ ناز، ڈسکو موڑ، کراچی٭غزل، اقصیٰ نورین٭عظیم رہبر، سعدیہ ناہید، جھنگ٭غزل، حمدان احمد حمدان، لاہور٭سالِ نو، پروفیسر آفتاب احمد، لاہور٭نیا سال مبارک، لیاقت علی، لاہور٭آزاد نظم، سحر خان، میرپور خاص٭رشتے مُک گئے، افتخارچوہدری، راول پنڈی۔
بذریعہ ای میل موصول ہونے والا کلام
٭کیا محبّت کرنا ضروری تھا، حریم صدیقی، اسلام آباد٭بارش کے موسم میں، میمونہ صدف٭میرے کشمیر، شائستہ عابد، لاہور٭نظم، الماس، گلستانِ جوہر،کراچی٭تمہیں کچھ خبر ہے، بنتِ نور٭یوں شام ہوتی ہوگی، اجنبی، ہم بدلہ لیں گے، کشمیر، صابر علی خاصخیلی، ٹنڈجان محمّد، میرپور خاص٭اچانک ملا تھا، سیّد احمد علی نقوی٭ہم شرمندہ ہیں، وقار یونس شیخ، کراچی٭تم میری بات سُنو، ڈرتا ہے کیوں، حفضہ اشتیاق٭ٹوٹ گئے سب، یہی درس ملا، شہزادی حفصہ، کراچی٭صاف دِل، وقاص احمد وسیم، کراچی٭اسکول جاتے بچّے کا پہلا دِن، مرحبا، شاہِ مدینہ، کاشف شمیم صدیقی٭وہ ساتھ تھا، آمنہ سعید٭مسافتیں تو مسافتیں ہیں، الجھی الجھی زندگی، رفاقتوں کو محال رہنے دو، غزل، فروزاں عُمر، کراچی٭جب زخم بھرنے لگتے ہیں، توصیف احمد٭غریبِ شہر ہوں، قمر محمود چوہدری، بورے والا، وہاڑی٭رہبر ہیں، قاضی جمشید عالم اظفر صدیقی٭کاش تم بھی، کرن عباس کرن، مظفر آباد۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار
٭تصویر، بیوی کیسی ہو؟ تلاش، پرنس افضل شاہین، بہاول نگر٭شوہر، شایان الدین شاد، الامین سٹی، ملیر کراچی٭عاشقوں کی خدا خیر کرے، سائرہ سید، کورنگی، کراچی٭زندگی پیار کا گیت ہے، نظریہ بدلیے، اسماء سعید، میٹروول، کراچی٭مداوائے درد، حمیرا مختار، کراچی٭ایک پیغامِ الفت، اسماء خان دمڑ، سنجادی، بلوچستان٭علم کیا ہے، شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکاپور ٭تخریب کار سے انٹرویو، مہر منظور جونیئر، ساہی وال٭دستک، مہر سلطانہ، کراچی٭پیاس اور صبر، اقصیٰ عثمان، کراچی۔
بذریعہ ای میل موصول ہونے والی نگارشات
٭ہسٹریا، ابصار فاطمہ٭خوشیاں، الو، گھی والی روٹی، شانزا خان، ملتان٭تیراک، نادیہ، نارتھ ناظم آباد، کراچی٭ٹھکانا، ایک بات، عالیہ توصیف، آسٹریلیا٭کبھی یوں بھی تو ہو، رمیشہ شیخ، اسلام آباد٭عمل کی حقیقت، مائدہ یوسف٭ادھوری اذان، ذیشان صدیقی٭رونے کی وجہ، صابر علیو ٹنڈو جان محمد٭مہلک ہتھیار، عمران اسمعیل٭محبّت کیسی ہو، خطیب احمد۔