پاکستان کے مقتدر حلقوںمیں اس وقت دو موضوع زیر بحث ہیں۔ پرو نواز اور اینٹی نواز۔ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن اور طاقتور حلقوں کی کامیابی کے بعد نظریں عام انتخابات پر جمی ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ ن میں دراڑیں ڈالنے کی بہت کوشش کی گئی مگر خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ پنجاب کے ایسے حلقوں سے امیدواروں نے مسلم لیگ ن کا خیر باد کہا ہے، جہاں پر نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے حلقے کم ہوئے ہیں اور اب مسلم لیگ ن سے الیکشن لڑنا ممکن نہیں تھا۔ دوسرے ایسے امیدوار ہیں جو کبھی مسلم لیگ ن کا حصہ نہیں رہے۔ ہمیشہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور پھرحکمران جماعت میں شامل ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ طاقتور قوتوں کی پوری کوشش کے باوجود مسلم لیگ ن کو خا ص ڈینٹ نہیں لگایا جاسکا۔ کہا جاتا ہے کہ عام انتخابات کے دوران ایسا ہی فارمولا تیار کیا جائے گا، جیسا سینیٹ انتخابات میں کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن اور مقتدر قوتوں کو سینیٹ انتخاب میں کامیابی ملی مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ 104کے ہاؤس میں 47ووٹ قوتوں کے خلاف پڑے ہیں اور میری ناقص رائے میں عام انتخابات کے دوران سینیٹ والا کھیل کھیلنا آسان نہیں ہوگا۔ طاقت کے ذریعے ہرانا کوئی مشکل بات نہیں ہے مگر معاملہ الٹ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر بھرپور طاقت کے ساتھ مسلم لیگ ن کو ہرا دیا گیا تو صرف یہی لکھا جائے گا کہ ایک سیاسی جماعت کو ریاستی طاقت کے ذریعے شکست کا سامنا۔ لیکن اگر ایک فیصد بھی امکان ظاہر کرلیا جائے جو کہ میری رائے میں 50فیصد سے بھی زیادہ ہے کہ مسلم لیگ ن جیت جائے گی اور پھر شکست کسے ہوگی ؟ اداروں کی شکست پاکستان کی شکست ہوگی۔ خدارا کسی ایک جماعت کو دیوار سے لگانے میں اتنا آگے نہیں جانا چاہئے کہ نقصان وطن عزیز کا ہو۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔
عمومی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کے پوسٹ مارٹم کا آغاز نگران دور حکومت کے دوران کیا جائیگا۔ طاقت کے ذریعے سب کچھ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ مگر طاقت کے ذریعے کئے گئے ہر اقدام کا ردعمل بھی خوفناک ہوتا ہے۔ آج2002نہیں ہے کہ مرحوم احتشام ضمیر جو کچھ کریں گے کسی کو خبر نہیں ہوگی۔ بلکہ 2018میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ 18سے20نیوز چینلز کو کنٹرول کرنا ممکن ہے مگر آج ہر ہاتھ میں موبائل کی صور ت میں ٹی وی چینل موجود ہے۔ اگر عام انتخابات کے دوران کسی ادارے کے حاضر سروس اہلکار کی ایسی کوئی ویڈیو سامنے آئی ،جیسی کسی دور میں پولیس سے متعلق آیا کرتی تھی۔ جس سے یہ تاثر ملے کہ انتخابات پر اثر انداز ہوا جارہا ہے تو اس کا ردعمل یقینی طور پر خطرنا ک ہوگا۔ کل کا مجھے نہیں معلوم مگر آج کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ بھرپور طاقت کا استعمال کئے بغیر مسلم لیگ ن کو ہرانا ممکن نہیں ہے۔
اسلئے اداروں کو ایسی نہج پر نہیں جانا چاہئے،جہاں سے واپسی کا سفر ممکن نہ رہے۔ اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنی مضبوطی دیکھنی چاہئے۔ جمہوریت ایک مسلسل سیاسی پراسس ہوتا ہے۔ جس میں غلطیوں کے غالب امکانات ہوتے ہیں۔ اور یہ جمہوریت کی خوبصورتی اور آزادی ہے جو ہمیں تنقید کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جمہوریت نے اگر ہمیں کچھ نہیں دیا تو یہ جرات ضرور دی ہے جس سے ہم سوال پوچھ سکتے ہیں۔ آج جس قسم کے حالات بن چکے ہیں۔ اس میں نقصان پاکستان کا ہورہا ہے۔ ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے،پٹرول غریب کی پہنچ سے ایک مرتبہ پھر دور ہوچکا ہے۔ معاشی طور پر پاکستان کو دنیا سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے اور ہم اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ نوازشریف سے جان کیسے چھڑائی جائے؟
سیاسی مسائل کا حل سیاسی ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاستدان کو سیاستدان ہی شکست دے سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن پر حتمی وار چوہدری نثار علی خان کی صورت میں کیا جائے مگر چوہدری نثار جیسے شخص کے ایسے موقع پر نوازشریف کو چھوڑنے سے مجھے ذاتی طور پر تکلیف ہوگی۔ دوست مشکل میں ہو تو ہر قسم کے اختلاف کے باوجود سیسہ پلائی دیوار کی طرح دوستوں کے ساتھ کھڑے ہوجانا چاہئے۔ آج نوازشریف آزمائشی صورتحال سے دو چار ہے۔ 35سال کی رفاقت یہ اجازت ہر گز نہیں دیتی کہ دوستوں کو چھوڑ کر اپنی راہ لی جائے۔ چوہدری نثار بہت زیرک سیاستدان ہیں مگر گزشتہ 35سالوں کی سیاست کا نچوڑ میرے سامنے ہے کہ دو طرح کے لوگوں کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوئی ہے۔ ایک وہ جسے نوازشریف نے چھوڑا ہے او ر دوسرا وہ جس نے نوازشریف کو چھوڑا ہے۔ کہاں سے شروع کروں کہاں پر ختم کروں؟ ذوالفقار کھوسہ کا خاندان آج ٹکٹو ں کے لئے بنی گالا کے چکر لگا لگا کر تھک گیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب ذوالفقار کھوسہ پوری مسلم لیگ ن کے ٹکٹ تقسیم کیا کرتے تھے۔ حامد ناصرچٹھہ اپنے بیٹے کے لئے تحریک انصاف کے ٹکٹ کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ غوث علی شاہ کاکوئی تذکرہ تک نہیں ہے۔ چوہدری برادران گھر کی سیٹوں کو ترس گئے ہیں۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ جو شاید ایک کالم میں نہ سما سکیں۔ آج چوہدری نثار کا نوازشریف کو چھوڑنا بالکل نہیں بنتا ۔ بلکہ چوہدری نثار علی خان کو تو تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر مسلم لیگ ن اور اداروں کے درمیان جمی برف کو پگھلانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ آج اس ملک میں چوہدری نثار واحد آدمی ہے ،جو لاہور اور راولپنڈی کو قریب لاسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ چوہدری نثار کے تمام تحفظات جائز ہوں مگر یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ آج مسلم لیگ ن کو چوہدری نثار کی ضرورت ہے۔ اور چوہدری نثار کی ذات بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ جچتی ہے۔ چوہدری نثار نے ایسے موقع پر مسلم لیگ ن کو خیر باد کہا تو مورخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آج دوستی کا قرض اتارنے کا وقت ہے۔ نواز شریف کے لئے ماضی میں ہمیشہ Trouble Shooterرہنے والے چوہدری نثار کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں اور آج بھی مسلم لیگ ن کی کشتی کو اس گرداب سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اگر چوہدری نثار صاحب نے دوسرا راستہ چنا اور وقتی سہولت کو ترجیح دی تو یاد رکھیں کہ وزیراعظم تو ظفراللہ خان جمالی اور شوکت عزیز بھی رہے ہیں مگر آج انہیں کوئی جانتا تک نہیں ہے۔ آج آپ کا امتحان ہے کہ آپ تاریخ میں چوہدری نثار بن کر زندہ رہتے ہیں یا پھر بالا لوگوں کا راستہ چنتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)