ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر طریقے سے دور کیا کرو، سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی، گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔(سورہ حٰم السجدۃ،آیت ،34)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ برائی کا اچھائی سے بدلہ دینے کا حکم دیا ہے اور اس کانتیجہ ارشاد فرما یا کہ تم اپنے اچھے رویے سے ایک جانی دشمن کو اپنا جگری دوست بنا سکتے ہو اور فرمایا کہ یہ خوبی توصرف اپنے نفس پر قابورکھنے والوں اور نصیب والوں کو حاصل ہو سکتی ہے، کیونکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے انسان بہت جلدباز، جذباتی ، بے صبرا اور عاقبت نااندیش واقع ہوا ہے۔
وہ غصے میں بھی فوراً آجاتا ہے ، جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلے کر جاتاہے اور کسی بھی معاملے میں بغیر سوچے سمجھے فوری رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔
آج کل ہمارے گھروں میں ، خاندانوں میں ، ملنے جلنے والوں میں ، دن رات یہ مسائل پیش آتے ہیں کہ فلاں نے میرے ساتھ یہ کردیا اور فلاں نے یہ کردیا ،اب میں اس کے ساتھ ایسا کروں گا اور ویسا کروں گا، اس سے بدلہ لینے کی سوچتے رہتے ہیں ، دوسروں سے شکایت کرتے پھرتے ہیں ،اسے طعنہ دیتے رہتے ہیں ،دوسروں سے اس کی برائی اور غیبت کرتے ہیں،حالانکہ یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
اگر ہم معاف کردیں اور درگزر کریں تو ہم بڑی فضیلت اور ثواب کے مستحق بن جائیں۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی یارسول اللہﷺ! میرے کچھ رشتے دار ہیں، میں ان سے ملتا جلتا ہوں اور وہ مجھ سے نہیں ملتے، میں حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ برا سلوک کرتے ہیں، میں بردباری کا مظاہرہ کرتا اور وہ جہالت برتتے ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم واقعی سچ کہہ رہے ہو تو تم ان کے چہروں پر مٹی ڈالتے رہو۔ تم اسی طرح رہو، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ اور تمہارا مددگار ہے‘‘۔
صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ رسولِ عربی ﷺنے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے، دونوں ملتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں، دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کے ساتھ ابتدا کرے‘‘۔
برائی کا اچھائی سے بدلہ دینے کے حوالے سے مسند احمد میں ایک روایت موجود ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابو بکرؓ سے بدتمیزی کی ،اس موقعے پر نبی کریمﷺ بھی وہاں تشریف فرما تھے، آپ تعجب خیز لہجے میں تبسم فرما رہے تھے، جب وہ بدتمیزی میں حد سے گزر گیا تو سیدنا ابو بکرؓ نے اُسے اُس کی بدتمیزی کا جواب دے دیا، تو نبی کریمﷺ ناراض ہو کر وہاں سے چل پڑے، سیدنا ابوبکرؓ کو فکر لاحق ہوئی اور وہ آقا کریم ﷺکے پیچھے چل پڑے اور اُن سے تشریف لے جانے کی وجہ معلوم فرمائی اور عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ، جب تک وہ شخص مجھے برا بھلا کہتا رہا اور بدتمیزی سے پیش آتا رہا،آپﷺ تشریف فرما رہے اور جب میں نے اس کی بات کا جواب دیا ہے تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اے ابوبکرؓ تمہاری حمایت میں فرشتہ اسے جواب دے رہا تھا،جب تم نے جواب دیا تو شیطان آ ٹپکا،اس لیے میں چل دیا،اے ابو بکرؓ یاد رکھو، تین چیزیں حق ہیں۔
٭جو شخص بھی ظالمانہ کارروائی کے ذریعے نشانہ ستم بنایا جائے اور وہ مظلوم شخص اللہ عزوجل کی رضا جوئی کی خاطر چشم پوشی کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اسے اپنی نصرت و حمایت سے سرفراز فرماتا ہے۔
٭اور جو بندہ صلہ رحمی کرتے ہوئے عطیات و صدقات ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کثرت سے نوازتاہے۔
٭اور جو آدمی مانگنے کا دروازہ کھول لیتا ہے تاکہ مال کی فروانی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کی قلت وارزانی میں اضافہ فرما دیتا ہے‘‘۔
بہر حال دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بھی درگذر فرمائے اورہمیں دوسروں سے درگزر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)