• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار پچھلے آٹھ مہینوں کے دوران ملکی معیشت کی کارکردگی کی جو مجموعی تصویر پیش کررہے ہیں، ان کی کئی توجیہات بھی سامنے آرہی ہیں اور آنے والے دنوں میں اچھے نتائج کی امیدیں بھی کی جارہی ہیں مگر زمینی حقائق ایسے بہرطور نہیں کہ ان پر تشویش ظاہر کئے بغیر رہا جاسکے۔ کسی بھی ملک کے عام آدمی کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس کا زندہ رہنے کا حق تسلیم کیا جائے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے والے بنیادی عوامل کویقینی بنانے اور آسانیاں پیدا کرنے کا ایسا بندوبست کرے جس میں آمدنی کے ذرائع مثلاً پیداواریت ، تجارت اور معیشت کو چلانے والے دیگر عناصر مثبت نتائج دے رہے ہوں، عام آدمی کو روزگار، تعلیم، علاج معالجے سمیت بنیادی سہولتیں میسر ہوں اور سرکاری محکمے اہلکاروں کی ساکھ اور کارکردگی کے حوالے سے اپنی قابل قدر شناخت رکھنے میں کامیاب نظر آئیں۔ جبکہ پیٹرولیم مصنوعات بجلی، پانی سمیت ان اشیاء کے نرخوں میں کمی کا رجحان نظر آئے جن میں اضافہ مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ مگر جب جولائی 2017ء سے فروری 2018ء تک 8ماہ میں تجارتی خسارہ 19؍ارب 69؍کروڑ ڈالر، کرنٹ اکائونٹ خسارہ دس ارب 82کروڑ (یعنی جی ڈی پی کے 4.8فیصد کے مساوی) ہوچکا ہو، اشیاء و تجارت کا مجموعی خسارہ 23؍ارب 22؍کروڑ ڈالر رہا ہو تو یہ سوچنا ضروری ہوجاتا ہے کہ معاشی بہتری کی تمام تر کوششوں اور دعووں کے برعکس اہم شعبوں میں وہ نتائج کیوں نہیں ظاہر ہوئے جن کی توقع کی جارہی تھی۔ یہ درست ہے کہ 8؍ماہ کے دوران ترسیلات زر کی مالیت 12.83؍ارب ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران حاصل کردہ مالیت 12.41؍ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے مگر اس معاملے میں بھی اس سوال کو نظرانداز کرنا درست نہیں ہوگا کہ جنوری کی نسبت فروری میں ترسیلات زر میں کمی کا رجحان کیوں رہا؟ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ جنوری کے مقابلے میں فروری کے دوران برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے فروری کا تجارتی خسارہ کم رہا۔ مگر رواں ہفتے کے دوران ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی غیرمعمولی بے قدری کا نظر آنا اس کتابی فارمولے کے لحاظ سے تو دل خوش کن ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے انڈسٹری کا پہیہ چلے گا مگرعام آدمی کے تجربات کے حوالے سے پریشان کن ہے جس کی زندگی میں ڈی ویلویشن کا اس کے سوا کوئی اثر نہیں پڑا کہ گردے بیچنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور غریب مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لئے روٹی کی فراہمی کی آس میں انہیں فروخت کرنے پر آمادہ ہوگئیں جبکہ بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے زندگی بھر پیٹ کاٹنے والے کی جمع پونجی کا خاصا حصہ بینک میں رکھے رکھے اپنی اصل قوت خرید سے محروم ہوگیا۔ پچھلے مہینوں میں سی پیک سمیت ترقیاتی کاموں کی وجہ سے درآمدات میں کمی اور قرضوں میں اضافہ ہوا تو آنے والے مہینوں میں درآمدات و برآمدات کا توازن بہتر ہونے کی امید یکسر بے محل نہیں ۔ یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ عالمی منڈی میں راج کرنے والے ممالک مسابقت کی دوڑ جیتنے کے لئے محض کرنسی کی قدر گھٹانے کا راستہ اختیار نہیں کرتے بلکہ بجلی، گیس، پانی کے نرخ اور ٹیکس کم کرکے میدان مارتے ہیں۔ جب تک صحت، تعلیم اور افرادی قوت کی تربیت پر وسائل خرچ نہیں کئے جاتے زراعت اور صنعت میں ترقی اور برآمدات کے لئے مسابقتی نرخوں کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ وطن عزیز کو مطلوب معاشی نتائج حاصل کرنے کے لئے سنجیدگی سے اپنی ترجیحات سمیت مختلف پہلوئوں پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمارے مزدوروں اور کسانوں کو زندہ رہنے کے بنیادی عناصر کی ضرورت ہے جس کے لئے ’’فوڈ باکس سیکورٹی‘‘ اور روزگار پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ اچھا ہوگا کہ ہماری اشرافیہ غریب کا آخری نوالہ چھیننے کے رجحان کو ترک کرکے براہ راست ٹیکس کی صورت میں خود بھی ملک کی خدمت کو شعار بنائے۔

تازہ ترین