• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی بینکاری میں سرمایہ کاری!

اسلامی بینکاری میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مداربہ کے تحت تمام کام کئے جائیں لیکن اسلامی بینکاری کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ابھی ہمارا معاشرہ اتنا نیک نہیں ہوا ہے کہ ہم مداربہ کو پورے طریقے سے لاگو کریں، اس میں یہ دیکھنے کی بات ہے کہ مداربہ میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ایک سرمایہ کار جب سرمایہ کاری کرتا ہے تو اُسے یہ ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ وہ اسلامی بینک کے ساتھ ایک قسم کی شراکت داری کررہا ہے۔ 

لیکن اس شراکت داری میں مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ کار اور اسلامی بینک جو مدارب کہلاتا ہے منافع میں بینک شرکت کرتا ہے لیکن نقصان میں نہیں۔ اس لئے میرا مباحثہ اسلامی بینکاروں کے ساتھ رہا ہے اور مختلف سیمیناروں میں بھی میں اس شراکت داری کے ماڈل پر تنقید کرتا رہا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم محنت کرتے ہیں ہماری محنت ضائع ہوجاتی ہے اور سرمایہ کار کا سرمایہ ضائع ہوجاتا ہے۔ 

درج ذیل مزید سرمایہ کاری کے طریقے یہ ہیں۔ جسے غیر سودی مالیاتی نظام کہا جاتا ہے ایک ایسا موضوع ہے جس پر ابھی تک بہت زیادہ توجو نہیں دی گئی لیکن حالیہ مالیاتی بحران کے بعد اس کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں جیسے جیسے اسلامی بیداری کا سلسلہ شروع ہوا ویسے ہی چھوٹے چھوٹے غیر سودی مالیاتی ادارے بھی قائم ہونے شروع ہوئے۔ 

مشرقِ وسطیٰ اور ایشیائی ممالک میں اتحاد کی کمی کی وجہ سے عالمی پیمانے پر کسی اسلامی بینک کا قیام بہت ہی مشکل تھا لیکن حالات میں تبدیلی آئی مصر، سعودی عریبیہ اور ملائشیا میں غیر سودی اداروں کی ایک تحریک چلی اور بعد میں یہی تحریک اسلامی ڈویلپمنٹ بینک کے قیام کی وجہ بنی۔ 

اسلامی ڈویلپمنٹ بینک کے بعد بہت سارے چھوٹے چھوٹے بینک اور سرمایہ کاری کے ادارے قائم ہوئے مختصر یہ کہ 1975ء سے لے کر 1990ء کے درمیان اسلامی بینکاری کے متعلق بے شمار کوششیں ہوئیں۔ 70اور 80کی دہائی میں اسلامی بینکاری کے افعال بالکل عوامی بینک کی طرح تھے جو عام طور پر عوام کی خدمت پر مامور تھے مثلاً اکائونٹ کھولنا، چیک بک جاری کرنا، رقم منتقل کرنا، چھوٹی موٹی تجارت میں مدد کرنا، لوگوں کو اسلامی سرمایہ کاری کے معاملے میں مشورہ دینا وغیرہ۔ 1980ء سے لے کر 1990ء کے درمیان اسلامی بینکنگ کے میدان میں مزید ترقی ہوئی۔ 

اس عرصہ میں اسٹاک بروکنگ فرمز اور میوچل فنڈز وجود میں میں آئے، تکافل کمیٹیاں قائم ہوئیں، اسلامی بونڈز کی تخلیق ہوئی۔ اگر 1990ء سے لے کر 2010ء کے عرصے کا جائزہ لیں تو اس مدت میں بھی غیر معمولی ترقی ہوئی۔ وینچر کیپیٹل، مائیکرو فنانس، پراجیکٹ فنانس، ایکویٹی فنانس، زرِ مبادلہ، رئیل اسٹیٹ، کموڈٹی مارکیٹ اور کارپوریٹ بینکنگ جیسے بزنس کے تصور اس دور میں رونما ہوئے اور آج اسلامی بینکاری کا دخل مالیات سے متعلق ہر شعبہ میں ہو رہاہے۔ 

دنیا کے ہر بڑے بینک نے اسلامی بینکاری کا علیحدہ شعبہ قائم کر رکھا ہے پاکستان، سوڈان، اندونیشیا، ملائشیا میں اسلامی بینکاری عوامی بجٹ سے لے کر پوسٹ آفس تک کے معاملات میں داخل ہو گئی ہے۔ ملائشیا نے اپنے یہاں اسلامی اور غیر اسلامی دونوں نظمِ معیشت کو جگہ دے رکھی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ بلا سود فنانسنگ نے سودی نظامِ معیشت کو ترقی میں پیچھے ڈال دیا ہے اور اس سود خور و سرمایہ دارانہ دور میں بھی اسلامی بینکاری کا گراف ملائشیا کے تمام بازاروں میں سب سے اوپر ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً 500کے قریب ادارے اسلامی طریقے کے مطابق سرمایہ کاری اور بینکاری کو اپنائے ہوئے ہیں۔ 

70سے زائد ممالک میں اسلامی بینکاری کا ظہور ہو چکا ہے۔ دن بدن اسلامی بینکاری کی طلب میں اضافہ ہو رہاہے۔ لوگ اسلامی بینکاری کے قریب آ رہے ہیں اور اسلامی طریقے سے تجارت اور سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں موجودہ مالی بحران سودی نظامِ معیشت کا مظہر ہے۔ لوگ اس مالی بحران سے پریشان اور خوف زدہ ہیں اس بحران نے لوگوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

بلا شبہ قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات صنعت و تجارت، معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ مغربی دنیا نہ صرف ان اصولوں کی افادیت کا اعتراف کرتی ہے بلکہ انہیں بڑی تیزی سے اپنا رہی ہے۔ 

جس کی ایک چھوٹی سی مثال اسلامی بینکاری نظام ہے جو معاشی حوالے سے اپنی بے پناہ اہمیت کی وجہ سے صرف اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ آج یورپ میں بھی یہ انتہائی تیزی سے فروغ پا رہی ہے اگر چہ وہاں یہ تصور بہت زیادہ عام نہیں لیکن جلد ہی یہ پوری طرح وہاں اپنے قدم جما لے گی کیونکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی اسلامی بینکاری اور مسلم فناسنگ نظام متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

مزید براں یورپ میں یورپی اسلامی سرمایہ کاری بینک اور برطانوی اسلامی بینک جیسے کئی بڑے اسلامی مالیاتی ادارے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ تھائی لینڈ اور سنگا پور بھی انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں ایشیا میں سنگاپور اور ہانگ کانگ سب سے پر کشش اسلامی فنانس مارکیٹ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ 

اس وقت برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگرام اس وجہ سے شروع کئے گئے ہیں کہ ان کے بینکوں سے ایک بڑی رقم نکل کر مسلمان ملکوں کے اسلامی بینکوں میں نہ چلی جائے چنانچہ وہ اس سرمائے کو اپنے بینکوں میں محفوظ رکھنے کے لئے اپنے یہاں اسلامی بینکاری نظام کو فروغ دے رہے ہیں۔

تازہ ترین