• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے راولپنڈی کے سپوت کہلائے جانے والے شیخ رشید نے میڈیا میں جوڈیشل ایمرجنسی کے الفاظ متعارف کرواتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شفاف انتخابات عدلیہ کی زیر نگرانی ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ ہرچینل پر بیٹھے اینکرز اور تجزیہ نگاروں نے موصوف کی طرف سے چھوڑے جانے والے اس نئے شوشے پر کئی گھنٹوں کے پروگرام کر ڈالے۔ ویسے بھی شیخ رشید میڈیا کے ڈارلنگ ہیں، ان کی سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ کو اتنے ووٹ پورے ملک میں نہیں ملے ہوں گے جتنی بار شیخ صاحب میڈیا پر " ایکسکلوزیوــ" انٹرویو دے چکے ہیں۔ ان کے اس نئے شوشے پر جب میڈیاآنے والے انتخابات کوعدلیہ کے زیر انتظام سیٹ اپ میں کروانے یا نہ کروانے کی بحث میں الجھے ہوئے تھے، پانی کا عالمی دن چپکے سے گزر گیا۔ ہر سا ل کی طرح اس بار بھی چند ایک این جی ایوز نے پانی کے عالمی دن کی مناسبت سے فائیو اسٹار ہوٹلوں میںسیمینار کئے ہوں گے۔ کسی سرکاری محکمے نے چار چھ بینر چھپوا کر اپنے محکمے کے سیکرٹری کی سربراہی میں کسی واک کا اہتمام کر لیا ہو گا، ان سب ایونٹس کے بارے میں کسی اخبار میں پچاس ساٹھ الفاظ پر مشتمل کوئی خبر بھی چھپ گئی ہو گی۔ چند ایک بڑے اخبارات نے پانی کے عالمی دن پر اسپیشل ایڈیشن شائع کر دیئے ہوں گے لیکن اس مسئلے کے بارے میں ہم نے کبھی بھی سنجیدگی سے قومی سطح پر بحث شروع کرنے کی کوشش نہیں کی ۔حالانکہ اگر موجودہ حالات میں کسی ایمرجنسی کی فوری ضرورت ہے تو وہ واٹر ایمرجنسی ہی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح اگر موجودہ طرز پر ہی بڑھتی رہی تو خدشہ ہے کہ اگلے دس سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی۔
مسئلے کی نوعیت اس قدر شدید ہے کہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کی جانب سے تیار کی جانے والی رپورٹس میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سال دو ہزار پچیس تک پاکستان میںپانی کا بحران خطرناک صورت اختیار کر جائے گا اور دستیاب پانی پانچ سو کیوبک میٹر فی کس تک رہ جائے گا، جوقحط زدہ افریقی ممالک سے بھی کم ہو گا۔ دستیاب پانی کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور بڑھتی آبادی کے پانی کی دستیابی پر اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انیس سو اکاون میں دستیاب پانی پانچ ہزار کیوبک میٹر فی کس تھا جو کم ہوکر اب ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم رہ گیا ہے ۔اس کے مقابلے میں امریکہ میں تقریباََ آٹھ ہزار کیوبک میٹر فی کس جبکہ کینیڈا میں اسی ہزار کیوبک میٹر فی کس پانی دستیاب ہے۔ یہ یقیناََ ایک خطرناک صورتحال ہے، پانی کی کمی سے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچے گا بلکہ ملکی سلامتی کے لئے بھی یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہو گا۔
پاکستان پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے اعتبار سے بھی باقی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم اپنے دریائوں میں بہنے والے پانی کا صرف دس فیصد حصہ محفوظ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریائوں کا پانی بھارت کو دینے کے بعد سے پاکستان کی کسی بھی حکومت نے نئے ڈیم بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ آج بھی سندھ طاس معاہدے کے فوراََ بعد بننے والے ڈیم منگلا اور تربیلا ہی پانی ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان گزرے سالوں میں یہ دونوں ڈیم مٹی سے بھر گئے ہیں اور وقتاََ فوقتاَان کی گنجائش بڑھانے کے لئے ان کو ریز بھی کیا گیا ہے۔ لیکن محتاط اندازے کے مطابق دونوں ڈیم ملکی ضروریات کے لئے صرف تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں استعمال ہونے والے پانی کا تقریباََ نوے فیصد حصہ زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے، کینال کالونیز کے آباد ہونے کے بعد سے لے کر آج تک کم و بیش پانی کی ترسیل کا سسٹم ویسا کا ویسا ہی ہے۔ اگرچہ کئی مرتبہ نہروں اور کھالوں کو پختہ کرنے کے منصوبوں کا آغاز بھی کیا گیا لیکن آج بھی زراعت کے لئے استعمال کئے جانے والے پانی کا تقریباََ آدھا حصہ سسٹم لاسز کی نذر ہو جاتا ہے۔ یعنی پورے ملک میں استعمال کئے جانے والے پانی کا تقریباََ پینتالیس فیصد حصہ ایسا ہے جو کہ ہمارے بوسیدہ نہری نظام کی نذرہوتا ہے۔ دوسری جانب نہری پانی کی جو قیمت حکومت کی جانب سے مقرر کی جاتی ہے اس سے حاصل ہونے والی رقم نہروں کے سسٹم کو چلانے پر اٹھنے والے اخراجات کا بیس فیصد بھی نہیں ہے۔ جب لاگت ہی پوری طرح سے وصول نہیں کی جاتی تو پھر سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے لئے فنڈز کہاں سے آئیں گے۔ لیکن کسی بھی حکومت کے لئے یہ غور طلب مسئلہ نہیں رہا،آج بھی ایک ایکڑ کے لئے نہری پانی کی قیمت چند سو روپے سالانہ ہے جبکہ یہی پانی اگر ٹیوب ویل کے ذریعے حاصل کیا جائے تو کئی ہزار روپے سالانہ فی ایکڑ خرچہ ہوتا ہے۔ بات صرف زراعت تک ہی محدود نہیں ہے، ہمارے بڑے شہروں میں بھی پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی اور اسلام آباد میں ٹینکر مافیا کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح ہمارے دیکھتے دیکھتے کئی سو فٹ پر جا پہنچی ہے۔ میرے بچپن کا شہر اب کئی کروڑ نفوس پر مشتمل میگا سٹی بن چکا ہے لیکن اس کی پانی کی ضروریات کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ شہروں میں نہ تو واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہیں نہ ہی زیر زمین پانی کے ذخیروں کو ریچارج کرنے کے بارے میں کوئی جامع لائحہ عمل موجود ہے۔بھارتی شہروں احمد آباد اور دہلی میں رین واٹر ہارویسٹنگ کے طریقے کو استعمال کر کے بارش کے پانی کو چھوٹے تالابوں اور ٹینکوں میں ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ریچارج کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ دہلی کی صرف ایک کالونی میں لوگوں نے صرف 4.5 لاکھ روپے اکٹھے کر کے ان کی مدد سے 170 ملین لیٹر بارش کا پانی بچایا۔ مگر ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں تو منصوبہ بندی یا کوشش کیا کریں گے۔
وقت آگیا ہے کہ ہم آنے والے بحران کے لئے تیاری شروع کر دیں، پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ پانی کو استعمال کرنے کے اپنے موجودہ رویے میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ خصوصاََزراعت کے شعبے میں ایسی اصلاحات متعارف کروانے کی اشد ضرورت ہے جن کی مدد سے پانی کی بچت کو ممکن بنایا جا سکے،جیسے رین گن، ڈرپ ایری گیشن وغیرہ۔ اس سلسلے میں اگرچہ محدود بنیادوں پر پہلے سے ہی کام کیا جا رہا ہے لیکن اس کو پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ۔۔۔ پھر ہم اس مسئلے کے بارے میں کیوں غیر سنجیدگی کا شکار ہیں ، سمجھنا مشکل ہے۔

تازہ ترین