• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آسمانِ ولادت کے تاج دار، سلسلہ چشتیہ کے روشن چراغ: حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتیؒ

آسمانِ ولادت کے تاج دار، سلسلہ چشتیہ کے روشن چراغ: حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتیؒ

مخدوم زادہ حافظ مطلوب احمد چشتی

بر صغیر کے مشہور ومعروف شہر اجمیر شریف میں بر سہا برس سے ایک ایسی روحانی شمع روشن ہے، جس کی ضیاء پاشی کا دور دور تک شہرہ ہے۔ بے حساب لوگ اس شمع توحید کی بدولت صراط مستقیم تک جا پہنچے اور ہنوزیہ سلسلہ جاری وساری ہے، اگر اس کے موجد کو تلاش کیا جائے تو سلسلہ چشتیہ کے جلیل القدر روحانی پیشو ا حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری ؒ کی ذات مبارکہ کا عکس سامنے آجاتا ہے، آپ کی درگا ہ عالیہ اپنے اندر ایک خاص قسم کی کشش لئے ہوئے ہے، جس کے سبب لوگ اس کی جانب از خودکھنچے چلے آتے ہیں۔ 

بڑے بڑے مسلمان بادشاہوں نے بھی اس آستانہ غریب نواز پر اپنی جبینو ں کو خم کیا اور تاریخی عمارتیں تعمیر کراکر انہوں نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ان بادشاہوں میں مغلیہ دور کے شاہ جہاں اور اورنگزیب عالم گیر کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں، جنہوں نے درگاہ غریب نواز میں عالی شان مساجد تعمیر کرائیں، ان مساجد میں زائرین اور عقیدت مندانِ خواجہ جوق در جو ق آتے ہیں اور بڑے ذوق وشوق سے نماز ادا کرتے ہیں۔ نمازیوں کی تعداد جمعہ کے روز خاصی بڑھ جاتی ہے اور جگہ نہ ہونے کے باعث صفیں درگاہ شریف سے باہر عام شاہراہ پربچھانی پڑ تی ہیں ۔ 

درگاہ شریف میں مذکورہ تاریخی مساجد کے علاوہ دودیگیں بھی قائم ہیں جو کہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں ،ان دیگوں میں سے ایک بڑی دیگ اور ایک چھوٹی دیگ کہلاتی ہے، چھوٹی دیگ میں ساٹھ من لنگر پکتاہے ،جب کہ بڑی دیگ میں ایک سوبیس من لنگر پکتا ہے، یہ دیگیں ایک خاص قسم کی دھات سے تیار کی گئی ہیں، جن کی انفرادیت یہ ہے کہ کئی سو سال گزر جانے کے باوجود ان میں آج تک کسی قسم کازنگ وغیرہ نہیں آیا،جب کہ بے حساب لوگ ان میں تیار کردہ لنگر وغیرہ سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ 

حضرت خواجہ غریب نواز ؒکے مزار کی تعمیر بادشاہ سلطان التمش نے اپنے دورِ اقتدار میں کرائی،جب کہ شاہ جہاں نے مزار اقدس میں دوچاندی کے کٹہرے لگوائے، جن کا وزن تقریباً پانچ سو کلو چاندی بتایا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں نواب رام پور کی جانب سے گنبد کے بالائی حصے میں سو امن سونے کا تاج نما کلس لگوایا گیا، جس کی چمک اور وجاہت کا دور دور تک چرچا ہے۔ 

درگا ہ آستانہ غریب نواز کے اس تاج نما کلس کو اور درگاہ شریف کے شاہانہ طرز کے انتظامات کو دیکھ کر بالکل ایسا شائبہ ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی شہنشاہ کا دربار ہے۔ دراصل یہ سب تجلیات وفیوض وبرکات سلطان الہند ،حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی ؒ کے روحانی تصرف اور محبوبیت کے اعلیٰ مقام پرفائزہونے کی ایک واضح دلیل ہیں۔ 

حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے دین اسلام کی سر بلندی کے لئے نہایت ہی بصیرت افروز کارہائے نمایاں انجام دئیے اور بدعقیدہ لوگوں کو آنِ واحد میں راسخ العقیدہ بنادیا، جس کے باعث دنیا آج بھی آپ کے احسانات کی معترف ہے اور آپ کی بالادستی کو دل سے تسلیم کئے ہوئے ہے ،گو کہ آپ کو دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے کئی سوسال گزر چکے ہیں ،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ اورسلسلہ سہروردیہ کی جانب سے بھی دین محمد ی کی شمع کو فروزاں کرنے کے سلسلے میں جو ریاضتیں اور مجاہدایت کئے گئے،وہ کسی طرح کسی سے کم نہیں ،تاہم پھر بھی کفرستان ہند میں جس نہج پر سخت مشکل ترین دور میں سلسلہ چشتیہ کے جلیل القدر روحانی پیشوا حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتیؒ نے دین اسلام کے فروغ کے سلسلے میں جو کاوشیں کیں، وہ نہ صرف قابل قدر بلکہ ناقابل فراموش ہیں ،یہ بجا طور پر کہاجاسکتا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی ذات والا علم وعرفان کا سمندر ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی پیشوائوں کی کہکشاں میں ایک چمکدار ستارہ ہیں، جس کی چمک سے نہ صرف برصغیر منور ہے ،بلکہ اس کی تابانی کا دور دورتک شہرہ ہے۔ اجمیر شریف میں چھ رجب کو آپ کی درگاہ بقعہ نوربنی رہتی اور معرفت کے نور برساتی ہے ۔

درگاہ غریب نواز میں مادی غذا کے علاوہ روحانی غذاکا سلسلہ بھی جاری وساری رہتا ہے، بلا ناغہ ہر روز مغرب کی نماز کے وقت ایک روشنی بھی پڑھی جاتی ہے ،جس کے آخری بندیہ ہیں۔

الٰہی تابود خورشید و ماہی

چراغِ چشتیاں را روشنائی

اس روشنی کے وقت خدام آستانہ عالیہ اجمیر شریف ضرور موجود ہوتے ہیں جو کہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی دعامانگتے ہیں۔ خدام حضرات کایہ عقیدہ ہے کہ روشنی کے وقت کی جانے والی دعا بارگاہ ایزدی میں مستجاب ہوتی ہے۔ کئی سو سال گزر جانے کے باوجود آپ ؒ کی درگاہ آج بھی بلا امتیاز ہرخاص وعام کےلیے مرجع خلائق اور روح کی تسکین کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

بر صغیر میں جس قدر روحانی فیض حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا عام ہوا شاید ہی کسی اور بزرگ کا ہواہو۔صاحبِ بصیرت حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح سے سمندر کا پانی اپنے کنارے سے اچھل اچھل کر تمام نشیب و فرازکو زیرِ آب کردیتا ہے، اسی طرح غریب نواز کا فیض روحانی بھی بلا امتیاز ہر ایک تک پہنچنے کے لئے بے تاب رہتاہے، بشرطِ یہ کہ کوئی نظر متلاشی ہو اور کوئی قلب رجوع ہو۔

پہلے روز جب حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے اجمیر شریف میں ایک جگہ ذکرِ الٰہی کی خاطر قیام فرمایا تو وہاں کے حاکم وقت کے کارندوں نے کہا کہ آپ کسی اورجگہ اپنا پڑائو ڈالیں، یہاں راجہ کےاونٹ بیٹھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ ہم مسافر ہیں، کچھ دیر بعد چلے جائیںگے، مگر راجہ کے کارندوںنے باربار آپ کو چلے جانے پر مجبور کیا تو آپ نے فرمایا کہ اچھا ہم چلے جاتے ہیں، اب یہاں راجہ کے اونٹ ہی بیٹھے رہیں گے، چنانچہ اونٹ ایسے بیٹھے کہ بیٹھے ہی رہ گئے۔

کارندوں نے راجہ کو ماجرا سنایا تووہ بھی ششدر ہو کر رہ گیا، پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا کہ مسلمان رحم دل ہوتے ہیں، ان سے جاکر معافی مانگ لو، ایسا ہی ہوا غریب نوازنے فرمایا، جائو اﷲ کے حکم سے اونٹ اٹھ جائیں گے اور وہ اٹھ گئے۔کچھ وقفے کے بعدحضرت غریب نوازؒ نے خدمت گار سے کہا کہ وضو کے لیے لوٹے میں تالاب سے پانی لے آئو، جب خادم پانی بھر نے لگے توکسی غیر مسلم نے تالاب میں سے انہیں پانی لینے سے منع کر دیا اور کہا کہ اگر تم نے اپنے لوٹے میں پانی بھرا تو ہمارے تالاب کا پانی ناپاک ہو جائےگا ،خادم مایوس لوٹ آئے اور مذکورہ ماجرا بیان کیا۔ 

غریب نواز نے خادم کو حکم دیا کہ تم جائو اور یہ مٹی کا لوٹا تالاب میں ڈال کر کہو کہ تمہیںمعین الدین بلاتا ہے جوں ہی خادم نے غریب نوازؒ کے حکم کے مطابق لوٹے کو پانی میں ڈال کر کہا کہ پانی تمہیں معین الدین بلا رہے ہیں، آنِ واحد میں تالاب کا پانی لوٹے میں آگیا ، یہ معجزہ دیکھ کر راجہ اور اس کے کارندے انگشت بد نداں رہ گئے، پھر غریب نوازؒ سے معافی مانگی۔ 

آپ نے فرمایا کہ جائو یہ پانی تالاب میں ڈال دو اور کہو کہ اﷲ کے حکم سے تالاب کو سیراب کر دو۔ تالاب پانی سے بھر گیا۔ جب سے اس تالاب کا نام انا ساگر ہوگیاہے جو کہ آج تک انا ساگر ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے اجمیر شریف میں قیام کے دوران مشاہدہ کیا کہ یہاں ہندو بھجن گا گا کر اپنے مذہب کی ترویج کر رہے ہیں تو غریب نواز ؒ نے اس کے سحر کو توڑنے کے لئے اپنے تبلیغی مشن کی ابتدا حمد و ثنا ء اور نعت رسول مقبول ﷺ سے محفل سما ع سے کی جس نے ہندوئوں کی قائم کردہ بھجن کی تعلیمات کے سحر کو یک لخت ختم کر ڈالا۔

آپ کی یہ حکمت عملی نہایت ہی موثر ثابت ہوئی اور چاروں طرف سے سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور دین محمدی ﷺ کی شمع جل اٹھی ، چراغ سے چراغ جلنے لگے، جن کی چمک سے دور دور تک نور پھیل گیا جس کے باعث حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی المعروف خواجہ غریب نوازؒ کے دست حق پر لاکھوں ہندو مشرف بہ اسلام ہوئے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین