• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے غیر ملکی کوچ کو مسیحا سمجھ لیا

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے غیر ملکی کوچ کو مسیحا سمجھ لیا

شاہد شیخ

پاکستان ہاکی ٹیم نے رواں برس میں اہم ایونٹس میں شرکت کرنا ہے۔ ان میں اگلے ماہ آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز، چیمپئنز ٹرافی اور ورلڈ کپ شامل ہیں۔ ایک عرصہ کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم اتنے قلیل وقت میں ہاکی کی دنیا کے اہم ایونٹس میں شرکت کرے گی۔ 

 ہم کہہ سکتے ہیں کہ قومی ہاکی ٹیم کے ناتواں کندھوں پر بڑا بھاری بوجھ پڑچکا ہے۔13 ویں نمبر کی رینکنگ کی ٹیم سے کسی معجزے کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

اگر پاکستان ٹیم، ایشین گیمز میں کامیابی کو ہی ہدف بنا لے تو بڑی بات ہو گی۔ اس ایونٹ میں کامیابی کی بدولت ہی پاکستان ٹیم اولمپکس میں شرکت کی اہل ہو گی ورنہ اسے کوالیفائنگ رائونڈ کے مرحلے سے ایک بار پھر گزرنا پڑے گا۔ 

پاکستان ہاکی ٹیم کی خراب کارکردگی میں بڑا تسلسل ہے۔ اسی طرح پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ایسے فیصلے جن سے پاکستان ہاکی کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ان میں بھی بہت تسلسل ہے۔ 

ان میں پی ایچ ایف کے فیصلے بھی شامل ہیں اور پالیسیاں بھی۔ ان میں سب سے بڑھ کر پی ایچ ایف کا اپنے ہی فیصلوں کی نفی کرنا ہے۔ اپنے ہی فیصلوں کی نفی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیداروں کی اپنی کوئی سوچ نہیں اور وہ فیصلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ 

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے غیر ملکی کوچ کو مسیحا سمجھ لیا

شہباز سینئر کی موجودگی میں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن اس سطح پر پہنچ جائے گی جہاں ہرکوئی باآسانی کہہ سکتا ہے کہ پی ایچ ایف کے عہدیدار کسی بھی وقت گھر جا سکتے ہیں اور پاکستان ہاکی ٹیم کی رینکنگ مزید گر سکتی ہے۔ 

شاید ہی کوئی یہ منطق سمجھ سکے کہ عمان کے تین ملکی ہاکی ٹورنامنٹ کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے، جس کی دوسری دو ٹیمیں عمان اور جاپان کی تھیں۔ جاپان کی رینکنگ16 ویں اور عمان کی32 ہے۔ ان ٹیموں کی موجودگی میں پاکستان ہاکی ٹیم نے ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ 

اس سے ہاکی کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی بتا سکتا ہے کہ قومی کھیل کہاں کھڑا ہے۔ اس میں کسی دوسرے کاکوئی قصور نہیں ہے بلکہ ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ پچھلے دس برسوں میں خاص طور پر جو حکومت کے قریب ہوا اس نے پاکستان ہاکی فیڈریشن میں آکر مزے اڑائے۔ 

حکومت سے فنڈز لئے فنڈز اڑائے۔ فیڈریشن میں مالی بےقاعدگیوں کی باتیں زبان زد عام ہیں۔ معاملات عدالت میں چل رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی وقت فیڈریشن میں سے کسی اہم شخصیت کا دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔ 

بات ہو رہی تھی فیڈریشن کے فیصلوں کی جس میں تسلسل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ فیڈریشن کو مینجمنٹ پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی۔ ایسا شاید ہی کسی دوسری ٹیم میں دیکھنے کو ملتا ہو۔ حنیف خان اور خواجہ جنید کمپنی کی چھٹی کرائی گئی تو پھر فرحت خان سے بھی جلد ہی دل بھر گیا۔ 

حسن سردار کو ذمہ داریاں دی گئیں اور ان کے ساتھ نوجوان خون ریحان بٹ اور محمد ثقلین کو موقع دیا گیا لیکن اب ایک بار پھر غیر ملکی کوچ کو ہی مسیحا سمجھا جانے لگا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ ایشین گیمز تک ٹیم کے ساتھ کام کریں گے۔ اس کے بعد ان کی ذاتی مصروفیات ہیں، اس لئے دستیاب ہونا مشکل ہے۔ 

لیکن پی ایچ ایف پر امید ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے لئے ٹائم نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ رولنٹ آلٹمنز2003 اور2004میں بھی پاکستان ہاکی ٹیم کے کوچ رہ چکے ہیں۔ 

اس دور میں بھی پاکستان ٹیم کوئی ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکی تھی لیکن اب ایک بار پھر تمام مسائل کا حل رولنٹ آلٹمنز کو سمجھ لیا گیا ہے، ہم قومی کھیل کی بہتری کے لئے دعاگو ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ پاکستان ہاکی کو اس مقام پر پہنچنے میں بیسیوں برس لگ گئے ہیں۔ وہاں سے اوپر لانے میں چھ ماہ کیا چھ برس بھی کم ہیں۔ 

رولنٹ آلٹمنز جب ماضی میں کوچنگ کے لئے پاکستان آئے تو محمد ثقلین ہاکی کھیل رہے تھے۔ تب ان کے آپس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ اب محمد ثقلین کوچنگ اسٹاف میں شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ محمد ثقلین کی موجودگی میں کیا صورت حال پیدا ہوتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین