آخری حصہ
بلاشبہ، حضورسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ازدواجی تعلقات، حسنِ معاشرت اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’ آپؐ ہم میں اس طرح ہنستے بولتے، باتیں کرتے کہ معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ کوئی اولوالعزم نبیؐ ہیں۔‘‘ آپؐ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے، گھریلو ضروریات کے بارے میں گفتگو کرتے، خیریت دریافت کرتے، ازواج مطہرات ؓ کی ضروریات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے۔ کسی بھی اہلیہ سے سخت لہجے میں گفتگو نہیں کرتے۔
اگر کوئی بات ناگوار بھی گزرتی، تو اسے اس وقت نظرانداز فرما کر کسی اور موقعےپر نہایت پیار و محبت سے اس کی اصلاح فرماتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی ازواجِ مطہراتؓ کی دل کھول کر تعریف کرتے اور ان کی خوب ہمّت افزائی فرماتے۔
اپنی تمام ازواجِ مطہرات ؓ سے محبت کرتے۔ حضرت خدیجہؓ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ زندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے، تاحیات ان کی سہیلیوں کو تحفے تحائف بھیجتے رہے۔اکثر حضرت سودہؓ مذاق فرمایا کرتیں، تو آپؐ خوش ہوتے۔
بے شک، ازواج ِمطہراتؓ کے ساتھ حضور اکرمؐ کا حسنِ سلوک، دنیا کے تمام شوہروں کے لیے تقلید کا بہترین نمونہ ہے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ آپؐ نے کبھی کسی اہلیہ پر ہاتھ اٹھایا، نہ انہیں گھر سے نکالا، نہ ان کی تذلیل کی، نہ لعن طعن کیا، نہ ان پر طنز کے تیر چلائے، نہ انہیں کبھی میکے واپس جانے کی دھمکی دی اور نہ ہی کبھی انہیں طلاق کی دھمکی دی۔
اگر کبھی آپ ؐ کو کسی بات سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی، توخاموش ہوجایا کرتے اورمزاج شناس ازواجِ مطہراتؓ سمجھ جایا کرتیں کہ حضورؐ کو ہماری یہ بات پسند نہیں آئی۔ ازواجِ مطہراتؓ کی عزت و احترام اور ان کے احساسات کا خیال رکھنے کا یہ عالم تھا کہ اگر ایک زوجہ کے بارے میں کوئی بات ہوتی، تو دوسری سے فرما دیتے کہ ان کو نہ بتانا، ورنہ انہیں دکھ ہوگا۔
ہم مسلمان اس نبیؐ کے امّتی ہیں کہ جنہوں نے بیویوں کو عزت و احترام کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتے ہوئے انہیں آئینہ اور درخشاں آبگینے قرار دیا۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’تم اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔
اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں، تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت کچھ بھلائی پیدا کردے۔‘‘ عورت صنفِ نازک ہے۔ اللہ نے اسے بے انتہا خوبیوں سے نوازا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں ضد کی حِس بھی رکھی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ نے عورت کو ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا ہے، اگر اسے زبردستی سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے، تو توڑ ڈالو گے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ دراصل اس تمثیل میں بڑی حکمت پنہاں ہے۔ عورت عمومی طور پر محبت، پیار، نرمی، تحفظ اور سرپرستی کی خواہاں ہوتی ہے۔
اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اسے محبت بھری نظروں سے دیکھے، اس کی تعریف کرے، اس کے پاس بیٹھے، اسے وقت دے، اس کے کاموں کی قدر کرے۔ وہ ان سب کو تحسین و تشکّر کی نظر سے دیکھتی ہے۔
بعض اوقات صحابہؓ عبادت و ریاضت میں اتنے مصروف ہوجایا کرتے کہ بیویوں کی جانب رقبت سے نہیں دیکھتے تھے۔ حضورؐ نے انہیں اعتدال کی تلقین فرماتے ہوئے کہا ’’اسلام رہبانیت کا مذہب نہیں ہے۔ تمہاری بیویوں کا بھی تم پر حق ہے۔ وہ اس بات کی حق دار ہیں کہ تم ان کی قربت میں وقت گزارو اور ان پر توجّہ دو۔‘‘
عادلانہ طرزِ عمل: ہر بیوی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے معاملے میں حق و انصاف سے کام لیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً ساس بہو کا رشتہ اتنا احسن نہیں ہوپاتا، جتنا ہونا چاہیے۔ جہاں ایک طرف ماں کو اپنی متاعِ عزیز اچانک دوسرے کے حوالے کرنے کا فطری احساس ہوتا ہے، وہاں بیوی محترمہ شروع ہی سے شوہر پر اپنا حق جتانا شروع کردیتی ہے۔
اس صورت میںشوہردونوں کی نفسیاتی کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت کے ساتھ اپنے عادلانہ طرزِعمل سے بیوی اور ماں کی اَن دیکھی غیر محسوس خلیج کو بہت جلد پر کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے۔
وہ اپنی ذہانت سے معاملات اس طرح رکھتا ہے کہ وہ ماں کا فرماں بردار بھی ہوتا ہے اور بیوی کے ساتھ ناانصافی کا مرتکب بھی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جہاں وہ ماں کے حقوق و احترام کی پاس داری کرکے جنّت کا حق دار بنتا ہے، وہاں وہ بیوی کے حقوق کا بھی احترام کرتا ہے۔
جب کہ دوسری طرف اسلامی ماحول میں پرورش پانے والی دینی تعلیم سے بہرور لڑکیاں بہت جلد اپنے آپ کو نئے ماحول میں ڈھال کر شوہر کی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
اور پھر ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ ان کے کھانے پینے، رہائش اور دیگر ضروریات میں برابر کا سلوک اور برتائو رکھنا بھی شوہر کی ذمّے داری ہے۔ کسی ایک طرف زیادہ جھکائو اور دوسری کو بالکل نظرانداز کردینا، اسلام میں کسی طور پر بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
ایسے شخص کو قیامت کے روز سخت ترین عذاب سے گزرنا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کو نظرانداز کرکے دوسری کی طرف زیادہ مائل ہو، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گرا ہوا ہوگا۔‘‘(ابن ماجہ)
حقِ خلع: اسلام میں طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے،تاہم انتہائی صورت میں جس طرح مرد کو طلاق کا حق دیا ہے، اسی طرح عورت کو بھی خلع کا حق دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں (یعنی شوہر اور بیوی) حدودِ الہٰی پر قائم نہ رہیں گے، تو ان دونوں کے درمیان اس معاملے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بیوی، شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔‘‘ شریعت کی اصطلاح میں اسے ’’خلع‘‘ کہتے ہیں۔ خلع کا یہ معاملہ اگر دونوں کے درمیان گھر کے اندر ہی طے پا جائے، تو بہتر ہے، ورنہ عورت خلع لینے کے لیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا سکتی ہے۔موطا امام مالک میں ایک روایت تحریر ہے کہ ایک صحابیہ حبیبہ بنتِ سہل، حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
وہ اپنے شوہر حضرت ثابت بن قیس سے علیٰحدگی چاہتی تھیں۔ رسول اللہؐ نے حضرت ثابت بن قیس کا وہ مال، جو حضرت حبیبہ کے پاس تھا، حضرت ثابت کو واپس دلوادیا اور حضرت حبیبہ کو خلع حاصل ہوگیا۔ یہ اسلام کا پہلا خلع تھا۔ پھر حضرت ثابت نے جمیلہ بنتِ ابی سے نکاح کیااور انہوں نے بھی بذریعہ خلع علیحدگی اختیار کرلی۔(فتح الباری)
نکاح نامے میں دیا گیا حق: اگر ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتاہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسی خواتین موجود ہیں، جو سخت گیر شوہر اور ظالم سسرال والوں کے عذاب کو خاموشی سے برداشت کرنے پر صرف اس لیے مجبور ہیں کہ انہیں شرعی اور ملکی قوانین کی رو سےاپنے حقوق کا علم ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی، تو معاشرے اور خاندان والوں کے طنز و طعن کے خوف سے ہر ظلم و زیادتی سہنے پر مجبور ہیں۔
اورپھر ہمارے پیچیدہ عدالتی نظام نے بھی ان بے کس خواتین کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نکاح نامے میں مسلم خاندانی قوانین کے آرڈیننس مجریہ 1969ء کے تحت وضع کیے گئے ان کے شرعی اور قانونی حقوق کی شقوں پر بھی نکاح کے وقت اکثر لکیر پھیر کر خارج کردیا جاتا ہے۔
نہ نکاح خواں اس کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں اور نہ لواحقین اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔ انہیں تو صرف بیٹی بیاہنے کی فکر ہوتی ہے۔پھر لڑکی سے نکاح نامے پر دستخط کرواتے وقت سارا منظر اس قدر جذباتی کردیا جاتا ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیاں بھی آنکھ بند کرکے دستخط کردیتی ہیں۔
اگر نکاح سے چند روز قبل فریقین نکاح نامے پر دی گئی تمام 25؍دفعات کا بغور مطالعہ کرکے اورلڑکی سے بھی پڑھوا کر ان پر باہمی رضامندی سے اتفاق کرلیں،تو نکاح کے وقت کسی ناپسندیدہ صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز،کسی اچھے نکاح خواںکو بھی نکاح سے پہلے فریقین کو تمام شرائط کے بارے میں بتاناچاہیے، تاہم بدقسمتی سے عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
حقِ میراث: قرآن کریم کی سورۃ النساء میں اللہ نے جہاں شوہرکو بیوی کے ترکے میں حصّہ دار مقرر کیا ہے، وہاں بیوی کو بھی شوہر کے ترکے میں حصّہ دار بناتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’اگر شوہر بے اولاد وفات پاتا ہے، تو بیوی کو اس کے ترکے کا چوتھا حصّہ ملے گا اور اگر وہ صاحبِ اولاد ہے، تو پھر وہ شوہر کے ترکے کے آٹھویں حصّے کی حق قدار ہوگی۔‘‘اللہ تعالیٰ کے ان واضح احکامات کے بعد کسی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ شوہر کے ترکے میں ملنے والے اس کی بیوی کے حصّے کو غصب کرے۔
ترکے میں بیوی کا حصّہ اس کا شرعی اور قانونی حق ہے، جس کی ادائیگی لواحقین پر فرض ہے۔ جو رشتے دار، بیوی کو اس کے حقِ میراث سے محروم رکھتے ہیں، وہ سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
تمدّنی حق: اسلام نے شوہر کے انتخاب میں بھی عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح سے پہلے لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیاہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے۔ ’’عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘ جب حضرت علیؓ نے حضرت فاطمۃ الزہرہؓ سے نکاح کا پیغام دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لے گئے اوران کی مرضی دریافت کی۔
حالاں کہ وہ ازواجِ مطہراتؓ یا دیگر خواتین سے یہ کام لے سکتے تھے، لیکن انہوں نے بیٹی کے پاس جانا خود ضروری سمجھا۔ یقیناً اس بات میں آج کے والدین کے لیے ایک بہت بڑا سبق پنہاں ہے۔
٭شادی کے بعد عورت اپنے والدین، بہن، بھائی اور گھربار چھوڑ کر شوہر کے گھر آتی ہے، لہٰذا اس اجنبی ماحول میں شوہر کی اوّلین ذمّے داری ہے کہ اسے ماحول سے مانوس ہونے اور گھر والوں سے قریبی تعلقات پیدا کرنے میں اس کی مدد و رہنمائی کرے۔٭بیوی کی کفالت شوہر کی ذمّے داری ہے، لہٰذا اس کے جملہ اخراجات و ضروریات مثلاً غذا، لباس، رہایش وغیرہ اپنی استطاعت کے مطابق فراہم کرے۔ اس معاملے میں بخل سے کام نہ لے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’ بیویوں کا روٹی کپڑا تم پر واجب ہے۔
بیوی کا حق ہے کہ شوہر اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، اس کے ساتھ پیار و محبت کرے، اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے شوہروں کو امّت کے بہترین اشخاص قرار دیا ہے۔ بیوی کا حق ہے کہ شوہر اس کے ساتھ حسنِ معاشرت، ہنسی مذاق، بے تکلفی اور خوش روئی سے پیش آئے۔ اس کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔ خوش اخلاقی، نرم خوئی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرے۔ ٭ہر بیوی کا یہ حق اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر عفوودرگزر سے کام لیتے ہوئے پیار و محبت سے اس کی اصلاح کرے اور اس عمل کو جاری رکھے، یہاں تک کہ وہ اس کی مرضی ومنشاکے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے۔٭بیوی کا یہ حق ہے کہ اس کا شوہر اس پر مکمل اعتماد و بھروسا کرے اور گھریلو معاملات کو بہ احسن طریقے سے چلانے میں اس کی مدد کرے۔ ٭بیوی کا حق ہے کہ اس کا شوہر اس کے والدین بہن، بھائی اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔٭شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کے جملہ رازوں پر پردہ رکھے اور انہیں دوسروں پر ظاہر کرکے اسے رسوا نہ کرے۔ ٭بیوی کا حق ہے کہ اس کا شوہر اس کے عیبوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کی پردہ پوشی کرے۔
انہیں عام کرتا نہ پھرے۔٭شوہر پر لازم ہے کہ وہ بغیرتصدیق اور ثبوت کے بیوی پر بدگمانی کرے، نہ تہمت لگائے۔اکثر اوقات بعض شکی مرد اپنی بیویوں پر محض شک کی بناء پر یا غصّے میں بدگمانی کرتے ہیں۔ بیوی پر اس طرح کا شک و بدگمانی اور تہمت لگاناگناہ ِعظیم ہے۔٭بیوی کا یہ حق ہے کہ اس کا شوہر اس کے سامنے کسی دوسری عورت کے حسن و جمال اور خوبیوں کی تعریف نہ کرے،کیوں کہ اس طرح اس کے دل میں بدگمانی اور شبہ پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔٭بیوی اس بات کی متمنّی ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اس کی اور اس کے کاموں کی تعریف کرے۔
یہ عمل گھر کے ماحول کو خوش گوار بناتا ہے۔٭نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیا کرو۔‘‘ لہٰذا یہ بیوی کا حق ہے کہ اس کا شوہراپنی حیثیت کے مطابق تحفے تحائف دیا کرے۔ اس طرح شوہر اور بیوی میں محبت و پیار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔٭بیوی کا یہ حق ہے کہ اس کا شوہر اس کا بہترین دوست، مددگار اور محافظ ہو۔٭ملازمت پیشہ خواتین، معاشی مسائل کے حل میں شوہر کی معاون ہوتی ہیں۔
ان خواتین کا یہ حق ہے کہ ان کے شوہر ان خواتین کے ممنون ہوتے ہوئے گھر کے جملہ معاملات میں ان کی معاونت کریں۔٭بیوی کو اسلام نے یہ حق دیا ہے کہ اس کا شوہر خوش دلی سے (فرض جانتے ہوئے) اسے مہر کی ادائیگی کرے۔(سورۃ النساء)۔ ٭ حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ بیوی بچّوں کی فکر کرنا، ان کے راحت و آرام کے لیے جدوجہد کرنا، راہِ خدا میں جہاد کرنے کے برابر ہے۔