• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نامُوسِ رسالتﷺ کا تحفظ اور اُس کے تقاضے

قاری محمد حنیف جالندھری

(ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ، پاکستان)

عقیدۂ ختم نبوت، مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے، حضور اکرم ﷺخاتم الانبیاء ہیں اور آپ ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، نبوت کا سلسلہ آپ پر آکر ختم ہوگیا ، آپ ﷺکے بعد کوئی بھی شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا تو کذّاب اور جھوٹا سمجھا جائے گا، یہ اسلام کا ایک بے غبار اور غیر متنازع متفقہ عقیدہ ہے، اسی وجہ سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے 1974میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا،1984 میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا ،جس کی رو سے قادیانیوں کو اپنے عقیدے کی تشہیر سے روک دیا گیا، دین دشمن قوتوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً ختم نبوت کے عقیدے اور توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے سازشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے بہت سے بدبخت، تاج دارِ دو عالم ﷺکی شان میں گستاخی کرکے جہاں اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں،وہاں مسلمانان عالم کو اذیت اور تکلیف پہنچاتے اور ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ 

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں ہر آدمی جو چاہتا ہے، وہ کہہ دیتا اور لکھ دیتا ہے، ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر انسانیت کے کئی مجرم بدبختوں نے حضور اکرم ﷺاور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کی شان میں گستاخی کو ایک مہم اور مشن کے طور پر اپنایا، جس کا چند ماہ پہلے بجا طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا۔ہم نے اس مضمون میں اس جرم کی سزا کی شرعی حیثیت اور دیگر جہتوں پر روشنی ڈالی ہے۔علامہ اقبال مرحوم نے بالکل بجا فرمایا تھا:

وہ دانائے سُبل، ختم الرسل ،مولائے کل

جس نےغبار ِراہ کوبخشا فروغِ وادیِ سینا

حضور اقدس ﷺکی ذاتِ اقدس میں اللہ جل شانہ نے وہ تمام انسانی بلند اوصاف و اخلاق جمع فرمادیئے ، جن پر ’’ شرف ِانسانی‘‘ کی بنیاد قائم ہے اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے ’’وانّک لعلی خُلُقٍ عظیم‘‘ کے بلیغ الفاظ ارشاد فرمائے ہیں،ایک مسلمان کے لئے حضور اکرم ﷺکی ذات، آپﷺ کی سنت و سیرت اور زندگی گزارنے کی ایک ایک ادا، اس طرح قابل تقلید اور محبوب ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی طرف اس کا اسلام اور ایمان نگاہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتا، حضور اکرم ﷺہی اس کے لئے عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہیں اور ان ہی کے نام سے اس کی آبرو قائم ہے، وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ’’آبروئےما زنام مصطفی است‘‘۔ بلکہ اس کی عقیدت اور عقیدے کا معیار یہ ہوتا ہے کہ:

محمد عربی کہ آبروئے ہر دوسرا است

کسے کہ خاک درش نیست خاک برسراو

عشق نبوی ﷺ۔جزوِ ایمان: نبی کریم ﷺکے ساتھ کسی مسلمان کی عقیدت و محبت، بے حقیقت جذباتی نظریے کی بنیاد پر نہیں، بلکہ یہ اس کے ایمان کا جز اور اس کے دین کا حصہ ہے، حضور ﷺہی اس کی محبتوں کا محور اور اس کی تمناؤں کی آماج گاہ ہیں، حضور ﷺہی کی اتباع اس کے سعی و عمل کے لئے نمونہ و معیار ہے اور اسی میں اس کی ابدی سعادت کا راز مضمر ہے، قرآن کریم نے جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں اندیشہ ہو، اور وہ گھر جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ سے اور اس کے رسولﷺ سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (سزا دینے کے لئے) اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (سورۃ التوبہ:۲۴)

ایک اور آیت میں حضور ﷺکی اتباع کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے:’’ اور رسول جو کچھ تمہیں دے دیا کریں ،وہ لے لیا کرو، اور جس سے وہ تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔ اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سزا دینے میں بڑا سخت ہے۔‘‘ (سورۃ الحشر:۷)ایک دوسری آیت میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سر تسلیم خم کرنے کو مؤمنین کا شیوہ بتاتے ہوئے کہا گیا:’’ ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف کہ( رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ(ایمان والے) کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا۔‘‘(سورۃ النور:۵۱)

ایک اور جگہ وضاحت کردی ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کے فیصلے اور حکم آنے کے بعد کسی مؤمن مرد، عورت کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اس کے برعکس من مانی کریں، ایسی صورت میں سوائے تعمیل حکم کے اس کے لئے کسی اور راہ کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں، ارشاد ہے:’’ اور کسی مومن مرد یامومن عورت کے لئے یہ درست نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی امر کا حکم دے دیں تو پھر انہیں اپنے( اس) امر میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کرے گا،وہ صریح گمراہی میں جا پڑے گا۔‘‘(سورۃالاحزاب: ۳۶)حضرت انس ؓ کی حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے نقل فرمائی ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا ،جب تک اسے مجھ سے اپنے ماں باپ، اولاد اور باقی سب لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم :۱۴ ، صحیح مسلم، کتاب الایمان ، رقم :۱۷۷)

عہد نبویؐ میں بے حرمتی کے واقعات:حضور اکرم ﷺکی شان اقدس میں بعض بدبختوں کی طرف سے گستاخی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، خود عہد نبوی میں دربار نبوت کی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے اور آپ کی ناموس پرکٹ مرنے والی پاکیزہ ہستیوں نے ان دریدہ دہن بدبختوں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے:

٭۔ ایک نابینا صحابی کی باندی حضور ﷺکی شان میں گستاخی کرتی تھی، وہ ایک رات اٹھے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا۔حضور ﷺکو خبر ملی تو فرمایا کہ اس کا خون ہدر اور رائیگاں ہے۔(بلوغ المرام فی احادیث الاحکام، ص :۱۲۳)٭۔کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا، حضور ﷺکی شان میں گستاخی کرتا اور ہجویہ اشعار کہتا، حضرت محمد بن مسلمہؓ نے حضور ﷺکی خواہش پر جاکر اس کی سرکوبی کی۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم : ۴۰۳۷)٭۔مدینہ منورہ میں ابو عفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں ہجویہ نظم لکھی، حضرت سالم بن عمیرؓ نے حضور ﷺکے ارشاد پر جاکر اسے واصل جہنم کیا۔(سیرۃ ابن ہشام:۴/۲۸۲)

٭۔ فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کردیا گیا تھا، لیکن شاتم رسول ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی، اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے واصل جہنم کیا گیا، ابن خطل کی دو لونڈیوں کا خون بھی حضور ﷺنے رائیگاں قرار دیا تھا، کیونکہ وہ بھی حضور ﷺکی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔(الکامل لابن اثیر:۲/۱۶۹، صحیح بخاری،کتاب المغازی، رقم:۴۰۳۵)

توہینِ رسالت کی سزا: عہد نبوی ؐکے ان واقعات سے ایک بات بالکل بے غبار ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ’’توہین رسالت‘‘ کا جرم ایسا نہیں، جس سے چشم پوشی کی جائے یا اس سے درگزر کیا جائے، چناںچہ تمام ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ توہین رسالت کا مجرم واجب القتل ہے۔

علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں: ’’ حاصل یہ ہے کہ شاتم رسول کے کفر اور اس کے واصل جہنم ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یہی ائمہ اربعہ سے منقول ہے۔‘‘ (جلد ۴، صفحہ:۶۴)فقہ حنفی کی مشہور شخصیت امام سرخسی ؒ شاتم رسول کے قتل پر اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ جس شخص نے رسول اللہ ﷺ پر شتم کیا، آپ کی توہین کی، دینی یا شخصی اعتبار سے آپ پر عیب لگایا، آپ کی صفات میں کسی صفت پر نکتہ چینی کی تو چاہے، یہ شاتم رسول مسلمان ہو یا غیر مسلم ، یہودی ہو یا عیسائی یا غیر اہل کتاب، ذمی ہو یا حربی، خواہ یہ شتم و اہانت عمداً ہو یا سہواً، سنجیدگی سے ہو یا بطور مذاق، وہ دائمی طور پر کافر ہوا، اس طرح پر کہ اگر وہ توبہ بھی کرلے تو اس کی توبہ نہ عنداللہ قبول ہوگی، نہ عندالناس اور شریعت مطہرہ میں متاخرو متقدم تمام مجتہدین کے نزدیک اس کی سزا اجماعاً قتل ہے۔‘‘(خلاصۃ الفتاویٰ:۳/ ۲۸۶)

تنقید اور توہین کا شوشہ:بعض مغرب زدہ مسلمان دانشوروں نے ’’ تنقید اور توہین‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر اس بات پر جو زور دیا ہے کہ مسلمان کو تنقید اور توہین کا فرق ملحوظ رکھنا چاہئے، منصب نبوت ہر قسم کی تنقید سے بلند ہے، انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور حضور ﷺسید الانبیاء ہیں، منصب نبوت کی طرف کسی قسم کی انگشت نمائی یا تنقید’’ توہین رسالت‘‘ ہی کے زمرے میں آتی ہے، امت کے جلیل القدر علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، یہ دانشور اگر ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرلیں تو انہیں مستشرقین کے دائرہ اثر سے نکلنے کا موقع مل جائے گا، علامہ تقی الدین سبکیؒ کی کتاب ’’ السیف المسلول علیٰ من سب الرسول‘‘ علامہ ابن الطلاع اندلسیؒ کی تالیف ’’اقضیۃ الرسول‘‘ مشہور حنفی عالم، علامہ زین العابدین شامیؒ کی ’’تنبیہ الولاۃ والحکام علیٰ أحکام شاتم خیر الانام‘‘ اور علامہ ابن تیمیہؒ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘ اس موضوع پر ایسی کتابیں ہیں، جنہوں نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور سب اس پر متفق ہیں کہ بارگاہ رسالت میں کسی بھی قسم کی تنقید کی سزا موت اور قتل ہے۔

چناںچہ جب اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کی عدالتیں دشمنوں کے دباؤ سے آزاد تھیں، تب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تو مجرم موت کی سزا پاکر کیفر کردار تک پہنچ جاتا، بلکہ نویں صدی کے وسط میں اندلس کے اندر ’’ شاتمین رسول‘‘ نے ایک جماعت کی شکل اختیار کرلی تھی، لیکن مسلمان قاضیوں نے کوئی نرمی نہیں برتی اور اس کیس کے ہر مجرم کو سزائے موت دی۔ یولوجیس نامی عیسائی اس گروہ کا سربراہ تھا اور اس کی سزائے موت کے ساتھ ہی مسلم ہسپانیہ میں اس بدبخت جماعت کا خاتمہ ہوا۔"(تفصیل کے لئے دیکھئے،تاریخ ہسپانیہ:۱/۲۰۰)

گزشتہ دو تین صدیوں سے ’’آزادی ٔ اظہار رائے‘‘ کی جو مسموم ہوا یورپ میں چل پڑی ہے، اس ناقابل معافی جرم کو بھی وہ اس کے بھینٹ چڑھانے کی سعی کررہے ہیں، پاکستان میں قابل فہم طور پر ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ’’توہین رسالت‘‘ کی سزا موت ہے، مغربی ممالک نے اس قانون کے خلاف بڑا واویلا مچایا اور اسے ’’ آزادی‘‘ کے خلاف قرار دے کر مختلف حکومتوں پر یہ قوتیں دباؤ ڈالتی رہیں، لیکن الحمدللہ یہاں کی عوامی قوت کے خوف سے کوئی حکومت اب تک اس میں تبدیلی نہیں کرسکی ہے۔

مشہور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اس سلسلے میں مسلمانوں کے جذبات کا تجزیہ کرتے ہوئے کافی حد تک صحیح لکھا ہے:’’ رسول خدا کے متعلق اگر کوئی بد زبانی کرے تو لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ تو مرنے کی بازی لگابیٹھتے ہیں،اس میں اچھے، نیم اچھے ، بُرے مسلمان کی بالکل کوئی تخصیص نہیں، بلکہ تجزیہ تو اسی کا شاہد ہے کہ جن لوگوں نے ناموس رسالت پر اپنی جان عزیز کو قربان کردیا، ظاہری طور پر نہ تو وہ علم و فضل میں نمایاں تھے اور نہ زہدوتقویٰ میں ممتاز تھے، ایک عام مسلمان کا شعور اور لاشعور جس شدت اور دیوانگی کے ساتھ شانِ رسالت کے حق میں مضطرب ہوتا ہے، اس کی بنیاد عقیدے سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہے، خواص میں یہ عقیدت ایک جذبے اور عوام میں ایک جنون کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔‘‘

ایک عام مسلمان کا حضور اکرم ﷺکے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ناموس رسالت پر کٹ مرنے کو اپنے لئے سرمایہ فخر سمجھتا ہے اور مولانا محمد علی جوہر کی ایمانی غیرت و حمیت کے یہ الفاظ تقریباً ہر مسلمان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں:’’ جہاں تک خود میرا تعلق ہے، مجھے نہ قانون کی ضرورت ہے، نہ عدالتوں کی حاجت۔سرور کونین ﷺاور باعثِ تکوین دو عالم ﷺ کا تقدس میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اگر کوئی بدبخت اس کا اتنا پاس بھی نہیں کرتا کہ اس برگذیدہ ہستی کی توہین کرکے میرے قلب کو چور چور کرنے سے احتراز کرے… تو مجھ سے جہاں تک صبر ہوسکے گا ، صبر کروں گا، جب صبر کا جام لبریز ہوجائے گا تو اٹھوں گا اور یا تو اس گندہ دل ، گندہ دماغ، گندہ دہن کافر کی جان لے لوں گا یا اپنی جان اس کی کوشش میں کھودوں گا۔‘‘( مولانا محمد علی جوہر، آپ بیتی اور فکری مقالات، صفحہ :۲۳۲)

جب کہیں مسلمان خوداقلیت میں ہوگئے یا مسلمانوں کی عدالتیں غیروں کے دباؤ میں آگئیں اور وہاں توہین رسالت کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے انصاف کے راستوں میں رکاوٹیں پیش آنے لگیں ، تب عام مسلمانوں نے کسی قانون اور عدالت کی پروا نہیں کی۔

آزادی اظہار رائے کی حدود :جہاں تک آزادی یا آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو دنیا کے کسی بھی دستور میں ’’ آزادی مطلق‘‘ کا حق نہیں دیا گیا، یہاں سیکولر ہونے کے دعوے دار چند معروف دستوروں کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔سب سے پہلے فرانس کولے لیں، جہاں کے اخبارات نے حضور اکرم ﷺکی شان میں اہانت آمیز خاکے شائع کئے اور اسے ’’ آزادی اظہار رائے ‘‘ کا اپنا حق قرار دیا ہے ، اس کے آرٹیکل نمبر۱ میں کہا گیا ہے: ’’ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور آزاد رہے گا اور سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے، لیکن سماجی حیثیت کا تعلق مفاد عامہ کے پیش نظر کیا جائے گا۔‘‘ اور آرٹیکل نمبر۴ میں کہا گیا ہے: ’’ آزادی کا حق اس حد تک تسلیم کیا جائے گا، جب تک کہ اس سے کسی دوسرے شخص کا حق متاثر یا مجروح نہ ہو اور ان حقوق کا تعین بھی قانون کے ذریعے کیا جائے گا۔‘‘

جرمنی کے آئین کے آرٹیکل نمبر۵ میں کہا گیا ہے: ’’ ہر شخص کو تحریر ، تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے۔‘‘ مگر اس کے ذیلی آرٹیکل نمبر۲ میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہ حقوق شخصی عزت و تکریم کے دائروں میں رہتے ہوئے استعمال کئے جاسکیں گے۔

امریکی دستور میں بھی مطلق آزادی کا کوئی تصور نہیں، امریکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور میں ایسی تحریر اور تقریر کی اجازت نہیں، جو عوام میں اشتعال انگیزی یا امن عامہ میں خلل اندازی کا سبب بنے یا اس سے اخلاقی بگاڑ پیدا ہو، ریاست کو ایسی آزادی سلب کرنے کا اختیار دیا گیا،اسی طرح آزادیٔ مذہب کے نام پر توہین مسیح کے ارتکاب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔(امریکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تفصیل محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ’’ ناموس رسالت اور توہین رسالت‘‘ کے باب پنجم میں لکھی ہے)

یہی حال برطانیہ کا ہے، وہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا برطانیہ کی ملکہ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کی اجازت نہیں،وہاں ہائیڈپارک میں ’’اسپیکر کارنر‘‘ کے نام سے ایک گوشہ مختص ہے ،جہاں مخصوص اوقات میں ہر شخص کو جو جی میں آئے کہنے یا بکنے کی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن یہاں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرے یا ملکہ کی شان میں گستاخی کرے۔

جب خود ان قوموں کے دساتیر میں’’ آزادیٔ اظہار رائے‘‘ کو مشروط کیا گیا کہ اس کی اسی وقت اجازت ہے، جب وہ کسی کے حق اور جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ نہ بنے، ایسے میں قانونی حوالے سے اس کا جواز کیونکر ہوسکتا ہے کہ کائنات کی سب سے بزرگ ہستی کی توہین کی جائے،جو دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ بنتی ہے!!

حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت پر حملوں کے اس طرح کے افسوس ناک واقعات ، عیسائی دنیا کی اس پرانی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہیں جو صدیوں سے قائم ہے اور قرب قیامت تک قائم رہے گی، پیغمبر اسلام ﷺاور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ،اس کے متعصبانہ خمیر میں شامل ہے اور اس کے لئے انہوں نے بڑے بڑے ادارے قائم کئے، جن کے تحت ہزاروں افراد کام کررہے ہیں، یہ لوگ صدیوں سے اسلام کے قلعے پر علمی، عملی اور سائنسی محاذوں سے حملہ آور ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس قلعے میں شگاف پڑے، انہیں معلوم ہے کہ دین اسلام ہی ان کی ظاہری چمک دمک والی لیکن اندر سے کھوکھلی اور فرسودہ تہذیب کو کارزار حیات میں شکست و ریخت سے دو چار کرکے مٹاسکتا ہے کہ وہی ایک زندہ جاوید اور قیامت تک رہنے والا دین برحق ہے۔

پاکستان میں توہین رسالت کے قانون سزا کا پس منظر: پاکستان، اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے جس کی پہچان اور دنیا کے نقشے پر جس کے وجود میں آنے کا جواز اسلام اور اس کی تعلیمات کا عملی نفاذ تھا، برصغیر میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے بڑی ایمان افروز تحریکیں چلی ہیں اور خواجہ بطحاﷺکے تقدس پر جانیں قربان کرنے کی لہو رنگ تاریخ مرتب ہوئی ہے، عام مسلمانوں نے جب بھی دیکھا کہ توہین رسالت کے مجرم کو قانون گنجائش فراہم کررہا ہے اورانصاف پر قانون کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے تب مسلمانوں نے انصاف خود اپنے ہاتھوں میں لیا، انہوں نے پھر کسی قانون، کسی ضابطے کی پروانہیں کی۔ انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں راجپال نامی بدبخت نے حضور اکرم ﷺکی شان میں گستاخی پر مشتمل ایک کتاب لکھی تھی، انگریز کا قانون نافذ تھا، مسلمان بجا طور پر مشتعل تھے، دفعہ ۱۴۴ نافذ کردیا گیا تھا اور کسی قسم کے جلسے اور اجتماع کی اجازت نہیں تھی، اس موقع پر خطیب الہند، حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے جو تقریر کی اس سے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، انہوں نے فرمایا:’’جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے، پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے اور ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے، وقت آگیا ہے کہ دفعہ ۱۴۴ کے یہیں پرخچے اڑا دیئے جائیں۔ میں دفعہ ۱۴۴ کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا۔ راجپال کو غازی علم دین نے حملہ کرکے ٹھکانے لگایا اور یوں جس انصاف کو فراہم کرنے میں عدالت پس وپیش سے کام لیتی رہی، ایک عام مسلمان نے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

انگریز دور حکومت میں مجموعہ تعزیرات ہندنافذ تھا جس کی دفعہ ۲۹۵ میں مذہبی محترم شخصیات اور مقدس مقامات کی بے حرمتی اور توہین کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور جرمانہ تھی، پاکستان بننے کے بعد اس مجموعہ کو ضابطہ تعزیرات پاکستان کے طور پر تسلیم کرلیا گیا، لیکن اس میں نبی اکرم ﷺکی شان میں گستاخی کے جرم کی سزا شامل نہیں تھی۔ ۱۹۸۶ء میں تعزیرات پاکستان میں ایک نئی دفعہ ’’ ۲۹۵، سی‘‘ کا اضافہ کیا گیا، جس میں پیغمبر اسلام ﷺکی شان میں گستاخی کے مجرم کو عمر قید یا موت کی سزا مقرر کی گئی، ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۰ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ’’عمرقید‘‘ کی سزا کوغیر شرعی قرار دے کر منسوخ کردیا اور صرف موت کی سزا کو برقرار رکھا، جس کے الفاظ یہ ہیں:’’ جو شخص بذریعہ الفاظ زبانی ، تحریری یا اعلانیہ اشارتاً کنایتاً بہتان تراشی کرے، یا رسول کریم ﷺکے پاک نام کی بے حرمتی کرے، اسے سزائے موت دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔‘‘

پروپیگنڈا مہم:مغرب اور حقوق انسانی کی نام نہاد تنظیموں نے اس قانون کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا اور مختلف حکومتوں پراس میں ترمیم اورتخفیف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا، بعض حکمران اس میں ترمیم کے لئے آمادہ بھی ہوئے ،لیکن عوامی طاقت کے خوف سے وہ اس میں تبدیلی نہیں کر سکے۔ اس سلسلے میں ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے علماء اور مخلص کارکنوں کا کردار قابل رشک رہا، انہوں نے جہاں کہیں اس طرح کی سازش کی بو محسوس کی، عوام میں بیداری کے لئے ’’ہوشیارباش‘‘ کی صدا لگائی اور لوگوں کو بروقت جگانے کا فریضہ انجام دیتے رہے اور ایک مؤمن کے لئے اس سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے وقت ، اس کے مال، اس کی فکر اور اس کی مساعی کا محور آقائے نامدار ﷺکی ناموس کا تحفظ ہو، مبارک ہیں ایسے لوگ! اور قابل رشک ہیں ان کی زندگی کے لمحات!

حاصل گفتگو:۔ جہاں تک مغرب اور کفریہ طاقتوں سے دلائل کی روشنی میں مکالمے کا تعلق ہے، یہ بات اپنی جگہ بے غبار ہے کہ ان کا رویہ عناد اور دشمنی پرمبنی ہے اور ایک عناد اور کینہ رکھنے والا دشمن، دلائل سے کبھی متاثر نہیں ہوتا، اس کے پاس اگر طاقت ہوتی ہے تو دلائل کا ٹکسال بھی اس کا اپنا ہوتا ہے اور خیروشر کے پیمانے بھی وہ خود بناتا اور بگاڑتا ہے… ہاں اہل اسلام کا یہ فریضہ ضرور ہے کہ وہ انسانیت کی ابدی صداقتوں کی روشنی میں حق اور حقیقت کو اجاگر کریں، خیروشر، نیکی اور بدی کے صحیح پیمانوں کا تعارف کرائیں اور داعیانہ اسلوب میں واضح کریں کہ کائنات کی مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخی صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا سبب نہیں، بلکہ یہ اہانت آمیز رویہ اختیار کرنے والی ان قوموں کے لئے دنیا اور آخرت کی بربادی اور تباہی کا ذریعہ بھی ہے، قرآن کریم نے اپنے بلیغ اسلوبِ بیان میں جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے ، ارشاد ہے:’’ اور بلاشبہ آپ سے پہلے رسولوں سے بھی ہنسی کرتے رہے، پھر گھیرلیا ، ان ہنسی کرنے والوں کو اس چیز نے جس پر ہنسا کرتے تھے‘‘(سورۃ الانعام:۱۰) یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ استہزاء کرتے تو انبیاء انہیں عذاب سے ڈراتے، لیکن وہ اس عذاب کا بھی تمسخر اڑاتے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی عذاب میں مبتلا کیا ،جس کا وہ مذاق اڑاتے تھےاور آخر میں عشق نبوی ﷺکے اظہار پر مشتمل شاعر مشرق کا ایک لازوال قطعہ:

ہونہ یہ پھول،توبلبل کاترنم بھی نہ ہو!

چمن دہرمیں کلیوں کاتبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہوتوپھرمےبھی نہ ہو،خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو،تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کااستادہ اسی نام سےہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سےہے

تازہ ترین
تازہ ترین