• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’گودام اسکول‘‘ یہاں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے بچے تعلیم سے بہرہ مندہورہے ہیں

’’گودام اسکول‘‘  قائم کیا،یہاں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے بچے تعلیم سے بہرہ مندہورہے ہیں

عکاّسی: اسرائیل انصاری

کورنگی کے صنعتی علاقےکی مرکزی شاہراہ پرگودام چورنگی ہے،یہاں سے بائیںہاتھ پر کورنگی کازوے کے راستے میں فیکٹریاں ہیں،ان کے عقب میں مہران ٹاؤن کا علاقہ ہے،جہاںگودام چورنگی کی مناسبت سے ’’گودام اسکول‘‘ ہے۔ 

اس اسکول میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے غریب محنت کشوں کے بچےتعلیم حاصل کررہے ہیں۔صبح سویرے، بچے اسکول کا صاف و شفاف نیلایونیفارم پہنے، گلے میں بستے لٹکائے، گھروں سے نکلتے اور کچے پکے راستے پر چلتے ہوئے اسکول پہنچتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ یہ انتہائی غلاظت بھرے ماحول سے نکل کر آرہے ہیں۔ پوش علاقے کے کسی نجی اسکول کے طلبا لگتے ہیں۔

اسکول کے مہتمم، اسلم قریشی اس کے بانیوں میں سے ہیں، ان کا تعلق کورنگی کے ایک رفاہی ادارے سے ہے، جو کراچی کی سطح پر غریب بستیوں میں لوگوں کے مسائل کےحل کے لیے کوشاںرہتےہیں۔ انہوں نےگودام اسکول اپنےچند دوستوں اورکچھ مخیر افراد کےتعاون سے قائم کیا تھا۔

اسلم قریشی نے ہمیں بتایا،2000 ء میں مجھےاس بستی کا علم ہوا جوکورنگی کے صنعتی زون میں مہران ٹاؤن کے پلاٹوں پر قبضہ کرکے بسائی گئی ہے۔ہاؤسنگ اسکیم کا منصوبہ 1973میں اوور سیز پاکستانیوں کی رہائشی اسکیم کے طور پرعمل میں آیا تھا،جس میں کافی تعداد میں لوگوں نے پلاٹ خریدے، لیکن وطن سے دور رہنے کی وجہ سے وہ مکانات تعمیر نہ کراسکے۔ 

ان میں سے بیشتر پلاٹ ، لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے لوگوں کو فروخت کردیئے، جنہوں نے نیم پختہ مکانات تعمیر کرکے ، علاقے میں واقع فیکٹریوں اور ملوں کے مز دوروں کو کرائے پر دے دیئے، جب کہ کچھ پرگھریلو صنعتیں قائم ہو گئیں ۔ 

اس وقت فیکٹریوںاور کارخانوں کے درمیان بنی اس بستی میںایک ہزارنیم پختہ مکانات ہیں،جن میں تقریباً 20ہزار نفوس رہائش پذیر ہیں۔میں نے بستی میں نونہالوں کوننگ دھڑنگ حالت میں فیکٹریوں کے درمیان کچی گلیوں اورگڑھوں میں جمع گندے پانی کے جوہڑوں میں کھیلتے دیکھاتو ان بچوں سے پوچھا کہ وہ اسکول کیوں نہیں جاتے۔ انہوں نے جواب دیا کہ امی ابو نے ہمیں اسکول میں داخل نہیں کرایا۔

یہ سن کرمیں ان بچوںکے گھرگیا اور ان کے والدین سے بچوں کو اسکول نہ بھیجنےکا سبب پوچھا، جس پر انہوں نےکہا کہ اس پورے علاقے میں کوئی اسکول نہیں ہے، یہاں سے قریبی اسکول تین میل کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں کی فیس ہماری ایک ماہ کی تنخواہ کا چوتھائی حصہ ہے، جب کہ اتنے طویل فاصلے پر بچوں کو بھیجتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ 

’’گودام اسکول‘‘  قائم کیا،یہاں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے بچے تعلیم سے بہرہ مندہورہے ہیں

دوسری وجہ یہ بتائی کہ ان بچوں کو پڑھانے لکھانے کا کیا فائدہ،سوائے پیسہ اور وقت ضائع کرنے کے۔ کچھ عرصے بعد یہ ہمارے ساتھ فیکٹریوں میں مزدوری کر کےگھر والوں کا سہارا بنیں گے۔ والدین سے بات چیت کےبعد میں نے اپنےادارے کے اراکین کے ساتھ گفت و شنید کی کہ مذکورہ علاقے میں اسکول قائم کیا جائے۔ سب نے میری بات سے اتفاق کیا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس مقصد کے لیے پلاٹ کا حصول تھا۔ باہمی مشاورت کے دوران مجھے علم ہوا کہ میرے چند ساتھیوں کے عزیز جو بیرون ملک مقیم تھے، ان کے پلاٹ اس علاقے میں ہیں، جو اب تک قبضہ مافیا کی دست بردسے محفوظ ہیں۔ 

ان سے خط و کتابت کے ذریعےجب ہم نے اُن سے اسکول کا تذکرہ کیا تو ان میں سے ایک صاحب نے جن کےایک ہی لائن میں سو، سو گز کے چار پلاٹ تھے، ہمیں عطیہ کر دیئے۔اس مقصد کے لیے، وہ خود کراچی آئے اورچاروں پلاٹوں کی فائلیں ہمارے ادارے کے نام کردیں۔ بعد ازاں جب ہم نے وہ پلاٹ دیکھے تو ان پر چہار دیواری بنی ہوئی تھی اور کسی بڑے گودام کی صورت میں تھے، جس کی وجہ سے ان پر قبضہ نہیں ہو سکا۔ 

اسکول کی تعمیر کے مذکورہ منصوبے کی بھنک مزدوروں کے توسط سے، فیکٹری مالکان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور ان میں سے چند حضرات نےہمیں بلا کر اس منصوبے کے بارے میں معلوم کیا اور نام صیغہ راز رکھنے کی شرط پر، اتنی رقم فراہم کردی جس سےدیواریں اٹھا کر نو کمرے تعمیر کروائے، جن میں کچھ پر کھپریل کی چھت، جب کہ چند پر ٹین کی چادریں ڈالیں،کچی زمین کی بھرائی کراکے فرش ڈلوایا گیا۔

ہر کمرے میں بلیک بورڈ بنائے، پینے کے پانی اور بجلی کے کنکشن لیے گئے، الیکٹریکل کولر لگوایا، تاکہ گرمیوں میں بچوں کو ٹھنڈا پانی مل سکے۔اسکول کا رجسٹریشن بھی ضروری تھا، ڈائریکٹریٹ آف پرائیوٹ اسکولز سےاین جی او کے نام پر رجسٹریشن کروائی، کیوں کہ اس کے بغیر اسکول چلانے کی اجازت نہیں ملتی۔دوسرا مرحلہ بچوںکے لیے ڈیسک اورکرسیوں کا تھا۔

ا گرچہ بچوں کو چٹائی یا دریوں پر بھی بٹھا سکتے تھے، لیکن ہم انہیں باوقار ماحول میں تعلیم دینا چاہتے تھے تاکہ وہ کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ اس کے لیے ہم نے اپنے طور پر رقم جمع کی اور بچوں اور اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر خریدا ۔ جب اسکول کی تکمیل کےتمام مراحل مکمل ہوگئے توہمارے خاندان کی بچیوں اور ساتھی خواتین نےدرس و تدریس کے فرائض انجام دینے کا بیڑا اٹھایا۔ 

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعدہم بستی کے ہر گھر میں گئے اور والدین سے بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کی درخواست کی۔ ابتدا میں ہمیںکافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، بہت سے لوگ اپنے نونہالوں کواسکول بھیجنے کو تیار نہیں تھے ،بہ مشکل چندگھرانے راضی ہوئےتو ان کے بچوں کے لیے یونیفارم اور کتابیں مہیا کی گئیں ۔ 2002میں گودام اسکول کا باقاعدہ افتتاح کیا گیااور صبح کی شفٹ کا آغاز ہوا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد ان بچوں کی دیکھا دیکھی یہاں مزید بچے داخل ہوگئے۔ اس وقت ہم نے نہ تو کوئی داخلہ فیس رکھی تھی اور نہ ہی تدریسی فیس۔ 

چند ہی ماہ میں بچوں کی تعداد دوسو ہوگئی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور ایک وقت وہ آیا کہ صبح کی شفٹ میں بچوں کے بٹھانے کی گنجائش نہیں رہی۔ خاندان اور ادارےکی جو بچیاں خداترسی کی بنیاد پر ہمارے اس تدریسی پروگرام میں شامل ہوئی تھیں، ان میں سے زیادہ تر شادی کے بعد سسرال چلی گئیں، جس کے بعد ہمیں تنخواہ پر اساتذہ کاتقرر کرنا پڑا۔ 

اس کے لیے بستی کے قرب وجوار کی پڑھی لکھی بچیوں کی مدد حاصل کی گئی جنہوں نے انتہائی کم معاوضے پر تدریسی ذمہ داریاں قبول کیں۔ ان میں سے کئی بچیاں اسی اسکول سے پڑھ کر نکلی تھیںاور ہماری کوششوں سے میٹرک تک پرائیوٹ تعلیم حاٹل کی تھی۔ 

ہمارے لیےاہم مسئلہ ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کا تھا۔ اس کے لیے ہم نے بچوں کے والدین سے میٹنگ کی اور ان کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا ، جس میں طےپایا کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب علم سے فیس کی مد میں ہر ماہ دو سوروپے وصول کیے جائیں گے ۔ 

والدین یہ رقم بہ خوشی دینے پر آمادہ ہوگئے، کیوں کہ نجی اسکولوں کی فیسوں کے مقابلے میں یہ رقم بہت ہی قلیل تھی۔ والدین کے تعاون کے بعد اساتذہ کی تنخواہوں کا مسئلہ حل ہوگیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے بعد، بجائے طلباء کی تعداد میں کمی کے، ان میں اس حد تک اضافہ ہوگیا کہ کلاس رومز میںمزیدبچوں کی گنجائش نہیں رہی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے،اسکول کے صحن میں چار کلاسز بنا کر بنچیں رکھوائیں، بچوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے سائبان ڈلوائے گئے۔

2010میں ای ایس ایف نام کی ایک این جی اوکے عہدیداروں نے ہمارے اسکول کا دورہ کیا اور اس میں دوسری شفٹ شروع کرنے کے لیےہماری معاونت کی، لیکن چند ماہ بعد ہی انہوں نے علیحدگی اختیارکرلی،جس کی وجہ سے دوسری شفٹ جاری رکھنا مشکل ہوگیا ، اسے بند کرنا پڑا۔

ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہماری کوششوں سے نہ صرف بچوں میں تعلیم کا شوق اجاگر ہوابلکہ ان کے والدین بھی انہیں پڑھا لکھا کر ان کے بہتر مستقبل کے خواہاں ہیں۔ اس وقت اسکول میں 400طلباء زیر تعلیم ہیں، جن میں سے صرف 250بچوں سے فیس لی جاتی ہے جب کہ 150بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ 

ان میں سے بھی اگر کوئی بچہ فیس نہ دے سکے تو اس سے تقاضا نہیں کیا جاتا۔اسکول میں گیارہ بچیاں تدریسی فرائض انجام دے رہی ہیں، نظم و نسق سنبھالنے کے لیے ہیڈ مسٹریس ہیں، اسکول کی دیکھ بھال کے لیے رات اور دن کی شفٹوں میں دو چوکیدار اور ایک ماسی ہے۔ اساتذہ میں سےبیشتربچیاںرضاکارانہ خدمات انجام دے رہی ہیں، ہیڈمسٹریس بھی خدمت خلق کے جذبے کے تحت کام کررہی ہیں البتہ چند ٹیچرز،چوکیدار اور ماسی کی تنخواہیں ادا کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں بعض فیکٹریاں بھی ہر ماہ مالی اعانت کرتی ہیں لیکن جس ماہ ان کا تعاون نہ ملے تو ہمارا ادارہ اپنے طور سے فنڈ جمع کرکے تنخواہوں کا انتظام کرتا ہے۔اس کے علاوہ بجلی اور پانی کا بل ہم خودادا کرتے ہیں۔ فی الوقت اسکول چھٹی کلاس تک ہے۔ 

ہمارا اراد ہ کالج کی سطح تک کلاسز شروع کرنے کا ہے، چھٹی جماعت کےبعد ہم کورنگی کے کسی سرکاری اسکول میں لڑکوں کود اخل کروادیتے ہیں، لیکن بچیوں کا معاملہ دوسرا ہوتا ہے۔ انہیں دوردراز علاقے میں نہیں بھیجا جاسکتا۔ ہم اسکول کی توسیع کے منصوبے پر پیپر ورک کررہے ہیں،جیسے ہی توسیع کا کام ہوجائےگا دوسری شفٹ میں انٹر تک کلاسیں شروع کردیں گے۔

اسکول کی صدر مدرس محترمہ اسماء ہما نے ہمیں بتایا کہ ہم سب، ایک ٹیم کے جذبے کے تحت ، غریب بچوں کوتعلیم سے بہرہ مند کررہے ہیں۔ میں اسی علاقے میں رہتی ہوں، گریجویشن کرنےکےبعداسکول سے وابستہ ہوگئی۔ 

یہ اس وسیع و عریض علاقے کا واحد اسکول ہے، اگر یہ بھی نہ ہوتا تو یہاں کے ننھے پھول ریت سے اٹے میدانوں اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر کھیلتے کھیلتے مرجھا جاتے،ان کی تقدیر مز دوری اور کچرا چننے والوں کی حیثیت سے وابستہ ہوجاتی۔ 

ایک ٹیچر علیشا نے بتایا کہ وہ اسی علاقے میں رہتی ہیں اورخود بھی اسی اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اسکول کے منتظمین کی مہربانی سے انٹرکیا۔ اب گریجویشن کی تیاری کررہی ہوں ۔ اسکول میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے مجھ سمیت چند پڑھی لکھی لڑکیوں نے داخلہ حاصل نہ کرنے والے بچوں کو گھروں پر تعلیم دینے کے لیے مفت کوچنگ سینٹرز بنالیے ہیں۔ 

اسکول کےچھٹی جماعت کے طالب علم ، رضا نے ہمیںبتایا کہ مجھے پڑھائی کا شوق تھا، لیکن والدین ،غربت کی وجہ سے تعلیم دلانے سے قاصر تھے،گودام اسکول میں داخلےکے بعد میرا شوق پورا ہوا۔ اسکول میں میرا آخری سال ہے لیکن میری دعا ہے کہ یہاں بڑی کلاسز شروع ہوں تاکہ ہمیں دور دراز علاقوں میں جانے کی بجائے یہاں پر ہی کالج کی سطح پر تعلیم ملے۔

تازہ ترین