گفتگو:اخترسعیدی
عکاسی:اسرائیل انصاری
ڈاکٹر شیر شاہ سید کا شمار پاکستان کے نہایت ممتاز معتبر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، اُن کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوکر صاحبان ِ علم و دانش اور قارئین علم و ادب سے تحسین حاصل کرچکے ہیں، ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں۔ وہ اِن دنوں’’پاکستان نیشنل فورم آن وومن ہیلتھ‘‘ کے صدر ہیں۔
ڈاکٹر شیر شاہ سید، چاروں طرف پھیلی ہوئی زندگی کے بظاہر معمولی واقعات اور تلخ و تند باتوں کو چابک دستی سے افسانہ بنادینے کے قائل ہیں۔ مختلف تجربات اور منفرد انداز کے حامل اپنے افسانوں کی وجہ سے انہوں نے افسانے کے قارئین کو خوش گوار حیرت سے سرشار کیا ہے۔ زندگی سے قربت کی وجہ سے اِن کے افسانوں کو ہر سطح پر سراہا گیا۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید 1953ء میں ، کراچی میں پیدا ہوئے۔
این جے وی اسکول اور جامعہ ملیہ اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آئر لینڈ اور انگلینڈ کے مختلف اسپتالوں میں پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی اور گائنی کولوجی (امراضِ نسواں) میں پوسٹ گریجویٹ کی اسناد حاصل کیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید سے ہم نے گزشتہ دنوں ایک تفصیلی ملاقات کی، اِس دوران ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
س:۔اپنے حالاتِ زندگی سے آگاہ فرمائیے؟
ج:۔میرے آبائواجداد کا تعلق بہار (بھارت) سے ہے، لیکن میں اور میری چھوٹی بہن کراچی میں پیدا ہوئی۔ دو بڑے بھائی والدین کے ساتھ یہاں آگئے تھے۔ والد صاحب ہیڈ ماسٹر تھے، اُنہوں نے چار بچوں کی پیدائش کے بعد والدہ کو پڑھانے کا فیصلہ کیا، پھر والدہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد باقاعدہ ڈاکٹر بن گئیں اور تمام زندگی اسی پیشے سے منسلک رہیں۔ میری بنیادی تعلیم کراچی میں ہوئی۔
ابتدائی طور پر ہم بہار کالونی میں آباد ہوئے، پھر ملیر میں سکونت اختیار کرلی۔ جامعہ ملیہ اسکول سے میٹرک اور اردو سائنس کالج سے انٹر کیا۔ نمبر کم ہونے کی وجہ سے میں نے دو مرتبہ امتحان دیا، تیسری مرتبہ کامیابی حاصل ہوئی اور میرا داخلہ ڈائو میڈیکل کالج میں ہوگیا، وہاں سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد آئیرلینڈ اور انگلینڈ کا رخ کیا، لیکن وہاں ہر امتحان میں فیل ہوتا گیا، آخری چانس میں پاس ہو گیا، اس کے بعد دوسرے امتحانات پاس کیے، ٹریننگ مکمل کرکے پاکستان آگیا۔
میں بنیادی طور پر گائنالوجسٹ ہوں، بانچھ پن اور کینسر کا بھی معالج ہوں، میری اہلیہ بھی چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔ دادا کی وجہ سے میری اردو، تھوڑی بہتر ہوگئی ہے، اسکول سے آنے کے بعد دادا مجھے اردو پڑھایا کرتے تھے۔ مرزا غالب، مولانا الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور داغ دہلوی کے اشعار کے معنی سمجھایا کرتے۔ میں اپنے مضامین کی اصلاح بھی ان ہی سے کرایا کرتا تھا۔ اگر دادا کی خصوصی توجہ نہ ہوتی تو میں اردو کی ایک لائن بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔
س:۔وہ کیا محرکات تھے، جنہوں نے آپ کو افسانہ نگاری کی طرف راغب کیا؟
ج:۔میں نے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت افسانہ نگاری شروع نہیں کی، جامعہ ملیہ اسکول سے ’’دیواری اخبار‘‘ نکلتا تھا، اس کے ایڈیٹر معروف صحافی، عبدالسلام سلامی ہوا کرتے تھے، اس کے لیے میں نے ’’دس کا نوٹ‘‘ کے عنوان سے ایک کہانی لکھی، جسے خاصا پسند کیا گیا، وہاں کبھی کبھی ’’جنگ‘‘ کے نثار احمد زبیری اور ’’حریت‘‘ کے ظفر اقبال سے بھی ملاقات ہوجاتی، وہ مجھ سے میڈیکل سے متعلق مضامین لکھواتے، جس سے مجھ میں لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور حوصلہ بھی بڑھا، لیکن میری افسانہ نگاری کے بنیادی محرک، منشی پریم چند ہیں، میں نے ان کو بہت پڑھا اور متاثر بھی ہوا۔
کالج کے زمانے میں ہی میں نے دو افسانے لکھے ’’لہو لہو زبانیں‘‘ اور ’’جاگ اُٹھی چُمنیاں‘‘ جو مزدوروں کے حوالے سے تھے۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران میں نے کافی چیزیں لکھی تھیں، پہلے تو سوچتا رہا کہ ان کہانیوں کو چھپنا چاہیے یا نہیں، پھر ایک دن میں نے تمام مسودہ عبدالسلام سلامی کے حوالے کردیا، جب دو تین ماہ بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مسودہ چھپنے کے قابل ہے تو انہوں نے حوصلہ افزا جواب دیا، جس سے میرے اندر کا ادیب جاگ اٹھا۔ اس طرح میرا پہلا افسانوی مجموعہ ’’دل کی ہوئی تنہائی‘‘ منظر عام پر آیا، پھر میرے افسانے اخبارات اور ادبی رسائل میں بھی تواتر سے شائع ہونے لگے۔
س:۔آپ کے پروفیشن سے، آپ کی افسانہ نگاری تو متاثر نہیں ہوئی؟
ج:۔میری بیشتر کہانیوں کا تعلق، میرے پروفیشن ہی سے ہے۔ اس ملک کی عورتیں، بہت دکھی ہیں، اگر انہیں کریدا جائے تو ہر عورت کی داستان سے ایک کہانی برآمد ہوگی۔ ان کہانیوں سے میں پریشان بھی ہوتا ہوں اور متاثر بھی، کبھی کبھی رونا بھی آجاتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ بہیمانہ رویہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے۔
میری کوشش ہے کہ میرے افسانوں کے ذریعے عورتوں کے مسائل اجاگر ہوں، ان کو حوصلہ ملے اور ان میں زندگی کی امنگ پیدا ہو۔ عورتوں کے مسائل سے عام لوگوں کو بھی آگاہی ہونی چاہیے، سماج میں عورتوں کو ان کا جائز مقام کیوں نہیں دیا جاتا، میرے 80 فی صد افسانے اسی موضوع پر ہیں۔
س:۔آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
ج:۔میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میرا کوئی نظریہ نہیں، کسی نظریے سے وابستگی، انسان کا ذاتی مسئلہ ہے، میں اپنے نظریہ زبردستی کسی پر لاگو نہیں کرسکتا۔ میں غربت کا خاتمہ چاہتا ہوں، مظلوموں کے حق میں آواز اٹھاتا ہوں، اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ میرا نظریہ کیا ہے؟ میں کبھی کسی ادبی تحریک کا حصہ نہیں رہا، لیکن ترقی پسند تحریک سے متاثر ضرور ہوا۔
تمام اہم لکھنے والوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے ترقی پسند تحریک سے رہا ہے، بعض غیرترقی پسند ادیبوں کی تحریروں نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔ آدمی کو اپنا دماغ کھلا رکھنا چاہیے۔
س:۔اردو افسانے کی ارتقائی صورتِ حال کیا ہے؟
ج:۔میرا اس سلسلے میں زیادہ مطالعہ نہیں ہے، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ پاکستانی افسانے کا مستقبل روشن ہے۔ یہاں کی طرح بھارت میں بھی معیاری افسانے لکھے جارہے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان کتابوں کا تبادلہ نہایت ضروری ہے، اس سے اندازہ ہوگا کہ یہاں کیا لکھا جارہا ہے اور وہاں کس نوعیت کا کام ہورہا ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ زبان ختم ہوتی جارہی ہے، یہ بہت پریشان کن صورتِ حال ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا اردو زبان فلموں اور ٹی وی ڈراموں تک محدود رہ جائے گی، اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ ایک زمانے میں کتاب کا پہلا ایڈیشن کم از کم گیارہ سو پر مشتمل ہوتا تھا، کتاب بٹتی کم، بکتی زیادہ تھی۔
اب کتاب پانچ سو کی تعداد میں چھپی ہے، اس میں سے بھی آدھی سے زیادہ کتابیں، احباب کی محبتوں کی نذر ہوجاتی ہیں، کتاب فروخت ہونی چاہیے۔ میری کتاب، رونمائی کے موقع دو ڈھائی سو فروخت ہوجاتی ہے، اس میں میرا کمال نہیں، تعلقات کا کمال ہے۔ جب اردو زبان نہیں رہے گی تو اردو افسانہ کہاں رہے گا، اس تمام صورتِ حال کے باوجود میں اردو کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔
س:۔کیا موجودہ عہد کے افسانے میں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے؟
ج:۔آج کے بیشتر افسانہ نگار بہت مختلف انداز میں افسانے لکھ رہے ہیں۔ اب اردو ادب میں سائنس فکشن بھی آگیا ہے، اردو میں جاسوسی کی جارہی ہے، ممکن ہے کہ کچھ لوگ مجھ سے اختلاف کریں کہ جو ڈائجسٹ نکل رہے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی طرح سے ادبی خدمت کررہے ہیں، بعض ڈائجسٹوں میں انتہائی معیاری ادبی تحریریں اور خوب صورت اور جاذبِ توجہ افسانے شائع ہورہے ہیں۔ معروف ادیب اور دانشور شکیل عادل زادہ نے اپنے ڈائجسٹ ’’سب رنگ‘‘ کو ادبی مرقع بنا دیا تھا، غالباً یہ پاکستان کا واحد ڈائجسٹ تھا، جس کی سرکولیشن ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ادب اور سماج کو ہم آہنگ کردیا تھا۔ ’’سب رنگ‘‘ بند ہوگیا ہے، لیکن شکیل عادل زادہ کو آج بھی لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو میں بہت جدید لکھنے والے آرہے ہیں، دونوں جگہ اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے۔ وہ ادب مرجاتا ہے، جو زمانے کے ساتھ نہیں چلتا، عہد سے جڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ صورتِ حال بھی تکلیف دہ ہے کہ ادبی رسائل کی تعداد، دن بہ دن کم ہورہی ہے۔ ایک زمانے میں ادبی دنیا، ادبِ لطیف، نیرنگِ خیال، نقوش، فنون، اوراق، افکار، طلوعِ افکار، نئی قدریں جیسے معیاری ادبی رسائل بازار میں آتے تھے تو ادبی فضا متحرک ہوجاتی تھی، مکالموں کا آغاز ہوجاتا تھا۔ اب پرانے ادبی رسالوں میں سے ’’سیپ‘‘ اور ’’ماہِ نو‘‘ کبھی کبھی اپنا جلوہ دکھا دیتے ہیں، اب بھی کئی ڈائجسٹ نما ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں، لیکن ان کو وہ اعتبار حاصل نہ ہوسکا، جو مندرجہ بالا رسائل کو تھا، ایسا لگتا ہے کہ لکھنے پڑھنے کا عمل رک گیا ہے۔ اب ایسی نشستیں بھی نہیں ہورہیں، جن میں تنقید کے لیے نگارشات پیش کی جاتی تھیں، تنقیدی بصیرت رکھنے والے بھی خال خال ہی رہ گئے ہیں۔
میرا بچپن ’’بہار کالونی‘‘ میں گزرا، وہاں ایک ادارہ ’’مخزنِ ادب‘‘ کے نام سے تھا، جہاں پندرہ روزہ تنقیدی نشست ہوا کرتی تھی، میں نے وہاں سے بہت کچھ سیکھا۔ پہلے ہر کالج میں ’’بزمِ ادب‘‘ ہوا کرتی تھی، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مشاعروں کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا، جس سے نوجوانوں میں لکھنے پڑھنے کی تحریک ہوتی تھی، لیکن اب یہ تمام باتیں دیوانے کا خواب لگتی ہیں۔
س:۔کیا علامتی افسانہ اپنی افادیت کھوچکا ہے؟
ج:۔افسانے کی کوئی بھی قسم اپنی افادیت نہیں کھوتی۔ ’’جنگ‘‘ میں مبشر زیدی کی جو سو لفظی کہانی شائع ہورہی ہے، اسے بعض لوگ پسند نہیں کرتے، لیکن میری نگاہ میں اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، کچھ دوسرے لوگ بھی مبشر زیدی کی تقلید کررہے ہیں، اسی طرح علامتی افسانے کی بھی ایک اہمیت ہے۔ ظلم و استبداد کے دور میں، علامتی افسانے کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے، علامتی افسانہ، کبھی ختم نہیں ہوگا۔ بقول دلاور فگار ’’حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے‘‘ جب بھی حالات خراب ہوتے ہیں، لوگ علامتی انداز میں بات کرتے ہیں۔
س:۔ عالمی افسانہ نگاری اور دیگر زبانوں کے فکشن کے تناظر میں اردو افسانے کو کہاں دیکھتے ہیں؟
ج:۔میں نے عالمی ادب کا مطالعہ کیا ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں۔ میں عالمی ادب سے تراجم کی وساطت سے متعارف ہوا، بسااوقات میں حیران رہ جاتا ہوں کہ وہ کس کس طرح سے لکھ رہے ہیں۔ میں نے کچھ انگریزی افسانوں کے خود بھی تراجم کیے ہیں۔ ان کے انداز بیان اور طرزِ احساس نے مجھے بے پناہ متاثر کیا۔
انگلینڈ سے ایک ادبی جریدہ ’’گرانٹا‘‘ نکلتا ہے، اس میں بعض نوجوانوں کی تحریریں دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی تھی۔ وہ اپنے سماج میں بے انتہا ترقی اور ایمان دار معاشرہ ہونے کے باوجود انسان کی تنہائی کے بارے میں جس طرح لکھ رہے ہیں، اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔
میں کہتا ہوں کہ کاش! میں بھی ایسا لکھتا، لیکن میں خود میں اتنی قابلیت نہیں پاتا، کچھ اردو افسانہ نگاروں نے بھی مغرب کے اثرات قبول کیے ہیں۔ وہ ہماری تمام اچھی چیزیں اپنا رہے ہیں۔ اگر ہم ان کی اچھی باتوں کو اپنے اندر سمولیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہمارا افسانہ بھی، مغربی افسانے سے کسی طرح کم نہیں۔
س:۔ناول کو افسانے سے بڑی صنف کہا جاتا ہے، ہمارے ادبی سماج میں ناول کے مقابلے میں افسانہ نگاروں کی تعداد نسبتاً بڑھتی جارہی ہے، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
ج:۔ایسا لگتا ہے کہ لوگ طویل تحریریں پڑھنے سے گریز کرنے لگے ہیں، اس لیے ناول کم پڑھے جارہے ہیں۔ جب پڑھنے نہیں تو لکھنے والے اپنی توانائی کیوں صرف کریں؟ اس معاشرے میں طویل ناولوں کی گنجائش نہیں ہے، یہ ناولٹ کا دور ہے۔ اب لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کا سیلاب آیا ہوا ہے، جس نے پورے معاشرے اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس عہد میں مختصر نویسی ہی طرۂ امتیاز ہے۔ بہرحال آج بھی افسانے کے قاری موجود ہیں۔
س:۔ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے پر کیا اثرات مرتب کیے؟
ج:۔اردو افسانے کو ترقی پسند تحریک نے تقویت دی ہے، تمام بڑے افسانہ نگاروں کا تعلق اسی ادبی تحریک سے رہا ہے، سعادت حسن منٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ باغی تھے، لیکن میں انہیں بھی ترقی پسند تحریک ہی کا حصہ سمجھتا ہوں۔ انہیں بعض ترقی پسندوں سے اختلاف ضرور تھا، میری نگاہ میں تمام وہ لوگ ترقی پسند ہیں، جو معاشرے سے بےہودگی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ناانصافیوں کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہیں، اردو افسانہ ہی نہیں، ادب کو بھی بڑھاوا دینے میں ترقی پسند تحریک کا نمایاں کردار رہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب یہ تحریک کئی خانوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے ادب کا رخ متعین کیا ہے۔
اس کے اثرات بہت دن تک رہیں گے۔ ہم اس پر بحث کرسکتے ہیں کہ اصل ترقی پسندی کیا ہے؟ ترقی پسندی، اشتراکیت یا لادینیت کا نام نہیں۔ حسرت موہانی، مولوی بھی تھے اور ترقی پسند بھی۔ اگر ترقی پسندی، لادینیت پر مبنی ہوتی تو وہ ہرگز اس تحریک کا حصہ نہ بنتے، ترقی پسندی، ایک رجحان کا نام ہے، ایک طرز فکر ہے، ایک طرز احساس ہے۔
س:۔کیا آج کے افسانے میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے نظریات کا عکس دیکھتے ہیں؟
ج:۔جدیدیت اور ترقی پسندی، ساتھ ساتھ چلتی ہے، میں تو جدیدیت کو ترقی پسندی کی توسیع سمجھتا ہوں، جو افسانہ نگار، مختلف انداز سے افسانہ لکھ رہے ہیں، انہیں میں جدیدیت کے خانے میں رکھتا ہوں۔ میرے نقطۂ نظر کے مطابق ہر نئے عہد کا آدمی جدید ہوگا۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبۂ زندگی سے ہو۔ میں جدیدیت، مابعد جدیدیت کی بحث میں کبھی نہیں پڑا۔
نہ ساختیات، پسِ ساختیات کے مسائل میں الجھا، جو ان مباحث کا حصہ بن گئے ہیں، میں انہیں بھی قابلِ احترام سمجھتا ہوں، لکھنے والا، کوئی نظریہ سامنے رکھ کر نہیں لکھتا، جب تخلیق منظر عام پر آجاتی ہے تو قارئین اس تحریر کے بارے میں خود کوئی نہ کوئی نظریہ قائم کرلیتے ہیں، نقّاد اپنے نقطۂ نظر سے تحریروں کو پرکھتے ہیں۔
س:۔آپ کے اکثر افسانے، مختصر افسانے کی تعریف پر پورے اترتے ہیں، کیا یہ آپ کا سوچا سمجھا طریقۂ کار ہے؟
ج:۔میں نے طویل افسانے سے ہمیشہ گریز کیا ہے، آپ میری مختصر نویسی کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ میں نے اپنے ناول میں بھی طوالت سے گریز کیا ہے، حالاں کہ ناول پھیلائو چاہتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ مختصر افسانے کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچائوں۔ میں نے کراچی کے حوالے سے کئی افسانے لکھے۔ میں نے ہندو، عیسائی، پارسی اور سندھی برادری کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔
اُن مہاجروں کے بارے میں بھی، جنہوں نے کراچی میں آباد ہوکر اس شہر کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کی اور اُن مہاجروں کے حوالے سے بھی افسانے لکھے، جنہوں نے اس شہر کو برباد کیا۔ سرمایہ داروں اور وڈیرہ شاہی کے خلاف بھی قلم اٹھایا۔ ان افسانوں میں کچھ افسانے مجھے بہت پسند ہیں۔ میں نے ایک ہندو خاندان کی کہانی لکھی، جو پاکستان بننے کے بعد ہندوستان چلایا گیا تھا، ان کا ایک آدمی اپنے چچا کی تلاش میں کراچی آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے چچا کو زبردستی مسلمان کرکے اس کے مکان پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔
میرا ایک افسانہ ’’مگین شلوم‘‘ کے نام سے ہے، جو کراچی میں یہودیوں کے قبرستان کے حوالے سے ہے۔ بلوچستان کے مسائل پر بھی میں نے ایک افسانہ لکھا، میرا ایک افسانہ ان بچوں پر ہے، جنہیں اغواء کر کے دبئی پہنچایا جاتا تھا اور وہ اونٹ کے شتربان بن جاتے تھے، وہاں ان کا جنسی استحصال کرکے انہیں مار دیا جاتا تھا۔
س:۔لکھنے والوں کا ایک گروہ، تنقید کو غیرضروری سمجھتا ہے، آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
ج:۔تنقید غیرضروری نہیں ہے، بعض نقاد غیرضروری ہوسکتے ہیں، لکھنے والے کو تنقید سے نہیں گھبرانا چاہیے، آپ جو لکھ رہے ہیں، وہ آپ کی چیز ہے، کسی کے برا کہنے سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوگی۔ اچھا نقاد، چیزوں کو دیانت داری سے پرکھتا ہے۔ پھر لکھتا ہے۔ اس کی نظر تحریر کے دونوں رخوں پر ہوتی ہے، محاسن پر بھی اور معائب پر بھی۔ وہ مشاہدہ کرتا ہے کہ کہانی بیان کرنے کا طریقۂ کار کیا ہے، کہانی کے کردار کہیں گڈمڈ تو نہیں ہوگئے۔
میں نے ایک افسانہ لکھا، جس کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ’’ایک ناول نگار کے کرداروں نے بغاوت کردی، وہ سارے کردار زندہ ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ تم نے فلاں ناول میں ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ میں تو شریف آدمی تھا، مجھے غنڈا بنادیا گیا‘‘ کردار، ناول نگار کا احتساب کررہے ہیں، اس پر ایک نقاد نے مجھ سے کہا کہ یہ عجیب و غریب بات ہے، پتا نہیں آپ نے اپنے کرداروں کو زندہ کرنے کی کوشش کیوں کی؟ ان کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی، لیکن تنقید اُن کا حق تھا۔ میں تنقید سے کبھی پریشان نہیں ہوتا، اچھے نقّادوں سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں، تنقید نگار کا معاشرے میں اہم مقام ہے، لیکن افسانے پر تنقید کے حوالے سے کم ہی نقاد سامنے آئے؟
س:۔کیا آپ کے خیال میں افسانے کا قاری کم ہوا ہے؟
ج:۔بلاشبہ، ادب پڑھنے والوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے، اس کی وجہ انٹرنیٹ کی دنیا ہے، لوگ فیس بک کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ ان کے پاس وقت نہیں کہ کتابی افسانے پڑھیں۔ انٹرنیٹ پر بھی لاکھوں افسانے موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس صورتِ حال میں بہت جلد بہتری آئے گی، ’’امید پہ دنیا قائم ہے‘‘۔
س:۔کیا زبان و ادب سے لوگوں کی دوری کا سبب، الیکٹرونک میڈیا ہے؟
ج:۔الیکٹرونک میڈیا نے ادب کو خراب بھی کیا ہے اور عجیب و غریب روایتیں بھی ڈالی ہیں۔ بہت سے پڑھنے لکھنے والے اس طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ وہ معاشرہ یا سماج کبھی ترقی نہیں کرسکتا، جس میں ادب اور فلسفہ نہ ہو۔ جب مسلمان عروج پر تھے، اُس دوران فلسفیانہ مباحث ہوا کرتے تھے ’’فلسفیوں کی غلط فہمی اور غلط فہمی کی غلط فہمی‘‘ یہ ابنِ غزالی اور ابنِ رشد کا مکالمہ ہے۔ یہ مسلمان ہی تھے، جنہوں نے یونانی ادب کا عربی میں ترجمہ کیا، لیکن جیسے جیسے یہ فلسفہ کھلتا چلا گیا، ویسے ہی مُلے ٹُلے آنا شروع ہوگئے۔ ایسے لوگ سامنے آگئے، جن کا انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں، وہ قتل، گردن زدنی اور پتھر بازی کو برا نہیں سمجھتے۔ جب معاشرے سے ادب اور فلسفہ نکل جائے تو ملائیت رہ جاتی ہے۔
مُلا، ادب کو مانتا ہے اور نہ فلسفے کو، وہ تاریخ کو بھی نہیں سمجھتا، اس کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے اور وہ حال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، جو ایمان دار مولوی ہے، وہ مال کے لیے نہیں، اپنی ذات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ کسی بھی سماج کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے ادب اور فلسفہ نہایت ضروری ہے۔ زمانۂ قدیم میں یونان، بغداد اور شام میں مسلمانوں کی بادشاہت کے باوجود، ادب اور فلسفے کو بہت اہمیت حاصل تھی، وہاں ریاضی، فلسفے کا حصہ تھا۔ کسی بھی بڑے آدمی کا بچّہ، ریاضی اور زبان پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ بڑے بڑے سائنس دانوں اور مفکروں نے بھی خود کو ادب اور فلسفے سے جوڑے رکھا۔
میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے اندازِ تحریر سے بہت متاثر ہوں، اُن کی اردو، نہایت شستہ اور شائستہ ہے، لیکن ان کا اسلامی فلسفہ جو اُنہوں نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے، اس سے میں متفق نہیں ہوں۔ جب زندگی کو ادب سے نکال دوگے تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جاوید غامدی بھی، اسلام کو بڑے مختلف انداز میں پیش کررہے ہیں، لیکن ان کے فلسفیانہ طرز استدلال سے بھی میں اتفاق نہیں کرتا۔ فلسفہ، انسان کو زندہ رہنا سکھاتا ہے۔
س:۔کیا اعلیٰ فنی تعلیم کی سطح پر ادب کے مطالعے کی شمولیت کو انسان سازی کے لیے اہم سمجھتے ہیں؟
ج:۔پاکستان واحد ملک ہے، جہاں اعلیٰ تعلیم میں ادب نہیں پڑھایا جاتا۔ امریکا اور انگلینڈ میں تو کوئی شخص ادب پڑھے بغیر ڈاکٹر بن ہی نہیں سکتا۔ امریکا میں 14 جماعتوں کے بعد میڈیکل میں داخلہ دیا جاتا ہے، اس میں نطشے، ہیگل، کارل مارکس اور تمام بڑے مفکرین کو پڑھنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے، ادب اور فلسفہ نہایت ضروری ہے۔
میں جتنے بھی بڑے بڑے ڈاکٹرز سے ملا، انہیں ادب دوست پایا۔ پاکستان میں اکثر ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کو ادب تو کجا علامہ اقبال کے بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم۔ اس کے برعکس بعض انگریزوں کو مرزا غالب کے بارے میں خاصی معلومات ہیں، جو لوگ ادب کے بغیر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ سائنس دان تو بن سکتے ہیں، ادیب نہیں ہوسکتے۔ آئن اسٹائن، ادب سے خصوصی لگائو رکھتا تھا۔
س:۔ہماری نئی نسل، نثر نگاری کی طرف آنے سے کیوں گریزاں ہے؟
ج:۔ہماری نئی نسل، انگریزی سے زیادہ متاثر ہے، اردو سے وہ دور کیوں ہے، اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ نوجوان، جوق در جوق شاعری کی طرف آرہے ہیں، شعر تو چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے بھی ہوسکتا ہے، لیکن نثر، خودسپردگی کا تقاضا کرتی ہے، اس کے لیے جم کر بیٹھنا پڑتا ہے، شاید اسی لیے نوجوان اس طرف آنے کی زحمت نہیں کرتے، اچھے افسانے بھی سامنے نہیں آرہے، اس میں شاید ہمارا قصور ہے کہ ہم نے اچھے افسانے نہیں لکھے، جن سے ہماری نئی نسل متاثر نہیں ہوئی، بہرحال بہتری کی توقع رکھنی چاہیے۔
س:۔آپ کی زندگی کا ایک رخ سماجی خدمت بھی ہے، اس حوالے سے آپ نے کس نوعیت کا کام کیا؟
ج:۔میں بنیادی طور پر عورتوں کا ڈاکٹر ہوں۔ میں نے پاکستان میں عورتوں کے حالات بہت خراب دیکھتے ہیں۔ میں سوبھراج اسپتال کا انچارج تھا، میں نے دوستوں کی مدد سے اسے ترقی دی اور عورتیں کے لیے سہولتیں فراہم کیں، آج کل کوھی گوٹھ لانڈھی اسپتال کا نگراں ہوں، جہاں صرف عورتوں کا علاج کیا جاتا ہے، اس کے قیام میں بھی دوستوں نے مجھ سے بھرپور تعاون کیا۔
یہاں عورتوں کے تمام امراض کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ ہم بڑے سے بڑا آپریشن، بلامعاوضہ کرتے ہیں، مجھے اور میری ٹیم کوخدمت میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ میں ’’جنگ‘‘ کی وساعت سے ان تمام خواتین سے اپیل کرتا ہوں، جو وسائل نہ ہونے کےباعث اپنا علاج کرانے سے قاصر ہیں، وہ بلاجھجک کوھی گوٹھ (لانڈھی) اسپتال آئیں، ہم ان سے ہر ممکن تعاون کریں گے، اس اسپتال میں تمام سہولیات موجود ہیں، مریض کو ایک پیسہ بھی خرچ کرنا نہیں ہوتا۔
میری والدہ، عطیہ ظفر ایک غیرمعمولی خاتون تھیں، اُن کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو کم از کم میٹرک تک تعلیم ضرور دلائیں، لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔ 13 برس کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی۔ چار بچوں کی پیدائش کے بعد والد نے فیصلہ کیا کہ میری والدہ کو بھی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، جس کے لیے وہ خود بھی ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔
ان کا یہ فیصلہ والدہ کی برسوں کی تمنا تھی۔ والدہ نے ادیب منشی اور ادیب فاضل کے امتحانات کے ساتھ انگلش کا امتحان دے کر جلد ہی میٹرک کی سند حاصل کرلی۔ والد نے سوچا تو یہ تھا کہ میٹرک کے بعد وہ کسی اسکول میں ٹیچر بن جائیں گی، مگر بدلتے وقت کے ساتھ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا، عطیہ ظفر، ڈاکٹر بنے گی۔
اس سلسلے میں انہوں نے پورے پاکستان میں موجود میڈیکل اسکولوں میں ان کے داخلے کی درخواستیں جمع کرادیں۔ اُس زمانے میں ایم بی بی ایس کے علاوہ ایسے میڈیکل اسکول بھی تھے، جہاں چار سالہ نصاب کے بعد ایل ایس ایم ایف کا ڈپلومہ ملتا تھا اور اس امتحان کے پاس کرنے والوں کو چھوٹا ڈاکٹر کہا جاتا تھا۔
میری والدہ نے ساڑھے چار سال میں ایس ایس ایم ایف کا کورس کرلیا۔ اُس زمانے میں حکومت پاکستان نے ایک پروگرام کا آغاز کیا، جس کے مطابق تمام ایل ایس ایم ایف ڈاکٹروں کو اس بات کا موقع دیا گیا کہ وہ میڈیکل کالج کے چوتھے سال میں داخل ہوجائیں اور ایم بی ابی ایس کے چوتھے اور پانچویں سال کا امتحان دے کر ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلیں۔
میری والدہ کا ابتدائی طور پر داخلہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج، لاہور میں ہوا اور تین ماہ کے بعد کراچی کے ڈائو میڈیکل کالج میں کردیا گیا۔
وہ جب چوتھے سال کا امتحان پاس کرکے پانچویں سال میں پہنچیں تو میرے بڑے بھائی ٹیپو سلطان کا داخلہ، ڈائو میڈیکل کالج میں ہوا، جہاں دونوں ماں اور بیٹا ایک سال تک ایک ہی کالج میں پڑھتے رہے۔ اماں نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پہلی ملازمت سول اسپتال میں کی۔
خواب ہر شخص دیکھتا ہے، لیکن شرمندۂ تعبیر چند ایک ہی ہوتے ہیں، اس لیے کہ منزل کا تعین کیے بغیر سفر کا آغاز کیا جائے تو مقصد کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی، جب تک سمت کا تعین نہ ہو، ایسی کوئی بھی کوشش، بنجر زمین میں بیج ڈالنے اور فصل کی امید رکھنے کی توقع قرار پائے گی۔
کسی مفکر نے کہا تھا کہ اہداف یا منزل کا تعین نہ ہو تو سفر اکارت جاتا ہے، آوارہ گردی قرار پاتا ہے، دوسرے الفاظ میں مقاصد کا تعین ہی کامیابی کی ضمانت کہلائے گا۔ سچ یہ ہے کہ ’’آوارہ گرد‘‘ کبھی کامیاب نہیں ہوتے، مشکلات کتنی ہی کیوں نہ ہوں، ثابت قدمی، کامیاب کی ضمانت ہوتی ہے۔ بقول منیر نیازی
اک اور دریا کا سامنا تھا، منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
سچائی پر یقین بہت ضروری ہے، یقین ہی تاریک راہوں میں مینارۂ نور کا کام دینا ہے۔ قدرت نے سب کو 24 گھنٹے اور سات دن دیئے ہیں، جو آگے دیکھنے کی صلاحیت اور آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، کامیابیاں اُن کا مقدر بن جاتی ہیں، جو حوصلہ ہار جائیں، وہ ساری زندگی گلہ، شکوہ اور مایوسی کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں سمیٹنے والے ہی ایورسٹ سر کرتے ہیں، اپنی صلاحیتوں پر یقین، بڑی بڑی رکاوٹوں کو دُور کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔