• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی سیاست میں کب کیاہوجائے،کوئی نہیں جانتا،مسائل کی چکی میں پسی عوام تو بالکل نہیں،بظاہر سیاست اوراقتدار سب معمول کےمطابق چل رہاہوتاہےاور پھر اچانک دنوں بلکہ گھنٹوں میں سیاسی بحران پیدا ہوجاتاہے۔

کسی کےاقتدار کاتختہ الٹ جاتاہے،اور کوئی بظاہر’ہیروسے زیرو ‘اور کوئی ’زیرو سے ہیرو ‘بن جاتاہے۔

یکم جنوری سےقبل تک سب کچھ بظاہر ٹھیک دکھائی دےرہاتھا،،نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلی تھے،صوبائی حکومت کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔پھر اچانک ان کےخلاف چودہ اراکین اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک لے آئے۔

عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے پہلے ان کی اپنی ہی کابینہ کےاراکین مستعفی ہوناشرو ع ہوئے اور پھر ٹھیک عدم اعتماد کےروز یعنی نوجنوری کو انہیں ’نوشتہ دیوار‘ سامنے لکھادیکھ کر وزارت اعلی سے استعفی دیناپڑااور پھر صوبے کی سیاست بلکہ اقتدار کے منظر نےچارروز بعد یعنی تیرہ جنوری کو ایوان میں ایک اقلیتی یعنی اراکین کے حوالےسےکم تعداد کی حامل جماعت ، مسلم لیگ ق کےرکن اسمبلی کو اکتالیس کی حمایت سے وزیراعلی کےمنصب پرفائز دیکھا۔

ان کےمخالف پشتونخواہ میپ سےتعلق رکھنےوالے رکن اسمبلی آغالیاقت کو محض تیرہ ووٹ ملے،اس کےبعد صوبائی حکومت کامنظر نامہ تبدیل ہوگیا۔

جو اقتدارمیں تھے وہ حزب اختلاف میں آگئے اور جو بظاہر کچھ نہیں تھے وہ برسرقتدار ہوگئے،،اب یہ وافقان حال ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ شاید جو کچھ ہوا اس کے پس منظر میں اس حوالےسے کچھڑی پہلے سے ہی پک رہی ہو۔

بہرحال یہی صوبے کی سیاست کےعجب رنگ ڈھنگ ہیں،،،، اس حوالے سے ماضی کی داستانوں سے قطع نظر،، اگر حال کو ہی دیکھا جائے تو رواں سال کےآغاز میں ہونے والے واقعات کے آفٹرشاکس یعنی جھٹکے اب تک محسوس کئے جارہےہیں۔

صوبے کی سیاست کےواقف حال سیاسی پنڈت ان جھٹکوں کے آئندہ الیکشن تک جاری رہنےکاامکان ظاہر کررہےہیں،اس کا ایک مظاہرہ تو بلوچستان سے سینیٹ کےانتخاب کےموقع پر بھی دیکھنے میں آچکا ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کےامیدوار وں کی جگہ چھ آزاد امیدوار وں نے سینیٹ کامیدان مارلیاتھا،،،اور اکثریتی جماعت ن لیگ کا حمایت یافتہ کوئی بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکاتھا۔

ایسے میں صوبے کے سیاسی افق پر ایک نئی سیاسی جماعت کاطلو ع بھی صاف نظر آرہاہےبلکہ اس حوالےسے بہت سی پیشرفت ہوچکی ہے۔کافی گراونڈ ورک بھی کیاجاچکاہے،اب صرف اعلان اور آئندہ کالائحہ عمل باقی ہے،اور جب یہ لائن لکھی جارہی ہوں تو شاید یہ سب کچھ سامنے بھی آگیاہو۔

یہ تو سب بلوچستان کی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہیںجو کہ بہرحال نرالے ہیں،،،اور اب ان میں ایک نیاعجب رنگ یہ نظرآیا کہ بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی بنچوں پر براجمان اراکین اسمبلی کی تعداد حزب اقتدار کےاراکین کی نسبت زیادہ ہوگئی ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق اس وقت بلوچستان اسمبلی کےایوان میں حزب اختلاف سےتعلق رکھنےوالے اراکین کی تعداد 35بن رہی ہےیعنی اسمبلی کےایوان میں 64میں سے35کاتعلق حزب اختلاف سےہےجبکہ اسمبلی میں حکومتی بنچوں پربراجمان اراکین کی تعداد25بنتی ہے۔

اس طرح بلوچستان اسمبلی ملک کی واحد صوبائی اسمبلی ہے کہ جہاں اپوزیشن اراکین کی تعدادزیادہ ہے،حزب اختلاف کی جماعتوں میں پشتونخواہ میپ ،نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام ف،بی این پی مینگل ،بی این پی عوامی اور بی این پی عوامی شامل ہیں۔

اگراعدادوشمار کو دیکھاجائے تو پشتونخواہ میپ کےاراکین کی تعداد تیرہ، نیشنل پارٹی کےاراکین کی تعداد دس ہے جبکہ جے یو آئی ف کے اراکین کی تعداد آٹھ ہے۔

اسی طرح بی این پی مینگل کےدو اور بی این پی عوامی اور اے این پی کےایک،ایک رکن کاتعلق بھی حزب اختلاف سے ہے،،یہاں ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے ماسوا ء تقریباتمام جماعتوں بشمول حزب اختلاف میں شامل جماعتوں سےتعلق رکھنےوالے اراکین میں سے بیشترنےاس وقت کے وزیراعلی نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کےعلاوہ تیرہ جنوری کو نئےقائدایوان کےانتخاب کے موقع پر بھی موجودہ وزیراعلی میرعبدالقدوس بزنجو کےحق میں ووٹ دیاتھا۔

اب ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں 23کی اکثریت سے پشتونخواہ میپ کےعبدالرحیم زیارتوال جے یو آئی کےمولاناعبدالواسع کی جگہ قائد حزب اختلاف مقرر ہوچکے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ عبدالرحیم زیارتوال کی تقرری کےخلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے،،،مولاناعبدالواسع اور جمعیت کےدیگراراکین نے موجودہ وزیراعلی میرعبدالقدوس بزنجو کی بھرپور حمایت کی تھی۔

تاہم انہوں نے ان کی حکومت کاحصہ نہ بننے کااعلان کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی کےایوان میں حزب اختلاف میں ہی رہنے کافیصلہ کیاتھا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اب حزب اختلاف میں عددی اعتبار سےاکثریت کی حامل پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کےچند اراکین موجودہ وزیراعلی میرعبدالقدوس بزنجو کےخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

ان کا دعوی ہے کہ میرعبدالقدوس بزنجو اقتدار میں ہوتے ہوئے اقلیت میں ہیں۔۔۔بلوچستان کی الگ انداز کی سیاست میں اب آگے کیاہوتاہے؟؟؟،،،پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

تازہ ترین