پہلی قسط
معروف شاعر، ادیب، فلسفی اور عجوبۂ روزگار شخصیت، جون ایلیا کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی حادثاتی طور پر انتقال کرگئے۔ لوگ جون سے تعزیت کررہے تھے، انھیں دلاسے دے رہے، ہمّت بندھا رہے تھے۔ خاصی دیر تک وہ لوگوں کا پرُسہ سنتے رہے، پھر لمبی آہ بھر کر بولے’’ہاں جناب،ہمیں اپنے بھائی کے قتل کا کوئی تجربہ تونہیں تھا۔‘‘ اُن کے ابتدائی دنوں کے دوست اور غم گسار، شکیل عادل زادہ رقم طراز ہیں’’کسی دن گھریلو معاملوں کا قصّہ چل رہا تھا۔
کہنے لگے ’’یارشکیل!سنتے ہیں، پچھلے زمانوں میں بیویاں مربھی جایا کرتی تھیں۔‘‘ منفرد شاعر،عبیداللہ علیم اور جون صاحب میں اچھی دوستی تھی ۔علیم کی اچانک وفات جون کے لیے صدمے کا سبب تھی۔ جنازہ اٹھا، تو ایک ہم عصر شاعر پچھاڑیں کھانے اورگریہ کرنے لگے۔ وہ ہرکسی سے لپٹ جاتے ۔
جون بھی غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ تدفین کے لیے جب میّت کو بس میں رکھاجارہا تھا تو کسی دوست نے اُس ہم عصر شاعر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جون کے کان میں کہا ’’اس کی تو حالت دیکھی نہیں جاتی۔‘‘یہ سن کر جون صاحب اِدھر دیکھتے ہوئے ہونٹ سکوڑ کر بولے ’’ہاں جانی! وہ ہم سے بازی لے گیا۔‘‘یار ِ خاص تو صاحب ِطرز ادیب، اسد محمد خان بھی تھے۔
دونوں میں خوب بنتی تھی ۔ ایسی بے تکلفی کہ آداب برطرف کرتے ہوئے دونوںبے خود وبے خبرسے ہوجاتے۔ اسد صاحب کو دیکھ کر جون خوب نخرے میں آجاتے، بے ساختہ کہتے ’’ارے دیدی!کہاںرہ گئی تھی نامراد،کتنی دیر کردی۔ کب سے راہ تَک رہی ہوں۔ گھڑی دیکھی ہے۔ اب کیا خاک جانا ہوگا۔‘‘
اسد محمد خان اُسی انداز میں جواب دیتے ’’کیا بتاؤں بھِنّو!سمجھو، بس خیر ہوگئی۔ خدا جانتا ہے، کس مشکل سے پہنچی ہوں۔ کم بخت بس رستے میں تین مرتبہ ٹھپ ہوئی۔ معلوم تھا، تجھ سے تو انتظار برداشت ہی نہیں ہوتا۔ کھول رہی ہوگی…توُ تو۔‘‘ جون صاحب جواب دیتے ’’مَیں تو ہول رہی تھی۔ زمانہ برا آگیا ہے۔ جانے کیسے کیسے وہم آرہے تھے۔‘‘
ایسا نہیں تھا کہ جون شعوری طور پر بنتے ہوں۔ یہ کجی کہیے یاقلندری، اُن کی شخصیت میں یوں جذب تھی، جیسے نمکین سمندری پانی آبی گھاس میں۔ دنیا دو قطبی دیوؤں کے بیچ تقسیم تھی۔ امریکا نے سر مایہ دارانہ نظام اور سوویت یونین نے سوشلزم کا جھنڈا تھام رکھا تھا۔
جون صاحب کا واضح طور پر ذہنی جھکاؤ سوشلزم اورکمیونزم کی جانب تھا۔دنیا کی چند بڑی کتابوں میں ایک ’’داس کیپیٹال‘‘کا مصنّف ایک جرمن یہودی عالم، فلسفی اور معیشت دان، کارل مارکس!اُس کے پاس اپنی بیٹی کے علاج کے پیسے بھی نہ تھے۔
داس کیپیٹال کے فلسفے پر وجود میں آنے والے نظام نے تیسری دنیا کے بہت سے دانش وَروں کو اپنے رومان میں مبتلا کررکھا تھا۔پاکستان کے دائیں بازو کے دانش وَر اس ہمہ جہت نظام کے فقط ایک پہلو، یعنی دین سے دوری سے خوف زدہ تھے اور اسی کو مشتہر کرکے لوگوں کو اس سے برگشتہ کرتے تھے۔بہرحال، یہ معاملہ اب بحث طلب ہے اور بحث بڑی حد تک فرسودہ بھی کہ اس کے معاشی نظام ہی کو اپنا لیا جاتا اور مذہب سے متعلق پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا،تودنیا کس قدر مختلف ہوتی۔
اسی اِزم سے متاثر ہوکے بھٹو نے اسلامک سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ایک رات جون ایلیا گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے۔ اُدھرماسکومیں گورباچوف کے زیرِانتظام سوویت یونین کا اِنہدام عمل میں آرہا تھا۔ ماسکو میں فوج داخل ہوگئی تھی اور لوگوں نے لینن کا مجسمہ گرادیا تھا۔ یہ سب پاکستان میں سی این این پر دکھایا جارہا تھا۔جون کے ہم دَم اور دانش ور انیق احمد اُس وقت ٹی وی پر یہ تاریخ ساز لمحے دیکھ رہے تھے۔
رات کے دو ، ڈھائی بجے کا عمل ہوگا۔ انھوں نے جون کو یہ برُی خبر سنانے کے لیے فون کیا۔ گھر والوں نے بتایا کہ وہ سوچکے ہیں۔انھوں نے جون کو جگانے پر اصرار کیا۔ گھر والوں نے جون کو اٹھایا اور انیق کے فون کا بتایا، تو جون انکار نہ کرسکے اور آنکھیں ملتے ہوئے فون سننے نیم خوابیدگی میں چلے آئے۔ انیق نے بتایا ’’بھائی جون!روسی باغی فوج ماسکو میں داخل ہوگئی ہے اور لینن کا مجسمہ روندا جارہا ہے ‘‘ جون ہڑبڑا گئے۔ انھوں نے بے یقینی سے انیق احمد سے کہا’’نہیں جانی، نہیں جانی۔‘‘
انیق نے بتایاکہ وہ بہ چشم خودسی این این پریہ ناقابلِ فراموش مناظردیکھ رہے ہیں۔جون چپ ہوگئے۔انیق نے دوبارہ مناظر کی روداد سنائی، تو جون گرفتہ آواز میں بولے ’’ہاںجانی، فوج کہیں کی بھی ہو، ہوتی پنجابی ہے۔‘‘انیق احمد ہی کے ساتھ اُن کا ایک دل چسپ واقعہ اورہے ۔انیق ٹھیرے زاہدِ خشک اور جون رند ِ بلا نوش۔ ایک مرتبہ جون صاحب رات گئے انیق کے ہم راہ رکشے میں جارہے تھے۔جون صاحب اپنے حال میں تھے۔
رستے میں خداداد کالونی کے نزدیک حسّاس ادارے کے اہل کاروں نے انھیں روک لیا۔ انیق نے جون سے درخواست کی کہ وہ کچھ نہ بولیں، وگرنہ اُن کی خمارزدگی کی بات کھل جائے گی اورخواہ مخواہ کوئی پیچیدگی ہوسکتی ہے۔
جون صاحب نے کہا’’ٹھیک ہے جانی، میں چپ بیٹھا رہوں گا۔‘‘اہل کاروں نے پوچھا کہ آپ لوگ کہاں سے آرہے ہیں۔انیق نے کچھ بتایاکہ جون صاحب یکایک رکشے کے دوسرے دروازے سے نکل آئے اور سینہ تان کربولے ’’شراب پی کر آرہے ہیں۔‘‘یہ کہہ کر جون صاحب نے جیب سے بوتل نکال کر بھی اہل کاروں کو بہ طور ثبوت دکھادی۔
انیق یہ سب ہکّا بکّا دیکھ رہے تھے۔ جون صاحب نے اعترافی بیان دینے کے بعد سڑک پر رقص کے اندازمیں ہاتھ لہرانے شروع کردیے ۔ساتھ ہی وہ اپنا قومی نغمہ بھی ترنم سے سنانے لگے،’’ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کرتے ہیں۔‘‘ اپنے بڑے بھائی رئیس امروہوی کے لکھے ملی نغمے کے چند اشعار بھی سنائے اورگائے۔
اہل کارحیران و پریشان کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ مسکراتے ہوئے انھوں نے جانے کی اجازت دے دی ۔ انیق صاحب ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے رکشے میں بیٹھے تو جون صاحب فخریہ لہجے میں بولے ’’دیکھا؟ تیرا بھائی اتنا بھی بے ہوش نہیں۔‘‘
ڈاکٹر توقیر ارتضیٰ مستند شاعر اور منجھے ہوئے بیوروکریٹ ہیں۔ وہ اپنے آبائی شہر، ایبٹ آباد میں طب کی تعلیم حاصل کررہے تھے تو خبر اُڑی کہ جون ایلیا وہاں ایک مشاعرے کی صدارت کرنے آرہے ہیں۔وہ جون کی شاعری کے مدّاح تھے، سو مقررہ تاریخ کو مجوزّہ مقام پر مشاعرے میں بہ طور سامع پہنچ گئے۔مشاعرہ خوب جما اور جون نے تو گویا محفل لوٹ لی۔ اسی دوران جون کچھ زیادہ ہی خمار میں آگئے۔ جب مشاعرہ ختم ہوا تو توقیر صاحب صدرِمشاعرہ، جون سے اظہار ِ عقیدت کے لیے آگے بڑھے۔
تب تک اسٹیج خالی ہوچکا تھا اور جون کرسی ٔ صدارت چھوڑکراسٹیج پرقلابازیاں لگا رہے تھے۔وہ ایک کونے سے قلابازی لگانی شروع کرتے اور دوسرے کونے تک چلے آتے۔ یہ معمول دوسرے کونے سے تیسرے کے لیے شروع ہوجاتا۔
توقیرصاحب بہت صبر سے ایک کونے میں کھڑے ہوگئے اور انتظار کرنے لگے۔جون صاحب لوٹنیاں لگاتے ہوئے وہاں پہنچے اور اگلے مرحلے کے لیے تیار ہونے لگے تو توقیر صاحب نے انتہائی عِجز و ادب سے انھیں بتایا کہ وہ جون صاحب کے بہت مدّاح ہیں۔ یہ سن کر جون کی آنکھوں میں چمک آگئی اور بولے ’’جانی! اگر اتنے ہی مدّاح ہو،تو آؤمیرے ساتھ قلابازیاں لگاؤ۔‘‘ توقیر صاحب مدّاح تو ضرور تھے، پر اتنے بھی نہ تھے۔
بہ قول اُن کے ’’جون صاحب تو کراچی لوٹ جاتے۔ میں لوٹنیاں لگا کر ایبٹ آباد کے دوستوں کو کیا منہ دکھاتا‘‘ سو ،وہاں سے خاموشی سے کھسک لیا۔ یہ سنک جون صاحب طاری کرتے تھے، ڈراما سجا لیتے تھے یا ان کی عادات و حرکات مصنوعی ہوتی تھیں، سمجھنے کے لیے ایک حقیقت مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ جون بہت سی زبانوں کے عالم،کئی علوم پرقادر اور نفسیات کی گتھیوں کے شارح تھے۔
وہ زندگی کی بے معنویت اور کائناتی وسعت میں انسان کی بے اہمیتی سمجھ چکے تھے۔شاید زندگی کو ایک کھیل تماشے سے زیادہ نہ لیتے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی حقیقی صاحب علم و ادراک متکبّر نہیں ہوسکتا کہ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ جون دانائے راز تھے، سو کجَ روتھے۔ وہ پیچیدہ اور مجموعۂ اضداد بھی تھے۔ رقیق القلب تھے اور آمادئہ پیکار بھی۔عجب آدمی تھے۔ اپنے گرد فسوں کا ایک ہالہ رکھتے تھے۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ جون ایلیا14دسمبر1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ زاہدہ حنا کا خیال ہے کہ اُن کاسنِ پیدایش1928ء ہے۔ جب کہ شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہاجاسکتا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جون صاحب کو کم عمر نظر آنے اور کہے جانے کا جنون تھا، اِس لیے اپنی عمر چند برس کم لکھوائی ۔جب شکیل عادل زادہ مراد آباد میں ساتویں جماعت میں زیرِتعلیم تھے، تو جون صاحب وہاں امروہہ سے تقریری مقابلے میں بہ طور مہمان آئے تھے۔ یہ 1951-52ءکی بات ہے۔ مراد آباد امروہہ سے قریباً بیس میل کے فاصلے پر ہے۔
تقریری مقابلے میں ایک مقرر نوعمر شکیل عادل زادہ کو جون صاحب نے پہلے انعام سے نوازا تھا۔بعد میں مقابلے کے مہتمم، مولوی عتیق الرحمان نے شکیل کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ عادل ادیب مرحوم کے فرزندہیں۔‘‘ عادل ادیب کا نام سن کے جون صاحب اُچھل گئے اور جوش و جذبے سے شکیل کو گلے لپٹالیا۔’’ارے، تُم عادل بھائی کے بیٹے ہو۔‘‘جون ایلیا نے مولوی عتیق الرحمان سے کہا ’’ آپ کو معلوم ہے، یہ کون ہے؟
یہ ہمارے خاندان کا فرد ہے۔‘‘ شکیل کے والد، نام وَر ادیب شاعر اورصحافی عادل ادیب ہی رئیس امروہوی کو امروہے سے مرادآباد لائے تھے اور اپنے علمی و ادبی ماہ نامے’ ’مسافر‘‘ کی ادارتی ذمّے داری سونپی تھی، یعنی رسالہ ’’مسافر‘‘ کے ذریعے رئیس امروہوی عملی طور پر صحافت سے وابستہ ہوئے تھے۔مسافر میں اُن کا نام ’’ رئیس التحریر‘‘ کے لقب کے ساتھ شایع ہوتا تھا(رسالہ مسافر کی چند جلدیں کراچی کی بیدل لائبریری میں محفوظ ہیں)۔
رئیس امروہوی نے پھر بیوی اور بچّوں سمیت مراد آبادہی کو مسکن بنالیا تھا۔ جون صاحب کے بہ قول، ہم پیشگی، دوستی کے علاوہ خاندانی قسم کا تعلق عادل ادیب اور رئیس امروہوی کے درمیان بہت گہرا تھا۔1944ءدوسری جنگ عظیم کے دوران کاغذ کی نایابی سے ’’مسافر‘‘کو بند کرنا پڑاتھا۔
جون صاحب نے آہ بھر کے کہا’’اوراسی سال کے آخرمیں عادل بھائی کا انتقال ہوگیا۔ لوگ تو بہت کچھ کہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں، ’’مسافر‘‘ کے بند ہوجانے کا صدمہ جان لیواثابت ہوا۔‘‘1951-52ءکے اُس تقریری مقابلے میں یوں جون اورشکیل صاحب کے خاندانی مراسم کا اعادہ ہوا۔ بعد میں دونوں کی قربت کے احوال سے بے شمار ادب دوست واقف ہیں۔ شکیل صاحب کہتے ہیں ’’جون صاحب اس وقت باقاعدہ جوان مرد تھے، پھر1931ء کی پیدائش کیسے تسلیم کی جائے۔‘‘
امروہہ میں بھوڑٹیلے، آگ دھونکتے سورج کی تپش میں گرمیوں کی آندھیوں اور تیز ہواؤں میں مقام بدلتے رہتے تھے۔ گلی محلوں میں ریت کے بھنور بنتے رہتے تھے اور جھکّڑ انھیں لیے پھرتے تھے۔ ان کے بارے میں معروف تھا کہ ریت اور ہوا کے بگولوں کی شکل میں چڑیلیں، ڈائنیں ہیں، جو چھوٹے بچّوں کو پکڑلیتی ہیں۔ بچّے دوپہروں میں گھروں سے باہر آوارہ گردی کرنے نہیں نکلتے تھے۔
وہاں کے مزار،ٹھنڈے سایوں والی اندھیر یا مسجد، اور عیدگاہ میدان تو گویا نیر مسعود کے کسی افسانے سے نکلے دکھائی دیتے تھے،پراسرار اور دھندلے۔’’جون کے والد علاّمہ شفیق حسن ایلیا عالم تھے، جنھیں فلکیات اور فلسفے سے خاص شغف تھا۔
حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں اُن کی تصنیف ’’حقیقت المسیح‘‘ خاصّے کی چیز تھی۔ امروہہ کے شیعہ سادات عموماً بہت پڑھے لکھے، عالم فاضل لوگ تھے۔ ہندوستان میں تین مقامات کے سادات معروف تھے، ساداتِ بارہ، ساداتِ بلگرام اور ساداتِ امروہہ۔
مصحفی جیسے استاد شاعر بھی امروہہ سے تھے۔ ایک پورا تہذیبی ماحول تھا۔‘‘ شکیل عادل زادہ یادکرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں۔علامہ شفیق حسن ایلیا کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی، رئیس امروہوی، سیّدمحمد تقی، سیّدمحمد عباس، جون ایلیا اور سیّدہ نجفی۔علوم و فنون خاندان کی گھٹی میں تھے۔
جون کے سگے چچا زاد بھائی، کمال امروہوی نے کئی باکمال فلمیں بنائیں اورکہانیاں لکھیں۔ اِن میں پکار، سکندر، محل، پاکیزہ، رضیہ سلطان کا شمار یادگار فلموں میں ہوتا ہے۔ شہر میں ایک پوری تہذیب زندہ تھی۔ ایسا تہذیبی ماحول تھا،جو صدیوں کے ٹھیراؤ اور رچاؤسے آتا ہے۔ جون کا خاندان حقیقی طور پر ایک خوش حال خانوادہ تھا، جس کی مناسب آمدنی اور حویلیاں تھیں۔
چار بیٹوں میں سے تین کی عرفیت تھی، رئیس امروہوی اچھن، سیّد محمد تقی چھبن اور محمد عباس بچھن تھے۔ سُناہے، عرفیت کی نسبت سے بچّے، بچیاں محلّے کی حویلیوں کے آنگن میں نعرے لگایا کرتے تھے۔ ’’اچھن، چھّبن، بچھن، جون ان چاروں میں اچھا کون؟‘‘ پھر کسی بچّے کی صدا بلند ہوتی ’’جون‘‘۔ جون کی کوئی عرفیت نہ تھی۔
وہ ابتدائی دنوں میں جون اصغر کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ جون بہ یک وقت شوخ اور غم گین آدمی تھے اور اپنے آپ کو ’’ابوالحزن‘‘(دکھ کا باپ)کہتے تھے۔ جون کے معنی وضع، بھیس کے ہیں۔ ایلیادانش وَروں اور فن کاروں کی اساطیری بستی تھی۔ سو ،جون ایلیا کے معنی ہوئے ،اُس بستی کے اَن مول دانش وروں کی وضع کا۔ اسے غلط طور پر مسیحی یا مغربی نام بھی سمجھاگیا۔
وہ ابتدا سے منحنی جثّے کے حامل، معدے کی خرابی میں مبتلا اور کم خوراک تھے۔ انھیں دوسروں کو ستانے میں لطف آتا تھا۔جون اوربہن بھائیوں کو صبح ناشتے میں چائے کے پیالے میں روٹی بھگو کر دی جاتی تھی۔ وہ شرارتاً بڑی باجی (ریحانہ،بنت رئیس امروہوی)کو کہتے تھے کہ اُن کی چائے میں مکھی گر گئی ہے۔
باجی ناراض ہوکر اُٹھ کر چلی جاتیں اور جون خوب لطف اٹھاتے ۔یہ بات اُن کی بھتیجی شاہانہ رئیس ایلیا نے اپنی کتاب ’’چچا جون‘‘ میں بیان کی ہے کہ جب جون پیدا ہوئے تو انھوں نے باقاعدہ قہقہہ مارا تھا۔ بعد ازاں، وہ اتنے خشک مزاج اور ضدی ہوگئے کہ اُن کی اّماں مارتی بھی تھیں، تو وہ کہتے تھے ’’میری جان نکال دو، مگر میں بات نہیں مانوں گا۔‘‘
رئیس امروہوی کی شادی ہوئی، تو جون تین برس کے تھے۔ رئیس اپنی دلہن کے ساتھ کمرے میں چلے جاتے تھے، تو وہ کمرے کے دروازے سے لگ کر بیٹھ جاتے اور دلہن کو توتلی آواز میں برا بھلا کہتے، دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہتے ’’دروازہ کھول، میرا گھی اندر رکھا ہے۔‘‘ اب جو دروازہ نہ کھلتا، تو اُسے زور زور سے پیٹنے لگ جاتے اور چیختے ’’اس عورت سے کہو، میرے بھائی کو باہر بھیجے۔‘‘ (جاری ہے)