دو ماہ قبل عمرکوٹ کے قریب، گوٹھ عبدالطیف گل میں ایک 12 سالہ لڑکے ،لیاقت کھوسو کی ہلاکت ہوئی تھی، اور اس کی لاش کو لانے والے دو افراد امانت علی اور محمد علی نےلوگوں کو بتایا تھاکہ اس لڑکے کو کتوں نے بری طرح بھنبھوڑا ہے جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی ہے۔ وہ لیاقت کھوسو کے مردہ جسم کو اس کے گاؤں قریب سورج مکھی کے کھیت میں میں چھوڑ کر چلے گئے ۔
اطلاع ملنے پر ورثاء وہاں پہنچے اور انہوں نے لڑکے کے جسم کے زخموں کا جب جائزہ لیا تو انہیں شبہ ہوا کہ ان کے بچےکو لاش لانےوالے امانت علی اور محمد علی نے بہیمانہ طریقے سے قتل کیا ہے۔
انہوں نے کنر ی تھانےمیں رپوٹ درج کرائی کہ لیاقت کھوسوکو محمد علی اور امانت علی نے اس کے پیچھےکتے چھوڑ کر مروایا ہے، پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال بھجوائی لیکن دو ماہ کے عرصے کے دوران نہ تو ان ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی بچے کی ہلاکت کے بارے میں کوئی تحقیقات کی گئی۔
چند روز قبل پوسٹ مار ٹم رپورٹ موصول ہوئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ لیاقت کھوسوکوزیادتی کے بعدتیز دھار آلے سے قتل کیا گیا ہے، رپوٹ میں مزید بتایا گیاکہ لڑکے کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں جب کہ جسم کے اندرونی حصوں، پیٹ اور جگر میں زخم لگائے گئے تھے ۔
لڑکے کے باپ اور چچا نے اس رپورٹ کے بعد کنری پولیس سے مبینہ ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی درخواست کی لیکن وہ بدستور ٹال مٹول کرتی رہی، جس پر مقتول لیاقت کے چچا غلام قادر کھوسو کی قیادت میں کھوسہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا ۔
غلام قادر کھوسو نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ لیاقت کھوسو اپنی ہلاکت سے دو روز قبل گھر سے نکلاجس کے بعد وہ واپس نہیں آیا ، اس کو ہر جگہ تلاش کیا گیا لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں چل سکاتھا۔ ہمیں اس کے اغوا کا شبہ تھا۔دو روز بعد اس کے والد کو گاؤں کے لوگوں نے اطلاع دی کہ آپ کے بچے کی لاش سورج مکھی کے کھیت میں پڑی ہے۔
ہم وہاں پہنچے اور لاش کو اسپتال پہنچایا، جس کے بعد ہم عبداللطیف گوٹھ میں امانت اور محمد علی سے ملے، جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے لیاقت کو آپ کے گاؤں کی طرف بھاگتے دیکھا تھا، لیکن وہ راستے میں ہی گرگیااور فوری طور سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، شاید اسے کتوں نے کاٹا تھا جس کے زہر کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔
غلام قادر نے کہا کہ انہیں ان دونوں افراد کے بیان پر یقین نہیں آیا اور پولیس اسٹیشن جاکر بچے کے ساتھ زیادتی اور قتل کی رپورٹ درج کرائی لیکن پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے قبل ہماری ایف آئی آر محض شبہے کی بنیاد پر درج تھی، لیکن رپورٹ ملنےکے بعد بچے کے ساتھ زیادتی اکے بعد قتل ثابت ہوچکا ہے جس کے بعد ملزمان کی گرفتاری ضروری تھی لیکن پولیس اب بھی ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور ڈی آئی جی پولیس میرپورخاص سےاپیل کی زیادتی اور قتل کے ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔