عارفہ صدیقی کو اس کی دوسری شادی مبارک ہو۔ تاہم میڈیا نے عارفہ کی شادی پر بھی وہی اعتراض اٹھایاہے جو عمرچیمہ نے عمران خان کی تیسری شادی پر کیاتھا۔ عمران خان کی شادی کے لئے کہاگیاتھاکہ عدت پوری نہیں کی گئی ان کی اہلیہ بشریٰ مانیکا عرف پنکی مطلقہ تھیں۔کسی مطلقہ یا بیوہ کے لئے شرعی طور پر لازم ہے کہ وہ اپنی اگلی ازدواجی زندگی کے آغاز کے لئے 4ماہ 10دن تک انتظار کرے۔ عارفہ نے تعبیر علی نامی ایک جواں سال گلوکار سے شادی کرلی ہے جو مبینہ طور پرمیوزک کمپوزربھی بیان کیاجاتاہے۔ عارفہ صدیقی سے میری گزشتہ ملاقات 21جنوری کی شب ہوئی تھی جب ان کے پہلے شوہر استاد نذر حسین کی وفات ہوئی تھی اور وہ شدت غم میں مبتلا تھیں۔ رات دیر گئے جب ان کی رہائش گاہ واقع کینال روڈسے لوٹ رہاتھا تو میں شدید پریشان تھا کہ وہ زندگی میں واپس کیسے آئے گی۔استاد نذر کی وفات پر میں نے ایک تعزیتی کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا’’استاد نذر حسین اور عارفہ صدیقی کی کہانی ‘‘ ۔مذکورہ کالم میں عارفہ صدیقی کے غم کا نوحہ میں نے اس قدر شدت سے کیاتھا کہ پیشہ ور رودالیوں کو بھی پیچھے چھوڑ گیاتھا۔ اِ س ہیچ میدان نے اس کالم میں لکھاتھاکہ استاد اور عارفہ کی شادی سلطنت مکدھ سے تعلق رکھنے والے عظیم تارک الدنیا گوتم سدھارتھ المعروف بدھا کے نروان جیساکوئی عمل تھا۔شادی کے وقت استاد اور عارفہ کی عمروں میں لگ بھگ 30سال کا فرق تھاجسے معروف مزاح نگار اور ماہر نفسیات ڈاکٹر محمدیونس بٹ نے Intellectual Compatibility )دانشورانہ مطابقت) سے تعبیر کیاتھا۔ عارفہ کا حالیہ شوہر اس سے 20سال چھوٹا ہے۔عارفہ کی پہلی اور پھر دوسری شادی خالصتاََ اس کے اپنے فیصلے ہیں جس کا اسے حق حاصل ہے لیکن یہ قلبی اور نفسیاتی تنوع مجھ جیسے پیشہ ور کو دعوت متخیلہ دیتاہے کہ اس انسانی کیفیت کو عنوان دے سکوں۔ یہ ماتمی کالم 3فروری کو شائع ہواتھا اور آج 30مارچ کے دن عارفہ کو تہنیتی کالم کی سلامی دے رہاہوں۔ مذکورہ کالم کو بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر شیئر کیاگیا۔وسعت اللہ خان جیسے مستند پیشہ ور نے میرے اس کالم کو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ سے شیئر کیاجبکہ برادرم وجاہت مسعود نے سوشل میڈیا پر اپنے صفحہ خاص پر اسے آویزاں کیا۔ ہڈ بیتی کے طور پر بیان کررہاہوں کہ انسان زیادہ دیر تک رنج والم کی کیفیات میں مبتلا نہیں رہ سکتا۔ لیکن عارفہ صدیقی میری توقعات سے کہیں زیادہ تیز گام واقع ہوئی ہے۔عارفہ کے ’’کیس‘‘ میں تواپنے آپ کو ڈاکٹر شاہد مسعود’’ ثانی‘‘ محسوس کررہاہوں جسے غلط رپورٹنگ پر عدالت سے معافی مانگنا پڑی ہے ۔زندگی کی طوالت اور محبت کے معاملات میںانسانی جبلت کے بارے میں فراز نے کہاتھاکہ
زیست اک آدھ محبت سے بسر ہوکیسے؟
رات لمبی ہوتو پھر ایک کہانی کم ہے
انسانی نفسیات ہے کہ وہ دیر تک غم کی شدت کو برداشت نہیں کرسکتا ۔جس طرح کروڑوں اربوں ڈگری درجہ حرارت رکھنے والے ستارے اپنی حرارت خرچ کرنے کے بعد کسی بلیک ہول میں غرق ہوجاتے ہیں اسی طرح محبت اور عشق کے طوفانوں سے اٹھنے والے جوار بھاٹے بھی ساحل کی ریت میں جذب ہوکر فنا ہوجایا کرتے ہیں۔ انسان زندگی جینے کا سہارا ڈھونڈتاہے،وہ دکھ درد سے فرار چاہتا ہے ،اکثر ایسا ہوتاہے کہ ڈپریشن ،پریشانی اور مصیبت میںپُرسا دینے والے لوگ سہارابنتے ہیں اورپھر ان سے محبت ہوجاتی ہے۔عارفہ کی دونوں شادیوں اور شوہروں کی عمروں میں بیس اور تیس سال کا فرق رہا۔ان شادیوں سے قبل عارفہ کا اپنے ایک سہیل نامی کزن سے نکاح ہواتھا رخصتی ابھی ہونا تھی کہ علیحدگی ہوگئی تھی ۔عارفہ کی بڑی بہن ناہید صدیقی جو کتھک رقاصہ ہیں انہوں نے ضیامحی الدین سے شادی کی تھی دونوں کی عمروں میں بھی اچھاخاصا فرق تھا۔اسی طرح عارفہ کی کزن گلوکارہ فریحہ پرویز نے بھی اپنے سے بڑی عمر کے شخص سے شادی کی تھی جوبعدازاں علیحدگی پر ختم ہوئی تھی۔انہی دنوں میڈیا میں عارفہ کا نام آصف رضا میر،عابدعلی ،وسیم عباس اور فردوس جمال سے جوڑا گیالیکن اس نے استاد نذر سے شادی کی اور اسے نبھایابھی ۔ایک گلوکارہ نے کہاہے کہ چھوٹی عمر میں عارفہ نے اپنے اندر نورجہاں ڈھونڈی اور اب وہ میشاشفیع بننا چاہ رہی ہیں۔ شوبز میں بڑی عمر کی عورتوں کی چھوٹی عمر کے لڑکوں سے شادیوں کو ’’چائلڈ لیبر ‘‘ سے تعبیرکیا گیا ہے۔ ثقافت سے سیاست کے میدان میں جھانکیںتو میاں نوازشریف اپنی سیاست کے عہد جوانی میں اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کاتارابنے رہے اوراب وہ ہوگو شاویز کی طرح انقلابی لیڈر بن رہے ہیں۔ نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم کہہ رہی ہیں کہ ان کے بیانیے کو مقبولیت مل رہی ہے۔ووٹ کے تقدس اور عوام کے حق حکمرانی کا نعرہ لگایاجارہاہے۔ میاں صاحب کے اس دعویٰ کے لئے کہاجارہاہے کہ یہ صرف اس جمہوریت کو مانتے ہیں جس میں پارلیمان کے سرخیل یہ خود ہوں۔ دوسری جانب کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی تکنیک کے ساتھ ساتھ باجوہ ڈاکٹرائن کی بات کی جارہی ہے۔فوج کے ترجمان نے باجوہ ڈاکٹرائن کے متعلق وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد خوشحال اور پر امن پاکستان، آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقا ہے۔وزیر اعظم عباسی اور چیف جسٹس کے مابین ملاقات ہوئی تو ’’فریادی ‘‘ کے ساتھ ’’این آراو‘‘ کی اصطلاحات سننے کو ملیں۔یہاں بھی ترجمان نے وضاحت کردی ہے کہ چیف صاحب نے وزیر اعظم کے لئے ’’فریادی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ تاہم عمران خان ،بلاول اور سراج الحق نے بالترتیب کہا ہے کہ نوازشریف این آر او کی بھیک مانگ رہے ہیں،وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات انہیں متاثر کرنے کی کوشش تھی اور احتساب رکنا نہیں چاہیے، بتایاجائے 2گھنٹے کی ملاقات میں کیاوعدے ہوئے؟؟
تاریخ بیان کرتی ہے کہ پورس جب ایک مفتوح کی حیثیت سے فاتح سکندر اعظم کے سامنے پیش ہواتب بھی اس کے تفاخرانہ انداز میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔سکندر نے پوچھا۔۔ تم سے کیاسلوک کیاجائے؟ ۔۔وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتاہے۔۔میا ں صاحب کا تفاخرانہ انداز قائم ہے انہوں نے اعتراض کیاہے کہ ’’فریادی ‘‘ کا لفظ استعمال نہ کیاجاتاتو مناسب تھا تاہم وزیر اعظم وضاحت طلب کرسکتے ہیں۔فریادی اور سائل میں کیافرق ہوتاہے ؟اس کی سادہ تشریح کی جائے تو فریادی کی پیشی شہنشاہ کے سامنے ہوتی ہے جبکہ سائل عدالت سے رجوع کرتاہے۔سائل کی بے کسی کی کیفیت ساغر صدیقی نے بیان کی تھی جسے استاد حسین بخش گلو نے اپنی آواز سے دوآتشہ کیاتھاکہ
میں نے پلکوں سے در ِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
ساغر صدیقی اور میاں صاحب ایک جیسے سائل نہیں ہیں،یہ فرق اورامتیاز دونوں کے خیالات ،نظریات اور طبقات سے نمایاں ہے۔میاں صاحب عوامی اجتماعات اور میڈیامیں اپنامقدمہ پورس کی طرح پیش کررہے ہیں جبکہ ان کے سیاسی مخالفین کاکہنا ہے کہ یہ این آراو کرکے اپنی باقی ماندہ زندگی ہنسی خوشی گزارنا چاہتے ہیں ۔ یعنی مدعاعلیہ ہو،سائل ہویافریادی یہ مقدمے کو طول دئیے بغیر فیصلہ اپنے حق میں چاہتے ہیں۔عارفہ صدیقی نے اپنے حالیہ شوہر کے ساتھ ایک رومانوی انداز کی تصویر پر لکھا ہے کہ And they lived happily ever after as in like forever نوازشریف بھی اپنی سیاسی زندگی کا اختتام ایسا ہی چاہتے ہیں جیسا رومانوی فلموں اور بادشاہوں کی کہانیوں میں ہوا کرتاہے۔اوپر والا عارفہ صدیقی اور میاں صاحب کو Happy Endingنصیب فرمائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk