• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے ملالہ سے کیوں نفرت ہے؟

میں سوشل میڈیا کے محاذ پر ڈٹ کر کھڑا ہوا اُمت مسلمہ کا وہ سپاہی ہوں جس نے عالمی استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کرنیکا تہیہ کر رکھا ہے ۔مجھے افواجِ پاکستان سے بیحد پیار ہے اور ایمان کی حد تک اس بات کا یقین ہے کہ عساکر پاکستان کے طفیل ہی یہ وطن عزیز محفوظ ومامون ہے ۔میں پاکستان میں تبدیلی کا خواہاں ہوں اورچاہتا ہوں کہ بہت جلد نیا پاکستان بنے ۔ملکی سیاست سے قطع نظر اگر عالمی افق کی بات کریں تو میں ایک عرصہ سے یہ خواب دیکھتا چلا آ رہا ہوں کہ کشمیر آزاد ہو،مسلمان بیت المقدس کو پنجہ ء یہود سے چھڑانے میں کامیاب ہوں، غزوہ ہند برپا ہو، مسلمان غلبہ حاصل کریں۔چونکہ یہ تلبیس اطلاعات کا زمانہ ہے اور صہیونی طاقتیں پروپیگنڈے کے زور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں اسلئے میں نے انکے ہی بنائے ہوئے سوشل میڈیا کے ہتھیار کو انکے خلاف استعمال کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔دیسی لبرل مجھے سازشی تھیوریوں پر یقین رکھنے والا قدامت پسند انسان سمجھتے ہیں مگر مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں ۔میں ہر چیز کو اپنی خوردبینی نظروں سے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں اور کچھ ہی دیر میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف اس نئی سازش کے تانے بانے کہاں اور کیسے بُنے گئے ۔بعض اوقات کسی واقعہ کو صہیونی سازش قرار دینے کی میرے پاس کوئی ٹھوس وجہ یا دلیل نہیں ہوتی مگر بات دل میں کھٹکتے ہی مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے چنانچہ ایسی صورت میں، میں اپنی بصیرت کے مطابق جعلی ثبوت تیار کر لیتا ہوں اور اس جعلسازی پر مجھے قطعاً کوئی ندامت نہیں ہوتی کیونکہ ثبوت بیشک جھوٹے ہوتے ہیں مگر بات تو سچی ہوتی ہے ناں ۔مثال کے طور پر ملالہ یوسفزئی پانچ برس بعد پاکستان واپس لوٹی تو اس کا پروٹو کول دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔اس بات کایقین تو مجھے پہلے سے تھا کہ ملالہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں را،این ڈی ایس ،موساد،کے جی بی ،ایم آئی سکس اور سی آئی اے کی مشترکہ ایجنٹ ہے اور اسے پاکستان مخالف اوراسلام دشمن قوتوں نے اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کیلئے میدان میں اتار اہے ۔اس کے سی آئی سے سے روابط کی باتیں پہلے سے ہو چکی تھیں ،اس بات کی تکرار بھی پہلے سے ہوتی رہی ہے کہ گل مکئی کے نام سے سامنے آنے والی ڈائری دراصل ایک برطانوی نشریاتی ادارے کا نمائندہ لکھتا رہا ،میں نے سوچا اس بار ملالہ کو بے نقاب کرنے کیلئے کچھ نئے دلائل تراشے جائیں ،چند نئی باتیں منسوب کی جائیں اور بعض نئے شواہد تیار کئے جائیں تاکہ عالمی استعمار کے مذموم مقاصد پورے نہ ہونے پائیں۔
سب سے پہلے تو میں نے ملالہ کی ایک اصلی تصویر بغیر کسی تحریف کے محض ایک جملہ لکھ کر شیئر کی اور میرے ہم مکتب دوستوں نے اسے جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیا ۔یہ تصویر 2013ء کی ہے جب ملالہ کو سخاروف ایوارڈ دیا گیاتھا ۔ڈاڑھی والا ایک شخص جس نے ملالہ کو ایوارڈ دیا اس کانام مارٹن شلز ہے اور وہ جرمن سیاستدان یورپی پارلیمنٹ کے صدر کی حیثیت سے ملالہ کو ایوارڈ دینے کے بعد گروپ فوٹو میں بھی ملالہ کے ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے ،چونکہ اس شخص کی تھوڑی بہت مشابہت سلمان رشدی سے ہے جسے مسلمان نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لہٰذا میں نے صرف یہ کیپشن لکھی ’’مغرب کی پسندیدہ ملالہ ملعون سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے ساتھ کھڑی ہے ـ‘‘جذبہ ایمانی سے سرشار سوشل میڈیائی مجاہدین یہ تصویر دیکھتے ہی ملالہ پر لعنت بھیجنے لگے ۔اسکے بعد میں نے اسلام آباد میں لی گئی وہ تازہ ترین تصویر منتخب کی جس میں ملالہ سفید رنگ کی شلوار قمیص اور دوپٹہ پہنے گاڑی سے نیچے اُتر رہی ہے ۔اس تصویر کو میں نے فوٹو شاپ میں کاپی کر کے قمیص کے پلُو میںبدنام زمانہ خفیہ شیطانی تنظیم ایلومیناتی فری میسن کی آنکھ والی علامت کا اضافہ کر دیا جس سے یہ تاثر ملے کہ ملالہ اس شیطانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے ۔اس تصویر کے بعد ملالہ پر ایسی لعن طعن ہوئی کہ میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ۔میں مانتا ہوں کہ یہ تصویر جعلی اور فوٹو شاپ ہے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے ،جب ہمیں معلوم ہے کہ ملالہ اس شیطانی تنظیم کی سرگرم رُکن ہے تو اس حقیقت کو سامنے لانے جیسے اعلیٰ و ارفعیٰ مقصد کیلئے یہ معمولی سی جعلسازی کرنے میں کیا حرج ہے ؟
میں نے گزشتہ چند روز کے دوران سر توڑ محنت کی اور خاصی تگ و تاز کے بعد ملالہ کی کتاب ’’آئی ایم ملالہ ‘‘ سے چند ایسے اقتباسات ڈھونڈنے میںبھی کامیاب ہو گیا جنہیں تناظر کے بغیر پیش کرکے یہ ثابت کیا جا سکے کہ ملالہ تو مغرب کی دلدادہ اور اسلام کی دشمن ہے ۔ دیسی لبرلز کے تو میں منہ ہی نہیں لگنا چاہتا البتہ کسی محب وطن ،تبدیلی کے خواہشمند پی ٹی آئی ٹائیگر یا کسی شدت پسندکے ذہن میں یہ سوال ہے کہ آخر میں یہ سب کیوں کر رہا ہوں ،تو میںاس سوال کا جواب دینے کو تیار ہوں۔میںیہ سب اس یقین کے ساتھ کر رہا ہوں کہ ملالہ ایک صہیونی کردار ہے جسے عالم اسلام پر باالعموم اور پاکستان پر باالخصوص مسلط کرنے کیلئے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔اس کی پیدائش سے لیکر اب تک کے تمام واقعات منصوبہ بندی سے انجام پائے ہیں ۔اگرچہ طالبان نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے ملالہ پر حملہ کیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ اعتراف کسی جبر کا نتیجہ ہے اور ملالہ پر حملہ محض ڈرامہ تھا ۔ملالہ کو گولی نہیں لگی ۔اس وقت سوات کی مقامی انتظامیہ اور عسکری و سول قیادت کی ملی بھگت کے نتیجے میں ملالہ کو برطانیہ بھیج دیا گیا ۔وہاں ایم آئی سکس ،سی آئی اے اور موساد نے ملکر علاج کے نام پر ملالہ کی سرجری کی اور اسے منہ ٹیڑھا کرکے بولنے کی ٹریننگ دی تاکہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے ۔
مجھے توپہلے بھی ملالہ کے صہیونی ایجنٹ ہونے میں کوئی شک نہیں تھا لیکن جو لوگ اسے شک کا فائدہ دے رہے تھے ،ملالہ نے پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرکے انہیں بھی یقین دلا دیا ہے کہ دراصل وہ کس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں ۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا ،میں تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ میری ہیرو اور اس قوم کی بیٹی ملالہ نہیں بلکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جس نے غلبہ ء اسلام کیلئے القاعدہ سے ملکر جدوجہد کی اور طویل عرصہ سے امریکہ میں پابند سلاسل ہے ۔جب ہم ملالہ سے نفرت کرتے ہیں تو دیسی لبرل پھبتی کستے ہیں کہ یہ روشنی سے ڈرتے ہیں ۔آج میں برملا کہتا ہوں ،ہاں ہم ملالہ سے نفرت کرتے ہیں اور اس شیطانی روشنی سے ڈرتے ہیں جو ایلومیناتی سے پھوٹتی ہے۔ ہم ملالہ سے اس لئے بھی نفرت کرتے ہیں کہ سالہا سال سے چپ چاپ امورِ خانہ داری میں مصروف لڑکیاں بھی ملالہ سے شہہ پا کر گستاخانہ ،ملحدانہ اورباغیانہ باتیں کرنے لگی ہیں۔ہم ملالہ سے کیوں نفرت نہ کریں ،ہمیں توگھر سے باہر جاتے ہوئے لڑکیوں کا مردوں کے آگے چلنا ناگوار گزرتا ہے اور اس نے بیس سال کی عمر میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین