اسلام آباد(محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) کشمیری عوام سے یک جہتی کا دن جمعہ کو پورے پاکستان میں بڑے جوش و خروش اور ولولے کےساتھ منایا گیا ہر سال 5؍ فروری کو یہ دن منانے کے محرک جماعت اسلامی کے مرحوم و مغفورسربراہ قاضی حسین احمد تھے جن کی تجویز پر یہ دن 1990ء سے باقاعدگی کے ساتھ منایا جاتاہے وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دونوں پہلے ادوار حکومت میں بھی اس دن کو پورے اہتمام کےساتھ منایا وہ جمعۃ المبارک کی صبح آزاد کشمیر کے دارالحکومت پہنچے جہاں ان کا والہانہ خیرمقدم کیا گیا انہوں نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور آزاد کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حددرجہ متوازن تقریر کی جس میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ جہاں جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے یک جہتی کا بھرپوراعادہ کیا وہاں انہوں نے بھارتی قیادت کو شاخ زیتون پیش کرتے ہوئے یاد دلایا کہ جنوبی ایشیا پاکستان اور بھارت میں امن و ترقی کا خواب تنازعہ کشمیر کو حل کیے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا یہی نہیں وہ اقوام متحدہ سے بھی مخاطب ہوئے اور اس کے دُہرے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے اس امرپر تاسف کاظاہر کیا کہ بعض قراردادیں چشم زدن میں عملدرآمد کے مراحل طے کرلیتی ہیں جبکہ کچھ عالمی ادا رے کے محافظ خانے میں بوسیدگی کا شکار ہوتی رہتی ہیں اس میں ان کے مخاطب دنیا بھرکے عوام تھے۔ وزیراعظم نے قومی سیاست کے بعض پہلوئوںپر بھی تبصرہ آرائی اور ملکی معاملات پر بے تکلفانہ رائے زندی کی تاہم ان کی گفتگو کا محوری نقطہ تنازعہ کشمیر ہی رہا۔ ان کے لب و لہجے میں مدبرانہ ٹھہرائو تھا جس میں لفظوں کا چنائو بڑی احتیاط کے ساتھ کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف بہت تیزی سے تحریر شدہ مسودے کے بندھن سے آزاد ہورہے ہیں کشمیر کی اسمبلی میں جس کی جین پر کلمہ طیبہ تحریر ہے وزیراعظم کے جلو میں جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی یہاں پہنچے وہ پارلیمان کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں اور بھرپور توجہ سے وزیراعظم پاکستان کے خطاب کو سن رہےتھے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ کشمیر کو کبھی کوئی پاکستانی فراموش نہیں کرسکتا ایک حصے میں بے چینی اور تکلیف ہوتو باقی خطہ کیونکر پرسکون رہ سکتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ بھارتی قیادت سے اپنی ملاقاتوںمیں انہوںنے مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیاہے اور یقین ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان اوربھارت کے مذاکرات عمل میں پیش رفت ہوگی وزیراعظم پاکستان نے جب یہ کہا کہ تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کو پوری دنیا کےسامنے جوابدہ ہونا چاہیےکہ وہ اپنی قراردادوںپر عملدرآمد کرانے میںکیوںناکام رہی آزادی جنوبی ایشیا کے تمام مکینوں کا حق ہے مسئلہ کشمیر پاکستان اوربھارت کی قیادتوں کا امتحان ہے تو اس پیغام نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے دارالحکومتوں پر دستک دی ہے۔ انہوں نے بھارت اورپاکستان کی حکومتوں کو اپنے عوام کی طرف سے ملے مینڈیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہے کہ وہ ورثے میں ملے تنازعات کا حل ڈھونڈتی ہیں یا پھر وہ اس بوجھ کو اگلی نسلوں اور حکومتوں کومنتقل کردیتی ہیں بہتر ہوگا کہ انہیں حل کرکے خطےکےلیے ترقی اورامن کی راہ کھولی جائے۔اپنے حقیقت پسندانہ تجزیئے میں ان کا کہنا تھا کہ دو ممالک میں اختلاف کا جنم لینا کوئی انہونی بات نہیں انہونی یہ ہے کہ اختلاف چھ سات دھائیوں کے بعد بھی برقرار ہے وزیراعظم جس پیرائے میں بین المملکتی تعلقات کے ضمن میں صلح کل کا پیغام دے رہے تھے اس طرح انہوں نے قومی امور اور پھر اس سے بھی ایک سیڑھی نیچے آزاد کشمیر کے معاملات میں بھی باہمی رواداری کا کھل کر درس دیا حالانکہ ان دنوں آزاد کشمیر کو انتخابی بخاراپنی لپیٹ میں لے رہاہےاورخطےکے وزیر اعظم نےپے درپے احمقانہ اور اشتعال انگیز بیانات جاری کیے ہیں ان بیانات میں وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر ، اطلاعات و نشریات کے وزیر سینیٹر پرویز رشید اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر سید آصف سعید کرمانی کو ہدف بنایا گیا تھا کہ انہیں برے برے القاب یاد کرکے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ انہیں اس انداز میں موت کے گھاٹ اتاردیں کہ کوئی ان کی لاش اٹھانے والا نہ ہو۔ آج وہ ان تینوں کا خیرمقدم کرنے اور ان کی آئو بھگت کےلیے مجبور تھے اسی دوران انہیں وزیراعظم نواز شریف سے بڑی لجاجت کےساتھ معروضات کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ انہیں کچھ نفسیاتی عوارض لاحق ہیں جو ان سے غلط سلط باتیں نکلوادیتے ہیں۔ وزیراعظم نے یہاں پی آئی اے کی ہڑتال پربھی تبصرہ کیا اور حتمی طورپر واضح کردیا کہ غیر قانونی اور بلاجوازا ہڑتال کرنے والوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے کچھ سیاسی عناصر پی آئی اے اور ملک کی ترقی نہیں چاہتے وزیراعظم نو از شریف نے تحریک انصاف اور عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ استعفوں کے باوجود دھرنے والوں کی پارلیمان میں نشستوں سے انہیں محروم نہیں کیا اس پر مولانا فضل الرحمن نے خندہ استہزا سے اپنا ردعمل ظاہر کیا اور زیر لب مختصر تبصرہ آرائی بھی کی۔