ڈاکٹر ایّوب عباسی
جالب کے والد، صوفی عنایت اللہ لکھتے ہیں کہ’’بعض لوگ بہ ظاہر میری اور میرے بیٹے کی بھلائی کی باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ اگر یہ حکومتوں سے مل کر رہتا، تو بڑے اعزاز و اکرام سے نواز جاتا، بیٹے کو سمجھائو کہ یہ حکومتوں کے خلاف نہ بولا کرے،‘‘ مگر مَیں اُن کے جواب میں یہی کہوں گا کہ میرے حبیب کو کسی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا۔‘‘ جالب اس لحاظ سے بھی خوش نصیب تھے کہ اُن کی شہرت کے مظاہر اُن کے والدین نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس سے بڑھ کر کون بخت آور ہوسکتا ہے کہ جس کے والدین خود اس کی سچائی کی گواہی دیں۔ جالب نے محض قلم و قرطاس کے ذریعے ہی اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا، بلکہ وہ غریب عوام کی خاطر عملی طور پر بھی میدانِ کارزار میں اترے۔
اُنہوں نے حکومتی اہل کاروں کے ظلم و ستم سہے اور پابندِ سلاسل بھی رہے۔ جالب کی والدہ بھی ایک بہادر خاتون تھیں۔ ایک بار بیٹے سے ملنے عدالت گئیں اور پولیس سے بیٹے کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں کھولنے کی درخواست کی، جسے اُنہوں نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ’’ یہ بھاگ جائے گا۔‘‘ اس پر بوڑھی ماں نے جواب دیا ’’ یہ شیر ہے، کوئی گیدڑ لومڑ نہیں، جو بھاگ جائے۔‘‘
حبیب جالب نے دینی اور پرائمری تعلیم، ممتاز عالمِ دین، عیسیٰ مہر اور دوسرے اساتذہ سے حاصل کی، جب کہ گائوں کے اسکول سے ساتویں جماعت پاس کی۔ اسی جماعت کے امتحانی پرچے کے دَوران ہی پہلی بار باقاعدہ کوئی شعرکہا۔ اُردو کے پرچے میں لفظ’’ سحر‘‘ کو جملے میں استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جس کے جواب میں اُنہوں نے پورا شعر کہہ دیا؎ وعدہ کیا تھا آئیں گے ا مشب ضرور وہ… وعدہ شکن کو دیکھتے وقتِ سحر ہوا۔
یہ1944ء کی بات ہے، جب جالب اپنے بڑے بھائی، مبارک مشتاق کے پاس دہلی میں سکونت پزیر تھے اور مشاعروں میں بھی جانے لگے تھے۔ اُن دنوں تحریکِ پاکستان بھی اپنے شباب پر تھی، چناں چہ اُس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ وہ دہلی، بالخصوص اپنے رہائشی علاقے، تیمار پور کے جلسوں میں مولانا ظفر علی خان اور علّامہ اقبال کا کلام اپنی پُرنم آواز میں پڑھا کرتے تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھائی کے ہم راہ کراچی آگئے اور بندرگاہ پر محنت مزدوری شروع کردی۔ نیز، اگلے ہی برس مشاعروں میں اپنا کلام نذرِ سامعین کرنا شروع کردیا۔1949 ء میں منقطع تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، جیکب لائن میں میٹرک میں داخلہ لے لیا، جہاں نصر اللہ خان اور اے ٹی چوہدری جیسی شخصیات کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔
اسی دَوران جنگ اور ڈان میں بہ طورِ پروف ریڈر ملازمت بھی اختیار کرلی۔ 1951 ء میں حیدر بخش جتوئی کی’’ ہاری تحریک‘‘ میں شامل ہوئے اور1954 ء میں ہاری تحریک کے ایک احتجاجی جلسے کے دَوران گرفتار ہوگئے، جو اُن کی پہلی گرفتاری تھی۔ جالب صاحب1956 ء میں دو طرح کے بندھنوں میں بندھ گئے اور یہ ایسے مضبوط تھے کہ جنہیں موت کا فرشتہ ہی ختم کرسکا۔ ایک بندھن تو اُن کا اپنی فرسٹ کزن، ممتاز بیگم سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا تھا، تو دوسرا نیشنل عوامی پارٹی کی رکنیت تھی۔ 1957ء میں اُن کی پہلی کتاب’’ بر گ آوارہ‘‘ منظرِ عام پر آئی، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ 1958 ءمیں جالب اہلِ خانہ کے ہم راہ کراچی سے لاہو ر منتقل ہوگئے۔
ایّوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا، تو حبیب جالبؔ نے اُس کی زبردست مخالفت کی اور اُس موقعے پر جو لکھا، وہ عوام کے دِلوں کی دھڑکن بن گیا۔ چناں چہ اُن کے بیرونِ مُلک سفر پر پابندی عاید کر دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایّوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، تو 5افراد کی ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے ایک اہم رُکن، حبیب جالب بھی تھے۔ آمر نے باز نہ آنے پر اُنھیں اقدامِ قتل کے جھوٹے کیس میں گرفتار کروا کے سات سال کے لیے جیل بھجوادیا، لیکن جالبؔ نے ہمّت نہیں ہاری۔
جب درباری قصیدہ خوانوں نے ایّوب خان کی تعریف و توصیف کا سلسلہ شروع کیا، تو جالبؔ پکار اٹھے؎ ذہانت رو رہی ہے منہ چُھپائے…جہالت قہقہے برسا رہی ہے…ادب پر افسروں کا ہے تسلّط…حکومت شاعری فرما رہی ہے۔ 1966 ء میں اُن کی دوسری کتاب’’ سرِ مقتل‘‘ اشاعت پزیر ہوئی، جس نے پہلی کتاب سے بھی زیادہ فروخت اور شہرت کے ریکارڈ قائم کیے۔ فروری1967 ء میں حمید نظامی کی برسی کے موقعے پر جلسے میں، جس کی صدارت، ذوالفقار علی بھٹّو کر رہے تھے، حبیب جالبؔ نے پھر ڈکٹیٹر کے خلاف نظم پڑھ دی اور یوں پسِ زنداں جانا پڑگیا۔
ایّوب آمریت ختم ہوئی، تو جنرل یحییٰ خان قوم پر مسلّط ہوگئے۔ اُنہی دنوں کراچی کے الیکٹر ہال میں طلبہ کا جلسہ تھا۔ جالبؔ صاحب مائک پر آئے اور کہا ’’حضرات ایّوب خان چلا گیا، اب اُس کے خلاف کچھ پڑھنا بزدلی سمجھتا ہوں، آج نئے فوجی حکم ران، جنرل یحییٰ خان کے خلاف تازہ اشعار سُنائوں گا۔ مُلک میں اس وقت بڑا سخت مارشل لاء تھا، یوں بھی ایّوب خان کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد سیاسی پارٹیاں تھک سی گئی تھیں، لہٰذا ہال میں سنّاٹا چھا گیا اور پھر جالبؔ نے اپنی وہ غزل سُنائی ،جس نے بڑی شہرت پائی۔؎ تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا…اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا۔ جالب نے1970 ء میں لاہور سے این اے پی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑا، لیکن شکست کا سامنا کر نا پڑا، تاہم وہ دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ اپنے مقصد کے حصول میں اور زیادہ مستحکم ہو گئے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اقتدار ذوالفقار بھٹّو کے پاس آگیا، جو جالبؔ سے اور جالبؔ اُن سے حددرجہ متاثر تھے، مگر حسبِ معمول اُن کا وقت کے اُس حکم ران سے بھی جھگڑا شروع ہو گیا۔ سو، جالب پر کیسز بنائے جانے لگے۔ اسی سلسلے میں اُن پر’’ حیدرآباد سازش کیس‘‘ بھی بنایا گیا اور اُنہیں گھر سے عین اُس روز گرفتار کیا گیا، جب اُن کے معصوم بیٹے، طاہر عبّاس کا سوئم تھا۔ دو سال بعد،1978 ء میں ضیاء الحق کے دَور میں رہائی ملی، لیکن جالب کو ضیاء کا حکومت پر قبضہ بھی پسند نہیں آیا، چناں چہ اُن کی ضیاء الحق سے بھی نہ بن سکی ۔
25 دسمبر 1980 ء کو اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت اسلام آباد پریس کلب میں منعقدہ تقریب میں جالبؔ نے شہرہ آفاق نظم،؎ ’’ ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا…پتھر کو گہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما کیا لکھنا،‘‘ پڑھی، جس پر پریس کلب سے سیدھے میاں والی جیل بھجوا دیے گئے۔ بے نظیر بھٹّو وزیرِ اعظم بنیں، تو حبیب جالبؔ کو نہ صرف رہائی ملی، بلکہ اُن کا ضبط شدہ پاسپورٹ بھی بحال ہو گیا۔ اُنھوں نے ہی ضیاء دَور میں محترمہ بے نظیر بھٹّو کے حوالے سے یہ مشہور نظم،؎ ’’ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتّی لڑکی سے…پھیلے ہیں ہمّت کے اجالے، ایک نہتّی لڑکی سے،‘‘ کہی تھی۔
اس عظیم انقلابی شاعر کو اگست1992 ء میں بیماری نے آلیا۔ وہ کچھ عرصہ لندن اور مقامی اسپتالوں میں زیرِ علاج رہے، مگر مرض بڑھتا ہی رہا اور آخرکار، 13 مارچ 1993 ء کو 65 برس کی عُمر میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔