یہ 2002ء میں رمضان کا مبارک مہینہ ہے۔ آئی ایس آئی کی طرف سے افطار کا اہتمام ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن موجود ہیں۔ حضرت شاہ احمد نورانی۔ قاضی حسین احمد جیسی جید ہستیاں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احسان الحق نائب سربراہ میجر جنرل احتشام ضمیر۔ کوشش یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار مولانا فضل الرحمٰن دستبردار ہوجائیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی حمایت بھی متوقع ہے۔ ان کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن فوجی حکمراں ان کو وزارتِ عظمیٰ دینا نہیں چاہتے۔ کئی گھنٹےسے تبادلۂ خیال چل رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے سامنے ایک فائل پڑی ہے جس کا گتہ ہوا سے ہل رہا ہے مگر مولانا اس اکیلی فائل کی طرف توجہ نہیں دے رہے ۔ چائے کافی کا دور چل رہا ہے۔ سب حضرات چائے پینے کے لئے اُٹھتے ہیں تو مولانا غیر ارادی طور پر فائل کا پہلا ورق اُلٹتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کسی نئی سیاسی پارٹی کی تنظیم کی فائل ہے۔ جس پر لکھا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین پیٹریاٹ PPPPP۔ انہیں حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ فہرست میں 20 سے زیادہ نام نظر آرہے ہیں جن میں رائو سکندر اقبال۔ فیصل صالح حیات وغیرہ نمایاں ہیں۔ پارٹی کا نیا آئین۔ نئے نکات بھی فائل کی زینت ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن اور ایم ایم اے کی طرف سے دستبرداری کا اعلان نہیں ہوتا ۔ یہ میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوتی ہے۔ مولانا کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس فائل کے ذریعے انہیں یہ باور کروایا گیا ہے کہ آپ کو اگر پی پی پی پی کی حمایت کا زعم ہے تو وہ پارٹی تو ٹوٹ رہی ہے۔ مولانا اگلے روز پی پی پی کے سرکردہ رہنمائوں کو اس فائل کے حوالے سے بتاتے ہیں لیکن وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔حکومتی صفوں کو تشویش ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں ہے۔ اپوزیشن متحد ہو کر مولانا فضل الرحمٰن کو وزیراعظم بنوا سکتی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے سیکورٹی ایڈوائزر اور معتمد خاص طارق عزیز، مولانا فضل الرحمٰن سے ملتے ہیں۔ انہیں کہتے ہیں کہ جنرل صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ایوان صدر میں جنرل پرویز مشرف دو گھنٹے تک مولانا کو اپنا نام واپس لینے پر آمادہ کرنے کے لئے قومی اور بین الاقوامی اسباب بیان کرتے ہیں کہ آپ کو امریکہ قبول نہیں کرے گا۔ مغربی دنیا نہیں تسلیم کرے گی۔ نائن الیون کے واقعات ہوئے ہیں۔ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے۔ ہماری بہت امداد کررہا ہے۔ اس لئے پاکستان کے مفاد کا تقاضا ہے کہ آپ اپنا نام واپس لے لیں۔ یہ میٹنگ بھی بے نتیجہ رہتی ہے۔ اگلے دن الیکشن ہوتا ہے تو حکومت اپنے اُمیدوار میر ظفراللہ جمالی کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم منتخب کروا پاتی ہے حالانکہ اس میں پی پی پی کے 10 منحرفین بھی شامل ہوچکے ہیں۔
یہ منظر نامہ تو مجھے اس ہفتے مولانا فضل الرحمٰن سے غیر رسمی گفتگو کے دوران جاننے کو ملتا ہے۔ میں نے ہی ان سے فون پر رابطہ کیا ہے۔ کیونکہ صدر جنرل پرویز مشرف سے جنگ گروپ کو ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران آف دی ریکارڈ گفتگو میں ہم نے ان سے کہا کہ آپ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ اصولوں کی۔ شفافیت کی۔ لیکن یہ نیب کو مطلوب پیٹریاٹ کے لوگوں کو وزارتیں دے کر آپ نے اپنی ساکھ خراب کی ہے۔ صدر مشرف قدرے جزبز ہوتے ہیں۔ لیکن فوراً ہی کہتے ہیں کہ اگر ہم ان کو ساتھ نہیں ملاتے تو مولانا فضل الرحمٰن آپ کے وزیراعظم ہوجاتے۔ سوچئے ملک کا کیا امیج بنتا۔ پیٹریاٹ والے سارے منتخب ارکان تھے۔ آخر آپ کے عوام کرپٹ لوگوں کو منتخب کیوں کرتے ہیں۔
میرے لئے یہ بات ہمیشہ کچھ حیرت پر مبنی رہی کہ نائن الیون کے فوراً بعد پاکستان کے عوام کی اکثریت کے ووٹوں سے متحدہ مجلس عمل کے اُمیدوار۔ سر تاپا شریعت کے پاسدار وزیراعظم بن سکتے تھے۔ انہیں روکنے کیلئے پی پی پی میں نقب لگائی گئی۔ اس کا مطلب ہے پاکستان کی اکثریت اس وقت بھی اسلامی نظام کی خواہاں تھی۔
آج کل بھی اگر عوام کی اکثریت کی رائے جانی جائے تو وہ اس نظام کو ہی مسائل کا حل خیال کرتی ہے۔ یہ بات بظاہر منطقی بھی لگتی ہے کیونکہ صدارتی اور پارلیمانی نظام ناکام ہوچکے ہیں۔ فوجی اور سیاسی حکمراں دونوں ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال سکے۔ لوگوں کو بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ بے روزگاری ہے۔ بیماریاں ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں کشمکش ہے۔ صوبوں اور ضلعوں میں لڑائی جاری رہتی ہے۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ سرمایہ باہر جارہا ہے۔ عام آدمی کی عزت نہیں ہے۔ ان سب اسباب کی بنا پر لوگ سمجھتے ہیں اسلامی نظام ہی پاکستان کو مستحکم کرسکتا ہے۔ میں یہ بھی سوچتا رہتا ہوں کہ اکثریت کی آرزو تو یہ ہے لیکن کیا مذہبی جماعتیں اس ذمّہ داری کی اہلیت رکھتی ہیں۔ کیا ان کے پاس وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزیر خارجہ ہوں گے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہو گا۔ 1973ء کے آئین میں طے کیا گیا کہ 10 سال کے اندر اندر یعنی 1983ء تک تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق کردیئے جائیں گے لیکن اس سے پہلے جنرل ضیا کا مارشل لا آگیا۔ اسلامائزیشن کے نام پر انہوں نے بہت کچھ کیا مگر پاکستان کی اکثریت جو اسلامی نظام چاہتی تھی باقاعدہ لوگوں کی رائے سے منتخب شورائی نظام، وہ نہیں لایا جاسکا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے گفتگو میں ایک اور انکشاف کیا کہ اس واقعے کے ایک سال بعد دبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے کھانے پر بلایا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو آپ کو ایک خط بھیجا تھا جس میں شرائط درج تھیں جن کو تسلیم کئےجانے پر پی پی پی نے آپ کو ووٹ دینا تھا۔ مولانا نے بی بی سے کہا کہ انہیں تو کوئی خط آج تک نہیں ملا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی سیکریٹری ناہید خان کی سرزنش کی اور کہا کہ وہ خط مولانا تک کیوں نہیں پہنچا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ جو شرائط محترمہ بتا رہی تھیں وہ تو دراصل ہمارے ہی مطالبات تھے۔ ہم تو ان سے متفق تھے۔ ہمارا ذہن بھی یہی تھا ۔ یہ خط مولانا تک نہ پہنچنے دینے کا مطلب بھی مولانا کو وزیراعظم بننے سے روکنا تھا۔
مولانا بتاتے ہیں کہ اس ووٹنگ میں دلچسپ صورتِ حال یہ ہوئی کہ جو چار پارٹیاں ایک ایک ووٹ والی تھیں اعجاز الحق،مولانا اعظم طارق، علامہ طاہر القادری، عمران خان، ان میں سے عمران خان نے مولانا فضل الرحمٰن کو ووٹ دیا۔ اعظم طارق اور طاہر القادری نے حکومتی امیدوار کو۔ اعجاز الحق نے آخر میں حکومتی امیدوار کو ووٹ دیا۔ کیونکہ مولانا کو ووٹ دینے سے پارلیمنٹ لٹک جاتی۔ووٹ برابر ہوجاتے۔ اچکزئی نے کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ مولانا نے اگلے روز ووٹنگ کے بعد تقریر کرتے ہوئے پیٹر یاٹ پر طنز کیاکہ یہ ارکان کہہ رے ہیں کہ ان کا یہ فیصلہ ضمیر کی آواز پر ہے۔ مولانا نے کہا کہ یہ ضمیر کی آواز نہیں یہ جنرل ضمیر کی آواز ہے۔ جمالی صاحب کو وزیراعظم بنوانے والا ووٹ اعجاز الحق کا تھا۔
اب اگر عوام کی اکثریت اسلامی نظام کی بات کرتی ہے تو یہ ہماری قومی سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ ان میں سے کسی نے سنجیدگی سے اپنی مذہبی پالیسی نہیں بنائی۔ کسی حکومت نے کھل کر کبھی مذہبی پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ مذہبی جماعتوں کی طرف سے بھی کبھی اسلامی نظام سے متعلقہ سوالات کا واضح جواب نہیں دیا گیا کہ اسلامی ریاست اگر کوئی ہے تو اس کی اقتصادیات کیا ہوں گی۔ تعلیمی پالیسی کیا ہوگی۔ جدید علوم سے ہم آہنگی کیسے ہوگی۔ قانونی ڈھانچہ کیا ہوگا۔ جاگیرداری سرمایہ داری۔ سرداری کا تصور کیا ہوگا۔ غیر مسلم ممالک سے روابط کن بنیادوں پر استوار ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلام کی تفہیم نئے سرے سے ہوئی ہے۔ قرآن پاک کے نسخے بھی بڑی تعداد میں چھپے اور فروخت ہوئے ہیں۔ امریکہ میں ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک کے سنہری اسلامی دور پر بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ تسلیم کیا ہے کہ یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد مسلمانوں کی یہ علمی خدمات ہی ہیں کہ انہوں نے یونانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ یہ سرمایہ عربی سے یورپ والوں نے انگریزی میں منتقل کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے ان سوالات کے جواب میں کہا کہ یہ مفروضے ہیں۔ معیشت پر بہت کام ہوچکا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے قانون سازی میں بڑی تفصیلی دستاویزات تیار کی ہیں۔ اپنے مسلکی اختلافات کے باوجود علمااجتماعی زندگی سے متعلقہ قانون سازی پر متفق ہیں۔ ہم پارلیمانی نظام کو ہی آگے لے کر چلیں گے۔ عوام میں جمہوریت بیزاری ہے۔ لیکن وہ حکمرانوں کے رویوں اور پالیسیوں سے ہے۔ خود جمہوریت سے نہیں۔
میری اب بھی مذہبی جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے عوام کو محض بیوقوف بنانے اور نعرے لگوانے کے لئے اسلامی نظام کی بات نہ کریں۔ بلکہ تحریری طور پر ایک مبسوط پروگرام سامنے لے کر آئیںکہ آج اکیسویں صدی میں ایک اسلامی ریاست کے خدو خال کیا ہوسکتے ہیں۔ اس کی تعلیمی،سائنسی، داخلہ خارجہ، مذہبی پالیسی کیا ہوگی۔ مذہب کا اطلاق ہوگا مذہب کا استحصال نہیں اور دہشت گردی،انتہا پسندی کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)