آخری کالم لکھے ہمیں تقریباً دو ہفتے ہو چکے ہیں اور ابھی ہمارا ارادہ کچھ دن مزید آرام فرمانے کا تھا کہ ایک دلخراش واقعہ ایسا رونما ہوا کہ ہمیں لکھنے کا سلسلہ پھر سے بحال کرنے پڑ گیا۔ ہمارے قارئین کو یاد ہو گا کہ آج سے چند ہفتے قبل ہم نے گورنمنٹ کالج کے حوالے سے اپنے چند دوستوں کا تذکرہ کیا تھا۔ ان میں ہمارے وہ بزرگ دوست بھی تھے کہ جو کسی زمانے میں ہمارے چچا اور تایا کے کلاس فیلو رہ چکے تھے مگر شومئی قسمت اور شعبہ امتحانات کی بدسلوکی کے سبب اب ہمارے ہم جماعت ہو چکے تھے حالانکہ ہماری پوزیشن اگر ان کے پوتوں والی نہیں تو کم از کم ان کے بھتیجوں والی ضرور تھی۔
ہمارے یہ محترم دوست راؤ تحسین علی خان کے نام سے جانے جاتے ہیں اور آج کل وزارت اطلاعات میں نہایت سینئر افسر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ان کی پیرانہ سالی اور بزرگی کے بارے ہماری باتوں کو مبالغہ سمجھیں مگر ہم حلفاً کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ سیاستدان راؤ سکندر علی خان مرحوم موصوف کے بھتیجے تھے!
راؤ تحسین راوین ہونے کے ساتھ ساتھ اوکاڑوی بھی ہیں جس کے سبب ہماری دوستی دو آتشہ ہو چکی ہے تاہم ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہمارے کالم اور ٹی وی شو کا موضوع بننے والی سماجی برائیوں میں زیادہ تر ایسی ہیں کہ جن کی نشاندہی راؤ# صاحب نے ہی کر رکھی ہے۔ کرپشن، لاقانونیت اور خصوصاً قبضہ مافیا سے متعلق ہم تک پہنچنے والی زیادہ تر خبریں اور اعدادوشمار دراصل موصوف ہی کی طرف سے آیا کرتے ہیں جسے آپ ایک خالص رفاہی کام سمجھ کر کر سرانجام دیتے ہیں۔ راؤ صاحب کا تعلق چونکہ اوکاڑہ کے ایک متمول زمیندار گھرانے سے ہے اس لئے وراثتی زمین میں سے آپ کو بھی اچھا خاصا حصہ ملا مگر سرکاری مصروفیات کی بناء پر آپ نہ تو خود کاشت کر سکے اور نہ ہی رقبہ ٹھیکے پر دینا مناسب سمجھا۔ واحد حل یہ تھا کہ زمینی بیچ دی جائے چنانچہ آپ نے اللہ کا نام لیا اور زمین کا وہ حصہ جو دیپالپور شہر کی حدود کے اندر آتا ہے، بیچ ڈالا۔
گزشتہ روز ہم نے اخبار میں خبر پڑھی کہ موصوف کو واشنگٹن میں پریس منسٹر تعینات کیا جا رہا ہے۔ اپنی سفیر شیری رحمن کی زبانی معلوم ہوا کہ راؤ# صاحب بہت جلد واشنگٹن تشریف لے جانے والے ہیں۔ ہم انہیں الوداعی فون کرنے کا مصمم ارادہ کئے کل رات سٹوڈیو سے واپس آئے تو راؤ صاحب کو اپنی کاؤچ پر نیم دراز پایا۔ اڑی رنگت اور الجھے بال دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ آپ ابھی بل فائٹنگ کر کے لوٹے ہیں اور فائٹنگ بھی وہ کہ جس میں بل نے انہیں اٹھا اٹھا کر زمین پر کم و بیش ستر مرتبہ پٹخا ہو۔ عرض کیا کہ ان حالوں میں آپ کو کس نے پہنچایا؟ ”میری زمین پر قبضہ ہو گیا ہے۔“ راؤ# صاحب نے نہایت غمگین لہجے میں کہا۔
ہمیں یقین ہی نہ آیا کہ اتنے سینئر اعلیٰ افسر کے ساتھ بھی یہ چھچھوری حرکت ہو سکتی ہے۔ ہم نے سوچا کہ اگر افسروں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے تو بیچارے عوام کا بھلا کیا حال ہو گا۔ تھوڑی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ بیس عدد مسلح افراد نے ان کی پندرہ ایکڑ اراضی کو جس کی مالیت کم از کم سات کروڑ ہے پر قبضہ کر رکھا ہے اور پولیس کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے متعلقہ افسران ان کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ حجرہ شاہ مقیم کی ایک اہم سیاسی شخصیت بھی کافی حد تک قبضہ گروپ کی پشت پناہی کر رہی ہے تاہم ہماری رائے کچھ مختلف ہے کہ ہم مذکورہ سیاسی شخصیت کو جانتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ موصوف نے اس معاملے میں کچھ طرف داری کی بھی ہے تو اس کی نوعیت سیاسی ہو گی مالی ہرگز نہیں البتہ ایک پولیس افسر پر پانچ لاکھ روپیہ لینے اور قبضہ گروپ کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام ہے جبکہ مزید بڑے افسر کے معاملات قدرے مشکوک ہیں مگر جب تک ہماری تحقیق مکمل نہیں ہو جاتی ہم وثوق سے اس کا نام نہیں لے سکتے۔ اب آخر میں ہمارا سوال وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ہے کہ کیا یہ ہے وہ گورننس کہ جس کے بل پر آپ چند ماہ میں الیکشن لڑنے کا نیک ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ تو ایک اعلیٰ افسر کا حال ہے، غریب اور بے نوا عوام بیچارے کیا کرتے ہوں گے۔ ہمیں ایک ایک دن میں دس دس فون ایسے ضرور آتے ہیں کہ جن میں غریب اور بے سہارا بوڑھے، بیوگان اور یتیم کُرلا کُرلا کر اپنی داستان غمِ بیان کرتے ہیں کہ کس کس طرح با اثر بدمعاشوں نے پولیس کی زرخرید مدد سے ہماری دکان، مکان پلاٹ یا کھلیان پر قبضہ کر رکھا ہے تاہم اگر وزیر اعلیٰ ہی بے بس ہے تو ہم بھلا کیا بیچتے ہیں اس کے آگے ہیں جی؟ راؤ تحسین صاحب، شور تو ہم آپ کے لئے بھی بہت مچائیں گے مگر ہمارا مشورہ ہے کہ ذہنی طور پر آپ بھی ہر قسم کا صدمہ جھیلنے کے لئے تیار ہی رہیں تو بہتر ہے۔