• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’اللہ دیکھ رہا ہے ‘‘

عبد اللہ بن مسعود

’’تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنے پردین و دنیا کی کامیابی اور اجرِ عظیم کی بشارت سنائی گئی ہے‘‘

ایئرپورٹ ہوں یا پولیس اسٹیشن، اسمبلیاں ہوں یا عدالتیں، شفاخانے ہوں یا حفاظتی چوکیاں،اسی طرح دیگر حساس مقامات اور اداروں کے آس پاس یہ جملہ بڑے حروف میں لکھ کر آویزاں کیا جاتاہے کہ ’’کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘،اِس سے انسان میں احساسِ ذمہ داری بھی پیدا ہوتا ہے اور اُس کا رویہ،چال ڈھال ایک خود کار طریقے سے محتاط بھی ہوجاتاہے،وہ کسی بھی قسم کی نامناسب حرکت سے باز آجاتا ہے۔

یاد رکھیے!ہمارا ایمان ہے کہ ایک ذات ایسی ہے جو محض چندلمحے، کچھ دن ، محدود اوقات یا چند مقامات پر ہی نہیں، بلکہ ہر شخص کو ، ہر وقت،ہر مقام پر دیکھ رہی ہے،اِس کا کوئی بھی کام اُس وحدہ لاشریک ذات سے مخفی اور پوشیدہ نہیں،یہی وہ ہستی ہے جو یکتا ہو کر پوری کائنات کا نظام چلارہی ہے،جسے کبھی نیند آتی ہے، نہ اونگھ ،اُس کا نہ کوئی ثانی ہے نہ مددگار، وہ بیک وقت ہر مخلوق کی نگہبانی میں مصروف ہے، اُس کے حکم کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا، اُسی نے اپنے لاریب کلام میں فرمایا :’’ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں‘‘۔ 

منہ سے نکلنے والے ہر بول پر اُسے ریکارڈکرنے کے لیے ایک نگراں بھی اُسی نے مقرر کر رکھاہے، ظاہر تو کیا باطن کے خیالات وافکار سے بھی وہ واقف ہے۔اِسی تصور کا استحضار،دھیان، موقع بموقع اس کی یاددہانی کے لیے یہ بول نسخۂ اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘،کھلی فضاء میں ہوں یا زمین کی پاتال میںربِّ کائنات کی نگاہوںسے پوشیدہ ہونانا ممکن نہیں ،بلکہ محال ہے۔

’’اللہ دیکھ رہا ہے ‘‘کا یقین ہی تقویٰ کہلاتا ہے،جسے اختیار کرنے کا ربِّ ذوالجلال نے قرآنِ حکیم میں اور سرکارِ دوعالم ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر مختلف اسالیب میںحکم دیا ہے۔یہ تقویٰ ایسی نعمت ہے جو انسان کو روزے میں سخت گرمی اور پیاس کی حالت میں بھی پانی کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روکے رکھتاہے، اِسی کی برکت سے حاکم اپنی رعایا کا خیال رکھتاہے، عدالتوں میں جلد اور باعزت طریقے سے حقدار کے حق میں فیصلے سنا دیئے جاتے ہیں ، ظالم ظلم سے باز آجاتا ہے، حقوق کا مطالبہ کرنے کی صداؤں کی بجائے حقوق کے ادا کرنے کی فضاء قائم ہوجاتی ہے، نوجوان بڑوں کا ادب کرنے لگتے ہیں ، شوہر کو بیوی کے اور بیوی کو شوہر کے حقوق کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے، نامحرموں کی زینت اور تسکین کا باعث بننے کی بجائے عورتیںاپنے خاوندوں کے لیے بناؤسنگھارکا اہتمام کرتی ہیں، بے حیائی وبے پردگی کا ماحول ختم ہوکر عفت وپاک دامنی کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں،مردوںکی نگاہیں اپنی بیویوں کے علاوہ ناجائز مناظر کی طرف اٹھ نہیں پاتیں،غرض جلوت کے ساتھ خلوت میں بھی وہ انسان گناہوں سے دور رہتا ہے، ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘کا احساس اُس کے لیے گناہوں سے آڑبن جاتاہے،عشقِ الٰہی کی حلاوت و لذت کا اُسے ادراک ہونے لگتا ہے، پھر وہ بزبانِ اقبال یوں کہ اٹھتا ہے:؎

شوق میری لَے میں ہے ،شوق میری نَے ہے

نغمۂ ’’اللہ ھُو‘‘ میرے رگ وپَے میں ہے

ٓٓٓآئیے!قرنِ اوّل کی ایک دخترِاسلام کا واقعہ پڑھتے ہیںجو رات کی تنہائی میں بھی دودھ میں پانی ملانے سے صرف اِس لیے ڈررہی تھی کہ اُس کا رب اُسے دیکھ رہا ہے،خدا کے خوف کی بدولت کیسی عزتیںاور رفعتیں اُسے نصیب ہوئیں؟ملاحظہ فرمائیے:

امیر المؤمنین حضرت عمرؓ ایک بار رات کو شہر میں گشت فرمارہے تھے،ایک مکان کے قریب سے گزرے ،جہاںماں بیٹی کے درمیان بحث ہو رہی تھی،ماں کہہ رہی تھی:دودھ میں پانی ملادو اور بیٹی انکار کرتے ہوئے جواب میں کہہ رہی ہے کہ امیر المؤمنین نے منع فرمایا ہے۔ماں نے کہا:یہاں امیر المؤمنین تو نہیں دیکھ رہے۔بیٹی نے کیا خوب جواب دیاکہ امّاںجان!امیر المؤمنین تو نہیں دیکھ رہے ،لیکن اُن کا رب تو دیکھ رہا ہے۔حضرت عمرؓ بغیر کچھ کہے گھر کولوٹے اور اپنے بیٹے عاصم سے فرمایا:اس لڑکی سے نکاح کرلو۔

انہوں نے نکاح کا پیغام بھیجا اور نکاح کردیا، اللہ تعالیٰ نے انہی کی نسل سے ایک عادل اور خیر خواہ خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ امت ِمسلمہ کو عطاء فرمایاجس پر امت جتنا بھی فخر کرے، کم ہے۔(مرقاۃ)

معلوم ہواجو اللہ کی رضاء کی خاطر، اللہ سے ڈرتے ہوئے دھوکے بازی،ملاوٹ،خیانت، جھوٹ اور دیگر برائیوں سے بچتا ہے ،اس کے لئے آخرت میںتو انعامات ہیں ہی ،دنیا میں بھی عزتیں اور رفعتیں اُس کا مقدر بن جاتی ہیں ،جیسے اِس واقعہ میں جب لڑکی نے اپنے آپ کو گناہ سے محفوظ رکھا تو ۱۔ اللہ نے اُسے وقت کے عظیم حکمران کے گھر کی زینت بنا دیا، ۲۔ اُنہی کی نسل سے امتِ مسلمہ کو ایک عادل خلیفہ عطاء فرمایاجسے پانچواں خلیفہ راشد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔اِسی لئے کہا جاتا ہے "جو رب کا سب اُس کا"۔عزت،عظمت ،سرخروئی،سربلندی اُس کے ماتھے کا جھومر بن جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں اپنے سے ڈرنے والوں کو پانچ انعامات دینے کا وعدہ فرمایا ہے: ۱۔اللہ کی ذات دنیا وآخرت میں مصائب ومشکلات سے نجات کا راستہ نکال دے گی۔۲۔ اللہ کریم اسے ایسی جگہ سے رزق عطاء فرمائے گا، جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔۳۔خدائے بزرگ وبرتر سب کاموں میں آسانی پیدا فرمادیتا ہے ۔ ۴۔ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیا جائے گا۔۵۔عظیم ثواب سے نوازا جائے گا۔

غرض تقویٰ کی برکت سے انسان کی دنیا بھی سنور جائے گی اور وہ آخرت میں بھی سرفراز رہے گا۔اِس کے برعکس انسان اگر اپنا دل اللہ کے ڈر وخوف سے معمورنہیں کرتا اور نافرمانیوں میں لگا رہتا ہے تو آخرت میں بھی اللہ کے عتاب وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا اور دنیا میں بھی انجامِ کار خوشیاں اُس سے روٹھ جائیںگی،گناہوں کی نحوست کے سبب اعزہ، اقرباء اور عام افرادبھی اس سے دورہوتے چلے جائیں گے۔حضرت ابو الدرداء ؓفرماتے ہیں: آدمی کو اِس سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ مومنین کے دل اس سے نفرت کرنے لگ جائیں اور اُسے پتا بھی نہ چلے پھر فرمایا: بندہ خلوت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا رہتا ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی نفرت مومنین کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور اُسے پتہ بھی نہیں چلتا(جامع العلوم والحکم،۱/۱۶۳) معلوم ہوا کہ اللہ کی نافرمانی کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ عام لوگ اُس سے نفرت کرنے لگ جائیں گے ،اُس کی عزت ان کے دلوں میں نہیں رہے گی۔

لہٰذا جو یہ چاہتا ہے کہ :۱۔ اُس کی تکلیفیں دور ہوں،۲۔مشکلات سے نجات ملے ،۳۔روزی کا بہترین انتظام ہوجائے،۴۔کاموں میں آسانی ہو،۵۔گناہ معاف ہوجائیں ،۶۔ عظیم ثواب ملے ،۷۔لوگ اُس کا احترام اور محبت کرنے لگیں۔

اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے ، اللہ کی محبت ،عظمت ،اُس کی پکڑ کا خوف اپنے رگ وریشے میں بسالے،ان شاء اللہ دونوں جہاں کی راحتیں اُس کا استقبال کریں گی،تقویٰ کے حصول کی چند تدابیر سپردِقرطاس کی جاتی ہیں :۱۔ ہر کام سے پہلے اِس بات کا استحضار کریں کہ ـ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘، چند دن کی زندگی ہے ، اس کے بعد رب کے حضور اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا۔۲۔ اِس جملے کو خوب سوچیں ، بولیں ،اپنے بیوی ،بچوں اور متعلقین کو بھی سکھائیں اور ہوسکے تو ایسے مقامات پر جہاں لوگوں کی نظر پڑتی ہو، وہاں بڑے حروف میں اِس جملے کو آویزاں کریں کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘تاکہ بار بار اُس پر نظر پڑے اور دل ودماغ میں یہ بول سما جائے ۔۳۔ اِس دعا کوہر نمازکے بعد خوب مانگیں، اپنے گھر والوں، بچوں کو سکھائیں : ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ الْہُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ‘‘(ترجمہ)اے اللہ!میں آپ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اورمال داری کا سوال کرتا ہوں۔

ملاحظہ فرمائیے!سرکارِ دو عالم ﷺ کی تعلیم کردہ اِس چھوٹی سی مبارک دعا میں اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کے ساتھ مزید تین بیش بہا نعمتیں بھی عطا فرما رہا ہے، لہٰذا اِس قیمتی دعا کو اپنے پاس نوٹ کرکے یاد کرنے کا اہتمام فرمالیں۔ خدائے بزرگ وبرتر سے دعا ہے کہ وہ سطورِ بالا کو قبولیت سے سرفراز فرماکر ان پر خود بھی عمل کرنے، اور اپنے اہل وعیال، رشتے دار، احباب کو بھی ترغیب دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کا ہر باشندہ ایک مثالی مسلمان اور مثالی شہری بن سکے۔

                              تکبر : بدترین گناہ

حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرمﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ عزوجل کے بدترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟وہ بداخلاق اورمتکبر ہے،کیا میں تمہیں اللہ عزوجل کے سب سے بہترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ کمزور اورضعیف سمجھا جانے والا بوسیدہ لباس پہننے والا شخص ہے،لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ عزوجل کی قسم اٹھالے تو اللہ عزوجل اس کی قسم ضرور پوری فرمائے۔ 

ذرا سوچئے کہ اس تکبر کا کیا حاصل! محض لذت نفس، وہ بھی چند لمحوں کے لیے! جب کہ اس کے نتیجے میں اللہ ورسولﷺ کی ناراضی،مخلوق کی بے زاری، میدان حشر میں ذلت ورسوائی،رب عزوجل کی رحمت اور انعامات، جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ چندلمحوں کی لذت چاہیے یاہمیشہ کے لیے جنت ! 

تازہ ترین
تازہ ترین