• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیبِ داستاں…ڈاکٹرلبنیٰ ظہیر
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بڑے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ " انتخابات وقت پر ہوں گے۔ میرے ہوتے ہوئے آئین سے انحراف نہیں ہو گا۔ اس ملک میں صرف جمہوریت ہو گی اور آئین کی بالا دستی قائم رہے گی۔ آئین میں مارشل لایا جوڈیشل مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں۔ مارشل لا کو نہ روک سکا تو گھر چلا جائوں گا۔ آئین میں الیکشن کے التوا کی کوئی گنجائش نہیں۔
جناب چیف جسٹس جیسے بلند مرتبہ اور مقام رکھنے والے شخص کی طرف سے یہ اعلان نہایت ہی خوش آئند ہے۔ اس سے انتخابات کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہیں یقیناََ کم ہو جائیں گی اور بے یقینی کی گرد بیٹھ جائے گی۔ اگرچہ گزشتہ ستر سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہماری سیاست کے بارے میں کوئی بات بھی دو ٹوک انداز میں نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج کی طرف سے اس واضح یقین دہانی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جناب چیف جسٹس نے با لواسطہ طور پر اس امکان کو بھی رد کر دیا ہے کہ جون میں قائم ہونے والے نگران سیٹ اپ کی میعاد میں توسیع کر کے انتخابات کو آگے کر دیا جائے۔ پاکستان کے آئین کی رو سے اگر موجودہ حکومت اور اسمبلیاں 31 مئی تک قائم رہتی ہیں اور یکم جون کو یہ نظام اپنی میعاد پوری کر کے رخصت ہو جاتا ہے تو ساٹھ دنوں کے اندر اندر نئے انتخابات کرانا ہو ںگے۔ گویا جولائی کے آخری ہفتے میں انتخابات ہو جائیں گے اور اگست میں نئی حکومتیں اپنے اپنے منصب سنبھال لیں گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اس سے قبل بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کی بات کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھاکہ وہ چیف الیکشن کمشنر سے بھی اس موضوع پر صلاح مشورہ کرتے رہتے ہیں اور انکی خواہش ہے کہ وہ مثالی انتخابات کا ریکارڈ قائم کریں۔ چیف جسٹس کے ان خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بر وقت انتخابات بھی چاہتے ہیں اور ہر طرح کی خرابی سے پاک بھی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا واقعی ایسے انتخابات ہو پائیں گے جو حقیقی معنوں میں آزادانہ، غیر جانبدارانہ، اور منصفانہ ہوں؟ جن پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہو؟ یہ کوئی معمولی ہدف نہیں۔ اس مقصد کے لئے بنیادی کام تو الیکشن کمیشن ہی کو کرنا ہے لیکن عدلیہ بھی نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہر طرح کے امتیاز کے بغیر تمام جماعتوں کو انتخابات لڑنے، عوام سے رابطہ کرنے، اپنے منشور کی تشہیر کرنے اور انکی حمایت مانگنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر منصفانہ انتخابات کا دعویٰ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ 2013 میں بھی پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی جماعتیں دہشت گردوں کے نشانے پر رہیں۔ وہ آزادی اور اعتماد کے ساتھ اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکیں۔ ظاہر ہے کہ نتائج پر بھی اس کا اثر پڑا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، مسلم لیگ(ن) انتہائی کڑے احتساب کی زد میں ہے۔ اسکے بیشتر رہنمائوں پر کسی نہ کسی طرح کے مقدمات چل رہے ہیں۔ نیب کا پسندیدہ شکار بھی یہی جماعت ہے۔ اب تک کے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نواز شریف عوامی مقبولیت کے گراف میں سب سے اوپر ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ عوام کو اپنی پسندیدہ شخصیت کو کسی بھی منصب پر بٹھانے کا حق حاصل ہو لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سب سے مقبول عوامی لیڈر ایک کمزور فیصلے کے تحت عمر بھر کیلئے نا اہل قرار دیا جا چکا ہے۔ اب وہ ہزاروں کے جلسے کرے یا لاکھوں کے، لوگ اس کے لئے جیسے جی چاہیں نعرے لگائیں، وہ وزیراعظم تو کیا کسی اسمبلی کا رکن بھی نہیں بن سکتا۔
اسے پارٹی کی سربراہی سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ ایک قانون کی منظوری دے چکی تھی۔ حال ہی میں سینٹ کے انتخابات ہوئے۔ محض دو چار دن قبل ایک عدالتی فیصلے کی رو سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو جاری کردہ ٹکٹ اس لئے منسوخ کر دئیے گئے کہ ان پر نواز شریف کے دستخط تھے۔ یہ ہماری ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کوئی سیاسی جماعت ایوان بالا کے انتخابات سے باہر کر دی گئی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کے طور پر جیتنے والے یہ امیدوار اپنی جماعت یعنی مسلم لیگ(ن) میں با ضابطہ طور پر شامل ہونے کے لئے جتن کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے راستے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ کم از کم مسلم لیگ(ن) اور اس کی لیڈر شپ کے لئے انتخابات سے پہلے ہی مشکلات پیدا کر دی گئی ہیں۔ اگر جناب چیف جسٹس واقعی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا کوئی شاندار نمونہ پیش کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تو انہیں شعوری کو شش کرنا ہو گی کہ تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور ہوں۔ عوام کے دلوں میں بھی یہ یقین اور اعتماد پیدا ہو کہ ان کی پسند نا پسند کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ انتخابات صرف پولنگ کا نام نہیں۔ یہ تو ایک بہت بڑی مشق ہے جو کئی مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ قانون اور عدالتی فیصلوں کی اہمیت چاہے جو بھی ہو، اگر کسی جماعت کا ایسا لیڈر، جسے عوام میں بھی سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہو، انتخابی عمل سے باہر کر دیا جائے تو انتخابات کی ساکھ پر یقیناََ حرف آئے گا۔
جناب چیف جسٹس کے اعلان کو خوش آمدید کہتے ہوئے کیا یہ توقع بھی رکھی جا سکتی ہے کہ انتخابات کے ذریعے حقیقی عوامی رائے سامنے آسکے گی اور آئین کے مطابق عوام کی حکمرانی قائم ہو پائے گی؟
تازہ ترین