ٹوئٹر پر جیوکے بلیک آئوٹ پر بہت معنی خیز تبصرے کیے گئے ۔ ایک تبصرہ برمحل ہے ، ’’ مسنگ پرسنز کے بعد اب مسنگ چینل‘‘۔ حکومت نے بلیک آئوٹ کی مذمت کی ،سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ اس بلیک آئوٹ کے پیچھے کون ہے،پیمرا کا کہنا ہے کہ وہ انضباطی کارروائی کرنے جارہا ہے ۔ جیو کی انتظامیہ رحم کی اپیل کررہی ہے ۔غالباً اسے انداز ہ ہے کہ چینل کی بندش کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔ یہ آگاہی مزید مشکلات کا باعث ہے ۔ گمشدہ افراد کے کیسز بھی اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ صورت ِحال اُس فرق کو واضح کرتی ہے کہ حکومت میں کون ہے ، اور اصل میں حکومت کس کی ہے ۔
صدیوں پہلے سوچ سمجھ رکھنے والے رہنماا س نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہر شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق بات کہنے کا حق دیا جانا ضروری ہے ۔ اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ ہر کوئی اپنی مرضی کا عقیدہ قبول کرسکتا ہے ۔ اُسے یہ حق استعمال کرنے پر تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن ہمارے حکمران ناپسندیدہ تصورات پر قدغن لگانے کے موجد نہیںہیں۔پریس ریگولیشن کی تاریخ اخلاقیات ، قومی مفاد یا امن ِعامہ کے نام پر تصورات کو حدودوقیود میں رکھنے کی کوششوں سے عبارت ہے ۔ تقاریر کی آزادی کا حق اپنی جگہ پر ،ہماری طاقت ور اشرافیہ تنقیدیا ناموافق تصورات کو برداشت نہیں کرتی ۔
مہذب دنیا میں کسی بھی شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق بات کرنے کی آزادی ہے ۔ اُن کے ہاں آئین اور قانون میں تقریراور معلومات کا اجتماعی حق اتنا راسخ ہوچکا ہے کہ اگرچہ طاقتور اشرافیہ تنقیدی تصورات سے نفرت کرتی ہے، لیکن وہ اسے روکنے کے لئے نہ کچھ کرتی ہے اور نہ ہی کرسکتی ہے ۔ ہم نے موجودہ امریکی صدر کو یکے بعد دیگرے مختلف میڈیا ہائوسز کے خلاف بیان بازی کرتے دیکھاہے ۔ کیوں؟ اس لئے کہ کوئی بھی تنقید پسند نہیں کرتا ۔ کچھ افراد کی انا دوسروں سے زیادہ حساس ہوتی ہے ۔ کچھ تنقید کو برداشت کرنے کا دکھاوا کرنے کی کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ ان کے خلاف عملی طور پر کچھ نہ کرسکے ۔ لیکن کچھ نظام طاقتور افراد کو ناپسندیدہ تصورات کی سرزنش کرنے سے بڑھ کر کچھ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ہمارا نظام اسی طرح کا ہے ۔ ہم نے اپنے آئین میں لکھاہوا ہے کہ عدلیہ اوردفاعی ادارے مقدس گائے ہیں، چنانچہ ان پر تنقید سے گریز کرنا ہوگا۔ ہماری اظہار کی آزادی مشروط اور جزوی ہے ۔ اگر آزادی ٔ اظہار کے حق کو من و عن تسلیم کرلیا جائے تو پھر شہریوں کو غیر منتخب اداروں پر تنقید کرنے ، یا اُنہیں کسی کوتاہی پر مورد ِالزام ٹھہرانے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ آزادی ٔ اظہار کا جواز تین پہلو رکھتا ہے ۔
پہلا، انسان شعور رکھتے ہوئے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرسکتا ہے۔ دوسرا ، تصورات کی مارکیٹ میں جہاں ہر قسم کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ تصورات پیش کیے جاتے ہیں، سچ کا پلڑا بھاری رہے گا اور اس کے مقابلے میں جھوٹ کی دکان نہیں چلے گی ۔ اور تیسرا، مساوات انسانی وقار اور آزادی کے بنیادی تصورات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقائی مدارج طے کرتے جائیں گے ۔ جب اختلاف رائے رکھنے والے موجودہ تصورات کو چیلنج کرتے ہیں تو اس سے سماجی آگاہی بیدار ہوتی ہے ، انسانی زندگی اور تصورات میں بہتر ی آتی ہے ، اور اس طرح اختلاف کا احترام کرنا معاشرے کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ وقتی طور پر تنقیدی تصورات تکلیف دہ اور بلاجواز دکھائی دیں، لیکن سماجی شعور کی پختگی کے لئے اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن ہم ابھی تک تہذیبی ارتقا کے اس درجے تک نہیں پہنچے جہاں ناپسندیدہ تصورات کو برداشت کرلیں۔ چنانچہ ہم نے آزادی ٔ اظہار کی کچھ اقسام پر پابندی لگارکھی ہے ۔ رسمی قدغن کے اوپر کچھ غیر تحریری پابندیاں بھی ہیں۔ پہلی خود پر عائد کردہ سنسر شپ ہے ۔ اگر آپ نے مقدس گائے پر کوئی تنقیدی جسارت کی تو ایڈیٹر آپ کا مضمون روک لے گا۔ اگر یہ بار ِ اشاعت پاگیا تو طاقتور حلقوں کی ناراضی مول لے گا۔ اس پر آپ کی ٹھکائی بھی ہوسکتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر حب الوطنی اور قومی غیرت کے نام نہاد اور خود ساختہ جھتے آپ کی ایسی کردار کشی کریں گے کہ آپ کی کئی نسلیں یاد رکھیں گی ۔ سچائی کا دامن تھامنے والے زیادہ تر افراد اس ڈھلوان پر توازن سلامت نہیں رکھ سکتے ہیں۔
اگر آپ اختلاف کرنے کو اپنا حق سمجھنے پر تلے ہوئے ہیں تو پھر بھی کچھ حدود قیود کا خیال رکھنا لازم ہے ۔ سیاست دانوں پر جتنی چاہے چاند ماری کرلیں، لیکن مقدس اشرافیہ کی طرف انگشت نمائی کی جسارت سے پہلے کئی مرتبہ سوچ لیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ کسی ایک افسر کی کسی غلطی کی طرف معذرت خواہانہ انداز سے رسمی اشارہ کرسکتے ہیں، لیکن آپ کا واضح تاثر ہو کہ یہ غلطی نادانستگی میں سرزد ہوئی ہے ۔ آپ کسی صورت اسے ادارے کے غلط تصورات سے منسوب نہیں کرسکتے ۔ آپ کی زبان شائستہ اور لہجہ پر تکلف ہونا چاہیے ۔ اگر آپ اس پروٹوکول کا خیال نہیں رکھتے تو مضمون پر ادارت کی قینچی چلے گی، قطع برید ہوگی اور نیا کاغذی پیراہن تنقید کی بجائے فریاد کا پیکر ِ تقریر ہوگا۔دست ِ غیر(ایڈیٹر ) کی اس دراز دستی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ پرہیز کو علاج سے بہتر سمجھیں۔
آزادی کے تاثر کے باوجود الیکٹرانک میڈیا مفلوج بھی ہے اور مجبور بھی۔ آپ جی بھر کے منتخب شدہ حکومت پر تنقید کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ کی آزادی کی حد یہی ہے ۔ توازن کااحساس دلانے کے لئے مخالف سوچ رکھنے والے پینلز کو مکالمے میں شریک ضرور کیا جاتا ہے ، لیکن وہ مہمان جو اپنے دل کی بات کہنا چاہیں، اُنہیں بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے۔ ’’کم محب وطن چینلز ‘‘ کے ایسے ٹاک شوز، جن میں کسی مقدس پائو ں پر پائوں آجانے کا اندیشہ ہو، اُنہیں لائیو پیش نہیں کیا جاتا۔ اُن کی ریکارڈ نگ اور پھر مناسب قطع برید ہوتی ہے ۔
کچھ میڈیا ہائوسز اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے بھی یہ راہ اپناتے ہیں۔ تاہم ان کے باہم مسابقت ان کے ہاتھ سے سنسر شپ کی اجارہ داری چھین لیتی ہے ۔ حریف چینل مخالف تصور پیش کرنے کے لئے آزاد ہے ۔ لیکن جب معاملہ ریاست کے غیر منتخب شدہ اداروں کا ہوتو پھر محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا ہوناپڑتا ہے ۔یہاں قوانین سب کے لئے یکساں ہیں۔ جو میڈیا ہائوسز ان قوانین سے سرتابی کی جسارت کریں، اُنہیں ڈسپلن سکھادیا جاتاہے ( کس طرح؟یہ ایک الگ کہانی ہے )
لیکن جنگ اور جیو گروپ کو ڈسپلن نہیں سکھایا جارہا ۔ ڈسپلن اُنہیں سکھایا جاتا ہے جن سے تعمیل کرتے کرتے کچھ غلطی ہوجائے ۔ یہ میڈیا ہائوس تو مذکورہ قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقدس گائے سے بے باکانہ سوال پوچھ رہا تھا۔غیر منتخب حلقوں کو یہ تاثر مل رہا تھا کہ جنگ اور جیو گروپ کی ایڈیٹوریل پالیسی کا جھکائو نواز شریف کی طرف ہے ۔ شائع ہونے والے مضامین اور ٹی وی ٹاک شوز میں کسی قدر توازن موجود ہے ، لیکن انہی حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعدکہ اس کے نیوز ڈیسک نے ان کے ساتھ کھل کر ہمدردی دکھائی ۔ اور یہ پالیسی اُن کے لئے کھلی جسارت تھی جن کا خیال ہے کہ پاکستان اور اس کی ترقی کے درمیان واحد رکاوٹ نواز شریف ہیں۔ لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا بھرمیں میڈیا ہائوسز کسی نہ کسی مرحلے پر کوئی موقف ضرور اختیار کرتے ہیں۔ موقف کے بغیر رائے سازی کا عمل پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اخبارات اور چینلز انتخابات سے پہلے کچھ امیدواروں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے قارئین اور ناظرین کو بتاتے ہیںکہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں۔ کالم نگار بھی کسی موقف ، یا اس کی مخالفت میں لکھتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔
بات یہ ہے کہ میڈیا کوئی سیاسی اپوزیشن اختیار کرسکتا ہے ، لیکن آئین کچھ ریاستی اداروں کو ایسا کرنے سے روکتا ہے ۔ مثال کے طور پر آرٹیکل 244مسلح افواج کے ہر رکن کو یہ حلف اٹھانے کا پابند کرتا ہے ۔۔۔’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے ساتھ وفاداررہوں گا، اور میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین ، جو اس کے عوام کی مرضی کا اظہار ہے ، کی پاسداری کروں گا، اور میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لوں گا، اور دل و جان سے پاکستان کی خدمت کروں گا۔۔۔۔‘‘
عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اگر بالفرض نواز شریف مجسم برائی اور پاکستان کے لئے تمام مسائل کی جڑ ہیں تو عوام سے یہ چیز کیسے ڈھکی چھپی رہ سکتی ہے ۔ وہ ووٹ کے ذریعے اُنہیں سبق سکھادیتے ۔ فرض کریں کوئی میڈیا ہائوس اُنہیں پروموٹ کرتا ہے تو بھی تصورات کی مارکیٹ میں کھوٹے کھرے کی پہچان ہوجائے گی۔ لوگ پروپیگنڈا مسترد کردیں گے۔ لیکن پاکستان پر حکومت کرنے والے اصل ہاتھ نے مختلف راہ اختیار کی ۔ یہاں عوامی مفاد کے محافظ نہیں چاہتے کہ سادہ دل عوام کے ذہن میں کوئی ناہنجار خراب تصورات انڈیلے ، اور لوگ ایسے سیاست دان کے ساتھ ہمدردی جتانا شروع کردیں جو ملک کے لئے مہلک ہے ۔
ایک مرتبہ جب آپ نظریہ ضرورت کے تحت اس تصور کا جواز نکال لیں تو یہ حکومت وقت کے ہاتھ سے اختیار چھین لیتا ہے ۔ اسی سے کنٹرولڈ جمہوریت ، جس میں مطلوبہ نتائج سامنے آئیں، عوام کی مرضی کی جگہ لے لیتا ہے ۔ اس سوچ کو خدشہ ہوتا ہے کہ عوام تو کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی ہی جمہوریت مستعمل ہے ۔ یہاں مارکیٹ میں ہر قسم کے تصورات رکھنے کی اجازت نہیں ۔ یہاں انسانی ضمیر پر بھروسہ نہیں کیا جاتا کہ وہ کھوٹے کھرے کی پہچان کرنے پر قادرہے ۔ یہاں انسانی بصیرت، جانچ، پرکھ اور درست راہ کا انتخاب کرنے کی صلاحیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک مرتبہ جب آپ کے پائو ں ڈھلوان سے اکھڑجائیں تو پھر آپ کہیں نہیں رک سکتے۔ ناپسندیدہ انتخابی نتائج کو روکنے کی کوشش بھی اسی راہ پر چل نکلتی ہے ۔ آپ چاہتے ہیں کہ بدعنوان اورناپسندیدہ افراد آگے نہ آئیں، لیکن اس کے لئے آپ عوام پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔
چنانچہ جیو کو بلیک آئوٹ کرنے کا مسئلہ اداروں پر تنقید کا نہیں ہے ۔ یہ اس غیر تحریری قانون کے نفاذ کا ہے کہ کسی کوبھی’’ سادہ لوح عوام کو چکمادینے اور خراب انتخابی نتائج ‘‘ کا باعث بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ یہ اسی طرح ہے جیسے مارکیٹ میں کچھ اشیا کم عمر افراد کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تو گویا ہم دوسوملین ’’نابالغ افراد ‘‘ کا ملک ہیں ۔ اب یہ اتفاق ہی ہے کہ کیبل آپریٹرز بھی راتوں رات قومی مفاد کے نگران بن گئے ہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ عوام کو جیو کے پروپیگنڈے سے بچانا ضروری ہے ۔ یا پھریہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیوپر پابندی پی ایم ایل (ن) حکومت کی اپنی سازش ہو ۔ اس کا مقصد نوا زشریف کی حمایت کرنے والے واحد چینل کو بلیک آئوٹ کرکے عوامی ہمدردی حاصل کرنا ہو۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی طرح غیر یقینی پن بھی کنٹرولڈ ہوتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
kk