(اشفاق میمن)
(گزشتہ سے پیوستہ)
’’کسی ملک میں ایک بادشاہ رہتا تھا اُس کی فقیر سے گہری دوستی تھی، دونوں ہر وقت ساتھ رہتے اور دونوں روزانہ شکار پر جاتے تھے۔ بادشاہ کو اس کی غربت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور نہ ہی فقیر نے کبھی اپنے لیے اس سے کوئی مدد طلب کی۔ ایک روز بہت تیز طوفانی بارش ہو رہی تھی کہ، فقیر کی جھونپٹری ہوا سے اُڑ گئی۔ اگلی صبح فقیر کو بادشاہ کے ساتھ شکار پر جانا تھا، مگر اس کی بیوی نے اسے جانے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ، ’’کبھی اپنے بیوی بچوں کا خیال بھی کرلیا کرو، بادشاہ کو تو تمہاری کوئی فکر نہیں ہے۔ آج شکار پر جانے کی بجائے جھونپڑی کی مرمت کرو‘‘۔ بیوی کی بات فقیر کے دل پر لگی، اس نے بادشاہ کو منع کرتے ہوئے کہا کہ، ’’میری بیوی نے مجھے طعنہ دیا ہے کہ آپ کو میری کوئی فکر نہیں ہے، اس لیے میں آج گھر پر روک کر جھونپڑی کی مرمت کروں، شکار پر کل چلوں گا۔‘‘
بادشاہ کو بہت شرمندگی ہوئی اس نے فوراً وزیر کو حکم دیا کہ فقیر کے لیے ایک محل اور اس کے گھر والوں کے لیے عمدہ اور قیمتی لباس کا بندوبست کرو۔ نیز ہمارے محل میں جتنی ، کنیزیں اور غلام ہیں اتنے ہی اس کی خدمت میں بھی مامور کر دو‘‘۔ وزیر نے فوراً بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی۔
اگلے روز بادشاہ اور فقیر دونوں شکار کے لیے نکلے تو فقیر نے گھوڑے پر سوار ہونے کی بجائے پہلے کی طرح پیدل چلنے پر اصرار کیا۔ جنگل پہنچنے کے بعد بادشاہ کو پیاس محسوس ہوئی تو فقیر نے بادشاہ کو ایک جگہ روک کر انتظار کرنے کا کہا اور خود پانی کی تلاش میں چلا گیا، کافی دیر بعد اسے ایک تالاب نظر آیا، چوں کہ اسے بھی پانی کی تلاش کرتے کرتے پیاس لگ رہی تھی، اس لیے اس نے تالاب کے قریب جا کر پہلے خود پانی پینا چاہا لیکن اسے فوراً بادشاہ کا خیال آگیا کہ پہلے اسے پانی پلائے پھر خود پیے گا۔ ابھی وہ بادشاہ کے پاس جانے والا ہی تھا کہ اس کی نظر تالاب کے قریب موجود پتھر پر پڑی جس پر ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر بنی ہوئی تھی، اسے معلوم تھا کہ بادشاہ بہت دل پھینک ہے اس لیے اس نے مٹی سے تصویر چھپا دی اور بادشاہ کے پاس چلا گیا، اسے تالاب کا بتایا ، دونوں نے تالاب پر پہنچ کر اپنی پیاس بجھائی۔
پھر بادشاہ نے فقیر کو لکڑیاں لانے کا حکم دیا، تاکہ ان پر گوشت بھون کر کھانا کھاسکیں اور خود وہیں آرام کرنے لیٹ گیا۔ فقیر قریبی گاؤں لکڑیاں لینے کے لیے چلا گیا۔ اتنے میں بادشاہ کی نظر اس پتھر پر پڑی اس نے پتھر سے مٹی ہٹا کر دیکھا تو اس پر لڑکی کی تصویر کندہ تھی، اسے وہ بہت پسند آئی، اسی اثناء میں فقیر بھی لکڑیاں لے کر آگیا تھا۔ بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ وہ کہیں سے بھی اس لڑکی کو ڈھونڈ کر لائے۔ فقیر بادشاہ کے حکم کی تکمیل کی خاطر فوراً لڑکی کی تلاش میں نکل گیا۔
دوسری طرف بادشاہ تالاب کے کنارے فقیر کا انتظار کرنے لگا کہ اتنے میں ایک اژدھا وہاں آگیا۔ جسے دیکھتے ہی بادشاہ نے تلوار نکال لی اور اسے مار دیا۔ اژدھے کے منہ سے سبز رنگ کا منکا زمین پر گر گیا۔ اس نے منکا اُٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا، پھر اس خیال سے کہ کہیں پرندے زہریلے اژدھا کو نہ کھا لیں اسے دفن کر دیا۔
یہ جادوئی منکا تھا، جس کی وجہ سے تالاب کا پانی خود بخود کم ہوتا گیا۔ اسی اثناء میں اسے ایک محل کا دروازہ دکھائی دیا بادشاہ اس دروازے سے اندر چلا گیا، وہاں وہی لڑکی موجود تھی، جس کی تصویر پتھر پر کندہ تھی۔ بادشاہ کو دیکھ کر لڑکی نے اپنے بارے میں بتایا کہ ایک دیو اسے اُٹھا کر یہاں لا کر قید کر دیا۔ بادشاہ نے دیو کے بارے میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ اژدھا کے روپ میں باہر گیا ہے، یہ سنتے ہی بادشاہ خوش ہو گیا اور لڑکی کو بتایا کہ اُسے تو میں نے مار کر دفن کر دیا ہے، اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
بادشاہ لڑکی کو محل سے لے کر باہر آیا، لیکن فقیر اب تک لوٹ کر نہیں آیا تھا، اس کے انتظار کی غرض سے دونوں واپس محل میں چلے گئے، کچھ دیر بعد فقیر تالاب کنارے پہنچا اور اژدھا کی قبر دیکھ کر سمجھا کہ بادشاہ کو کسی نے مار کر دفن کر دیا ہے، وہ بہت رویا اور بھیک مانگنے گاؤں چلا گیا، اتنے میں بادشاہ اور لڑکی دوبارہ فقیر کی تلاش میں باہر آئے لیکن ایک بار پھر اسے نہ پایا اور واپس چلے گئے، بادشاہ نے عہد کر لیا تھا کہ، جب تک فقیر نہیں ملے گا تب تک وہ وہاں سے نہیں جائے گا اس کا انتظار کرے گا۔ فقیر بھی بادشاہ کا وفادار تھا وہ دن بھر گاؤں میں بھیک مانگتا اور شام قبر پر گزارتا، یوں ہی کچھ دن گزر گئے ایک روز فقیر کی طبعیت خراب ہوگئی، جس کی وجہ سے وہ پورا وقت بادشاہ کی یاد میں قبر کے ساتھ ہی بیٹھا رہا۔ اتنے میں بادشاہ فقیر کی تلاش میں محل سے باہر آیا اور اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا، فقیر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ، بادشاہ زندہ ہے۔
تینوں واپس اپنے ملک چلے گئے‘‘۔ دیو نے کہانی سنا کر یوسف سے کہا کہ، ’’اب تم سوچو کس کی دوستی بہتر ہے تمہاری اور شہزادے کی یا فقیر اور بادشاہ کی‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے یوسف کو کنویں سے باہر نکال دیا۔ یوسف اس دن کے بعد کبھی دوبارہ شہزادے کے پاس نہیں گیا۔
(ختم شد)