• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین کے صوبے ہینن میں منعقدہ باؤ فورم کے سالانہ اجلاس میں منگل کے روز جو باتیں کہی گئیں ان سے چوتھے صنعتی انقلاب کا پیغام نمایاں ہوا اور آج کے دور میں آگے بڑھنے کے لئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت اجاگر ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کا اپنے خطاب میں چوتھے صنعتی انقلاب کی دستک کے حوالے سے یہ کہنا تھا کہ پتھر ہٹانے اور پہاڑ ہلانے کا وقت آچکا، ورلڈ آرڈر ٹوٹ رہا ہے، ایشیا مستقبل کی تجارت کا مرکز ہوگا، اسے عالمی اقتصادی نظام وضع کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ ایشیا کے مستقبل کا تعین ہمیں کرنا ہے، تمام ممالک غلبے کی ذہینت ترک کر دیں، آج کے زمانے میں امن و تعاون کے ذریعے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم شاہد عباسی کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے دوران بیجنگ کی اس خواہش اور امید کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان سبک روی سے ترقی کی شاہراہ پر پیش قدمی کرے گا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کی ان کوششوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے جو وہ اپنی خودمختاری، جغرافیائی سالمیت اور مفادات کے تحفظ کے لئے کررہا ہے۔ بیجنگ اسلام آباد سے اپنی دوستی اور تعاون کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کا اندازہ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ پاک چین تعلقات خطے کے امن و استحکام کا ستون ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے باؤ کانفرنس کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریز، ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو کیری لام، نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن آف چائنا کے ایڈمنسٹریٹر نوئر بیکلے سمیت جن شخصیات سے ملاقاتیں کیں وہ یقیناً مفید رہیں اور انکے نتیجے میں ایک جانب وطن عزیز میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی تو دوسری طرف عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر نئی دہلی کی اشتعال انگیزیوں سے آگاہ کرنے میں مدد بھی ملی ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ کی جانب سے وزیراعظم عباسی سے گفتگو کے دوران دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ بات چیت پر زور دیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی برادری کو خطے کی صورتحال کے سنگین تر ہونے کا ادراک تو ہے مگر اس باب میں پاکستان کو اپنی سفارتی کاوشیں مزید تیز کرنا ہوں گی اور بین الاقوامی فورموں اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہوگا کہ تنازع کشمیر سمیت خطے کے لئے خطرہ بننے والے معاملات کا اگر دوطرفہ بات چیت سے تصفیہ ممکن ہوتا تو بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔ حالات جس نہج پر ہیں ان میں عالمی ادارے اور اہم ملکوں کا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اقوام متحدہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ چین کے صدر نے باؤ فورم فار ایشیا سے اپنے خطاب کے دوران سرد جنگ کی سوچ کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے جو باتیں کہیں انہیں مبصرین ڈپلومیسی کی زبان میں پوری دنیا کے لئے پیغام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ چینی صدر نے اپنی کمیونٹی پر توجہ دینے اور دوسروں کو نظرانداز کرنے کو بند راستے کی طرف چلنے کے مترادف قرار دیا۔ مبصرین کی رائے میں یہ تقریر امریکہ سے تجارتی جنگ کم کرنے کا اشارہ ہے۔ اس باب میں گاڑیوں پر لگنے والی ڈیوٹی کم کرنے اور غیر ملکی کمپنیوں کے لئے چین میں سرمایہ کاری قوانین میں آسانی لانے کا عندیہ دیا گیا۔ چین وہ ملک ہے جس نے ایشیا میں معاشی بحران کے خاتمے کیلئے گراں قدر کام کیا، اس کے صدر جب یہ کہتے ہیں کہ ایشیا کے مستقبل کا تعین ہمیں خود کرنا ہے تو اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ چین کی داخلی معیشت کو ترقی دینے کے بعد ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کا آغاز کرکے پوری دنیا میں معاشی ترقی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ اس باب میں وزیراعظم عباسی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قدم بقدم اور اینٹ در اینٹ نیا ایشیا تشکیل پا رہا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے 21ویں صدی کے جس چوتھے صنعتی انقلاب کی دستک کی بات کی، اس کے حوالے سے یہ امیدیں بے محل نہیں کہ وہ ایک بڑے صنعتی دور کا نقطہ آغاز ہوگا جس سے پوری دنیا فائدہ اٹھائے گی۔

تازہ ترین