ایمبروز ایوانز پریسچارڈ
یورپ کی سیاسی بغاوت دوسری طرف موڑ رہی ہے۔ ایک وقت میں خاموش رہنے والے معروف دانشواروں نےیورپی یونین کے نظریے کے اہم مفروضے کوچیلنج کرنا شروع کردیا ہے ، جواخلاقی تہذیب سوزی اور ایک جمہوری ریاست پر بے رحمانہ حملے کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔
یہ تقریبا ایسا ہی ہے جیسے کہ خطے کے ثقافتی دارالحکومتوں میں ’’ڈوکسا‘‘(عام عقیدے کا نظریہ) کا مخالف نظریہ ابھر کر سامنے آرہا ہو ۔ نظریہ کاروں اور پروفیسرز قوم کی قسمت کے بارے میں دعوے کررہے ہیں، ایک ایسی قوم کے بارے میں جوبالخصوص لبرل ہے ، عالمگیریت اور امریکی و فرانسیسی انقلابات سے متاثر ہے، یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے بارے میں ہمیںعہد حاضر میں بمشکل ہی سننے کو ملتاہے۔
یہ لوگ اس معاملےپر دلائل ایسے پیش کرتے ہیں گویاجمہوریت وہ واحد گاڑی ہے جس کو انسان بہت اچھی طرح چلانا جانتا ہے۔ اس نے اخلاقی کامیابی ،سماجی یکجہتی اور قانون کی حکمرانی کی تائیداورمذہبی و نسلی منافرات کے تدارک کیلئے ایجنٹ مقرر کر رکھا ہے ۔ جو سامراجی شناختوں کی ناقابل معافی لڑائی کے خلاف ایک رکاوٹ بنی ہوئی ہےجس کو آسانی سے نظر انداز یا ختم نہیں کرنا چاہیئے۔
ماضی میں یورپی یونین پاور اسٹرکچر کےلیےبہت آسان تھا کہ وہ یورو سیپٹک پر تنازعے کا تمسخر اڑائیں یا اس کو برے انداز کے ساتھ مقبول قبائلی نظام کو بدنام کریں۔ چاہےوہ فرانس میں نیشنل فرنٹ پارٹی ہو یا ہالینڈر میں گیرٹ وائلڈرز کی فریڈم پارٹی ۔ برطانیہ کا احتجاج مخصوص اینگلو سیکسن سے علیحدہ ہوسکتا ہے(اینگلز اور سیکسن دو قبائل تھے۔ جنھوں نے پانچویں اور ساتویں صدی عیسوی کے درمیان ہالینڈ اور سکنڈے نیویا کی طرف سے جزائر برطانیہ پر حملہ کیا اور وہاں اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں، نویں صدی میں ان ریاستوں کے اتحاد نے ایک بادشاہت کی صورت اختیار کر لی)۔
اس یورپی یونین تحریک کے مخالفین ان کلچرسے وابستہ جذبات سے فائدہ اٹھاچکے ہیں لیکن اس کے باوجود اعتدال پسند رائے سازی بنانے کیلئے کوئی بامقصد نظریہ’’قابلِ احترام ‘‘ڈاکٹرائن سامنے نہیں آیا۔ یورپ کے دانشورانہ حلقےغوروخوص کرنے والوں پر غالب آچکے ہیں جنہوں نےبحیثیت قوم عالمی دنیا کے قدیم رسم و رواج کے مستقبل کومسترد کردیا۔
یہ معاملہ ایک یورپ اسپرنگ کی طرح لگتا ہے۔ پیرس کی معروف یونیورسٹی ،پیرس انسٹیٹوٹ آف پولیٹکل اسٹیڈیزکے پروفیسر گل ڈیلونوئی کی نئی کتاب’’La Nation contre le Nationalismeنے فرانس میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ ان کاموقف ایک سخت سزا سنارہی ہے۔ یورپی یونین ایک مقدس رومی سلطنت کی خصوصیات کی طرح قبضہ حاصل کررہی ہے ۔
لیکن اس وقت ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے ۔تاریخ میں کسی کی بھی بادشاہت میں جمہوری حکومت نہیں رہی ۔ نام نہادرحم دل شہنشاہوں کا ہمیشہ ہی یہ مسئلہ رہا ، وہ اس وقت ہی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے جب تک انہیں کسی مزاحمت کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس پہلو میں وہ لوگ ضرورآمرانہ منطق کو پیش کریں گے کہ ہم نے یورزون بحران میں اضافہ ہوتے ہوئے دیکھا یا اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے اور اپنی گرفت کمزور کردی۔
پروفیسرڈیلونوئی یورواسپیٹک کے بارے میں سیاسی نوعیت کےمضامین نہیں لکھتے ، وہ بحیثیت سماجی ماہرین کے طور پر قانون کی رو سے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں حالانکہ و ہ اپنے غیر معمولی مختلف نظریہ کے ساتھ’’نیشن فوبز یاقومی خوف ‘‘استحصال کا مذاق اڑاتے ہیں۔
چند ہفتوں قبل بلجیم کےمورخ ڈیوڈوان رے بروک نے اس قسم کی سطریں لکھی تھیںجس میں انہوں نے یورپی یونین کے اعلیٰ ریاستوں کے ارکان ہالینڈ ،برطانیہ، بلجیم کی دیگر رکن ریاستوں کیساتھ رویوں کو نوآبادیاتی منتظمین یاجنگ کے زمانے میں فرانسیسی غیر ملکی بادشاہوں کے رویوں سے تشبیہ دی ہے ۔ یہ حکمران ’’کونسلز آف پیپل‘‘کو شو پیس کی طرح رکھتے تھے لیکن اصل طاقت سامراجی حکومت کے قبضے میں ہوتی تھی اور ظلم و جبرسے رعایا کے غم و غصے کو دبایا جاتا تھا۔
غالباً ہم اس وقت یورپی یونین کے معاملات میں اس نہج تک پہنچ چکے ہیںجہاں شاید یورپی یونین کےمسیحی عقائد سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے اخلاقی دعوؤں کا دفاع کرنا پڑے گالیکن صرف دعوے ہی کافی نہیں ہوتے ۔دانشوروں کی آراء میں تبدیلیاں وزن رکھتی ہیں اورایک ایسے وقت میں ہورہی ہیں جب موجودہ بحران میں پہلے ہی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
جرمن پارلیمنٹ ہاؤس میںمتبادل ڈوئچے لینڈ اب باضابطہ طور پرتمام استحقاق کے ساتھ حزب اختلا ف ہے۔یہ بجٹ کمیٹی کی صدارت کرتا ہے۔ قوی امکان ہے کہ حکمران جماعتیں یورپین پارلیمنٹ کی آئندہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ سے آگے نکل جائیں۔ایک عظیم سوشلسٹ تحریکیں یورزون کی تمام اہم ریاستوں کا تباہ کررہی ہے کیونکہ وہ یورپی یونین کی رائٹ ونگ کریڈٹر اوسٹریٹی پالیسیاں نافذ کرنے والی بن گئیں ہیں یاکیونکہ وہ مزیدبڑے مذہبی تہواروں کے قومی جذبات کو مزید سن نہیں سکتے۔
اقتصادی ترقی کےلیےایک ساتھ کام کرنا پہلے ہی سے تاریخی غلطی لگتی ہے لیکن اس کے باوجود مالیاتی یونین اس قسم کی یونین کے بغیر فعال نہیں رہ سکتی۔
اٹلی میں اب پیچیدہ سامراجی حکومت کو بالاخر ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایک لمحے کیلئے اس غیر معمولی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ روم میں اتحادی بلاک کے اہم رہنماؤں کا تعلق روم سے ہے جو علی الاعلان یورو کو تباہی قرار دے رہے ہیں اور کھلے عام یورپین سینٹرل بینک کو برباد کرنے کےلیے اس ملتی جلتی کرنسی جاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جس چیز کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا وہ یہ کہ اٹلی کی پارلیمنٹ میں اب ماٹیئوسالنیینی کی لیگا اور نیو انارچسٹ فائیواسٹار موومنٹ کا غلبہ ہےاوردونوں نے بجٹ کے قوانین کی صریحا خلاف ورزی کےلیے تجاویز پیش کیں۔
فائیواسٹارموومنٹ شاید برسلز کواپنے ساتھ شامل کریںگےلیکن بنیادی طور پرسالانہ آمدنی کی لاگت 2فیصد جی ڈی پی کرنےکے وعدوں کی خلاف ورزی نہیں کرسکتےاوربرلن کی جانب سےلیبراور پینشن اصلاحات کو ختم کےلیے اپنی مہم کا آغاز کرنے کے وعدوں سے نہیں مکر سکتے۔
ایک ضدی اطالوی حکومت ،جوایمانوئیل میکرون کے اہم منصوبوں کو ختم کرنے کا اشارہ دیتی ہے تاکہ یوری یونین فنانس منسٹر، یورپی مانیٹری فنڈاور جوائنٹ بینک ڈیپازٹ انشورنس ، یورپی یونین بجٹ کےساتھ مالیاتی یونین کو مستحکم کیا جاسکے۔
یہاں تک ا گر اٹلی اپنے گردشی قرضوں کو اپنے کنڑول میں لانے میں ناکام رہتا ہے تواس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ جرمنی بھی مالیاتی یونین کو سپورٹ کرے گا۔
ہالینڈ کی سربراہی میں ’’ Hanseatic League‘‘ 8شمالی اور بالیٹک ریاستوں نے فرانسیسی صدر میکغوں کی جانب سے تمام ریاستوں پر اپنا مذہب تھوپنے کی کوشش کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔یہ ساری ریاستیں صرف اس بات پر زور دے رہی ہیںکہ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ پہلے ملک میں فسکل ہاؤس بنائیںاور موجودہ قانونی معاہدے کی پابندی کریں ۔ ہر ریاست کو کسی بھی قسم کی تبدیلی کو ممکن بنانے سے قبل اپنی ’’فسکل بفر ــ‘‘کو تشکیل دینا ہوگا۔
یہ ایسا ہی ہے جہاں سےیورپ کا آغاز ہوگااور یور وکی اہمیت میں کمی ہوجائے گی کیونکہ آئندہ اس بحران سے نکلنے کےلئے ابھی تک کوئی فسکل مشین ایجاد نہیں کی گئی۔
توقع ہے کہ یورپی یونین حکام کی جانب سے بیل آؤٹ فند(ای ایس ایم)کو محفوظ رکھنےکےلیےقرضے ری اسٹرکچرنگ اور ڈی فیکٹوپروفیشنل کی ضرورت پڑے گی جس کو کوئی بھی اطالوی حکومت قبول نہیں کرسکی۔
یورپین سینٹرل بینک (ای سی بی) کیو ای کے سیاسی اور ٹیکنکل حدود کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ لہٰذااس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اٹلی آئندہ عالمی کساد بازاری کی وجہ سے دیوالیہ ہوجائے گا اور پرانی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو روم دوسری بار جرمنی کو سنگین بجٹ کا مطالبہ پورا نہیں کرئے گا۔ بلکہ و ہ خود اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔
پروفیسر لکھتے ہی کہ یہ 50ویں دہائی میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کالرجیسپر اور جرگن ہابرماس جنہوں نےسربراہی میںریاستوں کے خلاف انقلابی دانش وارنہ حملے کئے تھےاور کامیابی سے یورپ کے اہم ریاستوں پر قبضہ کیا تھا۔
جب دیوار برلن کی تعمیر کی گئی تو ملکی اتحاد نے خود بخودیہ وضاحت پیش کی تھی کہ ’’Wir Sind Ein Volk‘‘کہ ہم لوگ ایک ہیں، جرمنی ایک ہی قوم کا مشرقی اور مغربی حصہ ہےتاہم پیشے کے اعتبار سےمختلف ہیں۔
پروفیسر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ نظریاتی طور پر ممکن ہے کہ یورپی یونین ریاستی خصوصیات کے ساتھ طویل مدت تک ایک سپر نیشن بن سکتا ہے لیکن کیوںآپ اس قسم کی سیاسی قسمت آزمائی کرینگےجبکہ پہلے ہی سےمجرب اور آزمایا ہوا لبرل ڈیموکریٹ حکومتی ماڈل موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب یورپی یونین کامقصد مثالی دنیا نہیں بننا چاہتی تومجھے کہنے دیں کہ یورپی یونین کا معاملہ مکمل طور پر الجھا ہوا ہے۔