• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی معاشی ترقی۔۔۔ متبادل لائحہ عمل

پاکستان میں معاشی ترقی کے لیے جو لا ئحہ عمل اختیار کیا گیا ہے اُ س کے لیے چار نکات کو ہمیشہ مد نظر رکھا گیا ہے اور تمام پالیساں اور بجٹ اور پلان ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیے گئے:

۔1۔ قومی آمدن کی شرح نمو میں اضافہ

۔2۔ بجٹ خسارہ کو کم کرنا

۔3۔ سرمایہ کاری کی شرح نمو میں اضافہ خصو صاً پرائیویٹ اور غیر ملکی سرمایہ کاری

۔4۔تجارت اور ادائیگیوں کے خسارہ کو کم کرنااور” “Foreign Exchange Reserve کو بڑھانا

اس سے پہلے کہ ہم ان اہداف کی کامیا بی ا و ر اس کے ذریعے ترقی کے عمل پر گامزن ہونے پر کوئی تبصرہ کریں ہم پہلے ان چار وں اہداف کے متبادل چار اہداف بھی بتائیں جو کہ عوام کی معاشی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھیں۔۔1۔ معاشی ترقی کے لیے قومی آمدنی کی شرح نمو میں اضافہ کو لازمی شرط(Necessary) سمجھنا لیکن حتمی(Sufficient) ہدف نہ سمجھنا بلکہ قومی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ آمدنی کی منصفانہ تقسیم +شرح بے روزگاری میں کمی ، غربت کی سطح میں کمی ، اور افراط ز میں کمی جیسے ا ہداف کو بھی مد نظر رکھنا۔

۔2۔ معاشی ترقی کو خود انحصاری کا ذریعہ بنانا، خود انحصاری سے مراد خود کفالت نہیں کیونکہ اس دنیا میں موجودہ دور میں خود کفالت ممکن نہیں لیکن خود انحصاری سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی معاشی ترقی کے بارے میں پالیسیاںآزادانہ طور پر اس طرح تشکیل دیں جو کہ ہمارے مفادات میں ہوں اور غیر ملکی اداروں کے تحت قرضوں کے بوجھ تلے دب کر ایسی پالیساں مرتب کریں جو عوام کی معاشی بہتری اور ملک کی سیاسی آزادی کے متصادم ہوں۔

۔3۔ انسانی اور سماجی وسائل کی ترقی کے لیے کوشش کرنا اور ان کو ترقی کے لیے اولین اہمیت دینا اس کے لیے جہاں پر خوراک ۔پانی۔تعلیم اور صحت جیسے وسائل کی ترقی اور بہتری کو دوسرے مسائل سے زیادہ ترجیح دے کر خوراک کی قلت -پانی کی قلت- تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے فقدان اور ابتر صورتحال کو بہتر بنانا۔

۔4۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ اور ملکی سرمایہ کاروں کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے لیکن ہمیشہ یہ مد نظر رکھنا ہو گا کہ ہمارے وسائل کو ہم بہتر طور پر استعمال کریں جو کہ ہمارے معاشی اور سیاسی و سماجی مفاد میں ہو اور ہمارے صوبوں کے درمیان تفاوت و تضاداور عوام کی بہتری کے خلاف نہ ہو۔

اب ہم موجودہ سال کے اعدادو شمار کی روشنی میں اس نقطہ نظر پر بحث کرتے ہیں کہ کیا ہم جن موجودہ پالیسیوں کے ذریعے اپنے اہداف کو جو ہم نے مقرر کیے مستقل طور پر معاشی ترقی کے لیے اور سیاسی استحکام کے لیے حاصل کر سکے۔ IMF نے پاکستان کی معاشی صورت پر 5۔ اپریل2017 بحث کوکرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان کی قومی آمدنی کی شرح نمو 5 فیصد رہی جو کہ اہداف کے مطابق 5.7 فی صد ہونی تھی اور پاکستان کی شرح نمو آئندہ سالوں میں 5 فیصد اور 6 فیصد متوقع ہے اور امید ہے کہ افراط زر کی شرح4.32 فیصد رہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کوآئندہ چند بر سوں میں تین مسائل کا سامنا ہو گا: ایک مالیاتی خسارہ میں اضافہ، دوسرا انرجی کا مسئلہ اور تیسرا External Sectors کے مسائل در پیش رہیں گے۔ 

مالیاتی سال2017 میں مالیاتی خسارہ 4.1 فیصد ہو جائے گاجبکہ موجودہ مالیاتی سال کا خسارہ 3.8 فیصد ہونا چاہیے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ اعتراف کیاموصولیاتی وصولیوں میں ۱۰۰ ملین روپے کی کمی رہی FBR کے مطابق Incentives Growth PRO کی وجہ سے ۱۰۰ ملین روپے کا GAP پیدا ہوا اور ان Incentives Growth PRO میں برآمدات اور زرعی ترقی کے شعبے میں ترغیبات کے لیے پیسہ لگایا گیا ۔IMF کے اسی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو موجودہ مالیاتی سال کی قومی آمدنی کا ۹.۲ فیصد ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ تجارت میں خسارہ ہے جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری درآمدات میں اضافہ ہوا جبکہ ھماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا اور Remittances بھی نہ بڑھیں۔ بیرونی ادائیگیوں اور بیرونی ملک و صولیوں کا فرق قومی پیداوار کے1.5فیصد کے ابتدائی تخمینے سے تقریباًدو گنا ہو جائے گاپاکستان کے ذرمبادلہ کے ذخائر وزیر خزانہ کے مطابق جو کہ اس وقت22 ارب ڈالرہیں جون تک 23 ارب ڈالر ہو جائیں گے ان تمام اعدادو شمار اور اہداف کے حاصل کرنے کے لیے جو بحث ہو رہی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ حکومت ان اعدادو شمار کے ذریعے فی الوقت ترقی کی نوید سنا رہی ہے لیکن رپورٹس تین خطرات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جوکہ انرجی سیکٹر بیرونی ادائیگیوں اور افراط زر کی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قومی آمدنی کی شرح نمو اور بجٹ خسارے کے اہداف سے متعلق ہیں۔

بہرحال اس تمام تر بحث میں عوام کے لیے کیا بہتری کی توقع ہے اور ان کی فلاح و بہبود یا ترقی کے امکانات کیا ہیں ہر ہدف شرح کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

تازہ ترین