چھوہارا مارکیٹ میں دھماکے کے ساتھ گودام کی چھت گرنے سے 13 افراد جن میں زیادہ تعداد غریب خواتین کی تھی دب کر جاں بحق ہوگئے جب کہ نو مزدور زخمی ہوئے جنہیں ضلع کےمختلف اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ آغا قادر داد زرعی مارکیٹ المعروف چھوہارا مارکیٹ کے گوداموں میںسیکڑوںکی تعداد میں مرد ، خواتین و بچے مزدوری کر تے ہیں ۔
زیادہ ترخواتین چھوہارےکے گوداموں میں کام کرتی ہیں ،ان کے ہمراہ چھوٹے بچے بھی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کام اچھی کوالٹی کے چھوہاروں کو علیحدہ کرنا، ان کی بوریوں میں سے گھاس پھونس کےذرات صاف کرناہو تا ہے تاکہ صاف ستھرا چھوہارابیرون ملک برآمدکیا جاسکے۔ جس گودام میں یہ افسو س ناک واقعہ پیش آیا ہے اس میں کم وبیش ساٹھ مزدور جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، کام کر رہے تھے اس گودام کی چھت پر بھی چھوہارے سے بھری ہوئی سیکڑوں بوریاں رکھی ہوئی تھیں جب کہ وہاں بھٹی بھی لگی ہوئی تھی۔
عام طور پر کم کوالٹی کے چھوہاروں کو کمروں میں بند کر کے کیمیکل کی بھاپ دی جاتی ہے تاکہ وہ دیکھنے میں زیادہ بہتر نظر آئیں اور ان کی زیادہ قیمت مل سکے،جوغیر قانونی اقدام ہے ۔ بند کمروں میں کیمیکل کی بھاپ سے دھماکہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔مذکورہ گودام کرپال نامی تاجر کی ملکیت ہے اور اس کو لچھو مل نامی تاجر نے کرائے پر لیا تھا۔ جس ہال کی چھت منہدم ہو ئی ہے اس کی تعمیر بھی ناقص میٹریل سے کی گئی تھی۔
حادثے کےزخمیوں کے بیان کے مطابق حادثہ سے پیشتر دھماکہ سنائی دیا، جس کے بعدہال کی آدھی چھت نیچے گر گئی اس چھت کے نیچے اس وقت عورتوں و بچوں سمیت کم وبیش تیس مزدور کام کر رہے تھے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، چھت کے گرتے ہی آہ بکا کا عالم تھا ، ملبے تلے دبنے والے افراد لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہے تھے۔
عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی کوششیں کیںتاہم ملبہ وزنی ہو نے کی وجہ کامیابی نہیں ہو سکی ۔اس دوران بعض افراد ضلعی انتظامیہ کو ٹیلی فون کے ذریعے اطلاع دی لیکن ہمیشہ کی طرح اس نے لاپروائی کا ثبوت دیا۔ اگرضلعی حکام، ملبہ ہٹانے کے لیےبھاری مشینری بروقت مہیا کر دیتے تواتنا جانی نقصان نہیں ہوتا ۔
زخمیوں اور ہلاک شدگان کی نعشیں سول اسپتال سکھر منتقل کی گئیں۔ ڈپٹی کمشنر سکھر خاصی تاخیر سےجائے حادثہ پراور وہاں امدادی کاموں کی نگرانی کر نے کے بجائے زیادہ وقت میڈیا کو انٹر ویو دیتے نظر آئے ۔اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر، گودام کا مالک اور دیگر عملہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
جاں بحق ہو نے والے مزدوریومیہ اجرت پرکام کرتے تھے ۔،ہلاک شدگان میں تین سگے بہن بھائی بھی تھے جن کا تعلق جیکب آبادسے بتایا جاتا ہے۔حادثے کے فوری بعد، رینجرز اور فوج کے جوان امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے ملبہ ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے اس اندوہ ناک سانحےحے کاسخت نوٹس لیتے ہوئے کمشنر سکھر کو انکوائری کے احکامات دئیے جب کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے سول اسپتال سکھر میں زخمیوں کی عیادت کی اورحادثےمیں جاں بحق ہو نے والوں کے ورثاء کو حکومت سندھ کی جانب سے دس دس لاکھ روپے جبکہ زخمیوں کے لیے ایک ایک لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔
کمشنر سکھر کی ہدایت پر مختار کار روہڑی نے مذکورہ گودام کو سیل کر دیا۔گودام کرائے پر لینے والا تاجر لچھو مل اپنے عملے کے ساتھ فرار ہے پولیس ملزمان کو تلاش کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایشیاء کی سب سے بڑی چھوہارا منڈی میں مزدوروں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ چھوہارا مارکیٹوں میں غیرقانونی کیمیکل اور بھٹیوں کے استعمال کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے افراد کی جانوں کو ہمہ وقت خطرات لاحق رہتے ہیںاس لیے غیر قانونی کیمیکل کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے اوربھٹیاں ختم کرائی جائیں۔