ٹنڈو باگو سمیت ضلع بدین میں گزشتہ کئی سالوں غیر قانونی طور پر سود پر قرضہ دینے والوں کا نیٹ ورک سر عام کام کررہا ہے۔ ٹنڈو باگو ،تلہار ،گولارچی،ماتلی،اور بدین سمیت ضلع کے دیگر شہروں میںیہ شرم ناک کاروبار کرنے والے درجنوں افراد مو جود ہیں جن کا نیٹ ورک انتہائی مضبوط ہے ۔ یہ افراد ضرورت مند اور نچلے درجے کے ملازمین کو 10 سے 30 فی صد سود پر قرضہ دیتے ہیں۔ مذکورہ افراداپنے مقرر کردہ ایجنٹوں کی معرفت منظم انداز سے اپناسودی نیٹ ورک چلا رہے ہیں ۔
ان سود خوروں سےعام ضرورت مندشخص اور سرکاری ملازمین دس ہزار سے ایک لاکھ تک کا قرضہ حاصل کرنے کے لئے طلائی زیورات کے علاوہ بنک اکائونٹ کی دستخط شدہ چیک بک ، اے ٹی ایم کارڈ گروی رکھ کر شخصی ضمانت پر قرضہ حاصل کرسکتے ہیں۔ سود خور ہر ماہ سندہ بنک ،نیشنل بنک اور دیگر متعلقہ بنکوں کی برانچ سے قرضہ لینے والے ملازم کا چیک کیش کراتے ہیں یا ہر ماہ کی 30 تاریخ کی رات کو 8 بجے کے بعد مختلف اے ٹی ایمز سے کیش نکال کر قرضے کی قسط یا سود حاصل کرتا ہے،کیوں کہ بنکوں میں بھی ان کے ہم درد موج ود ہوتے ہیں جو سودخوروں کوہر ماہ کی 30 تاریخ کی شام کو مطلع کردیتے ہیں ملازمین کی تنخواہیں ان کے اکائونٹ میں منتقل کی گئی ہیں ۔
حیران کن امر یہ ہے کہ فی چیک پر 200 روپے بینک چارجز بھی وصول کئے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے ہر سود خور ہر ماہ 300 سے 400 چیک کیش کراتا ہے۔ اس نیٹ ورک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں محکمہ بلدیات ،تعلیم ،صحت اور پولیس کے محکمے سمیت دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے چھوٹے درجے کے ملازمین شامل ہیں۔
پولیس کے باوثوق ذرائع کے مطابق، ضلع بدین میں سودی کاروبار کرنے والے سیکڑوں افراد کی فہرستیں تمام تھانوں میں موجود ہیں ، لیکن اس کاروبار کومبینہ طور سے بعض بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے قانون کی موجودگی کے باوجود،پولیس کوئی بھی کارروائی کرنے سےقاصر ہے۔ کچھ عرصے قبل خیر پور میرس ضلع کے ایس ایس پی نے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئےضلع کے تمام سودی کاروبار کرنے والے افراد کی فہرستیں پینا فلیکس بورڈ بنوا کر شہر کے مختلف چوراہوں اور تھانوںمیں آویزاں کرائی ہیں۔
ان کے کے علاوہ دیگر ضلع کے پولیس حکام کی جانب سے ان عناصر کے خلاف کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ چند سال قبل وائس آف جسٹس اینڈ ریلیف ایٹ انڈس ویلی تنظیم کی جانب گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ،چیئرمین سیٹرل بورڈ آف ریونیو ،ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل، کراچی ، نیشنل بینک اور دیگر کمرشل بینک اور ایس ایس پی بدین کو اس منظم نیٹ ورک چلانے والوں کے متعلق آگاہ کیا تھا ، تاہم آج تک اس غیر قانونی کاروبارچلانے والوں کے خلا ف ایکشن نہیں لیا گیاجب کہ سند ھ اسمبلی نے چند ماہ قبل، اس مذموم کاروبار کو غیر قانونی قرار دے کر اس کےخلاف قانون سازی کی تھی جس کے تحت سود ی کاروبارکو قابل سزاجرم قرار دیا گیا یہ کاروبار کرنے والوں کے خلاف سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس پر اب عمل درآمد کرانے کےلیےاب تک کوئی بھی لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاسکا۔یہ افراد کسی مہینے قسط نہ پہنچنے پر قرض داروں کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے گھر جاکر انہیں ذہنی اذیت دیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم کے دو ملازمین نےملکانی شریف میں سودی کاروبار کرنے والوں کے مبینہ مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال کی تاہم نشان دہی کے باوجود اس مافیا کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیاگیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل بنائے جس کے تحت ضرورت مند افراد اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوکر سودی مافیا کے ہتھے نہ چڑھیں، انہیں آسان شرائط پر سرکاری سطح پر قرضے فراہم کیے جائیں اور سودی کار وبار جو اسلام کی رو سے بھی حرام قرار دیا گیا ہے، اس پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔