• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ کھجور منڈی

گزشتہ ہفتےسکھر کی کھجور مارکیٹ کے گودام میں چھوہارا سکھانے کے لئے غیر قانونی طور پر قائم کی جانے والی بھٹی نے 13 قیمتی زندگیوں کے چراغ گل کردئیے۔ سکھر میں واقع ملک کی سب سے بڑی کھجور منڈی آغا قادر داد کھجور مارکیٹ میں کام کرنے والے محنت کشوں پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب مارکیٹ میں واقع ایک گودام کی چھت اچانک زور دار دھماکے سےزمیں بوس ہوگئی،جس کےملبے میں دبے کر،وہاںکام کرنے والے13محنت کش اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 

جاں بحق ہونے والوں میں 50 سالہ مسماۃ بشیراں، 25 سالہ مسماۃ لال بائی، مسماۃ روزن، مسماۃ مختیار، 35 سالہ بہادر، وحید، 14 سالہ لالو، 15 سالہ صنم، 12 سالہ نامعلوم بچی، 16 سالہ نامعلوم لڑکی اور 14 سالہ نامعلوم لڑکا و دیگر شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں سے 3افراد کا تعلق جیکب آباد، 3کا کندھ کوٹ، 3کاسکھر کے علاقے غلام بند، ایک کا گھوٹکی اور ایک کا کشمور سے بتایا جارہا ہے۔ 

حادثے کی اطلاع ملتے ہی پاک فوج کے جوان، رینجرز و پولیس اہل کار اور ایدھی رضا کاروں کی بڑی تعداد نےجائے وقوعہ پہنچ کر متاثرین کو ملبے سے نکال کر اسپتالوں میں منتقل کیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے امدادی کاموں میںہاتھ بٹایا اور ہیوی مشینری کے ذریعے ملبہ ہٹا کرہلاک و زخمی افراد کو نکالا گیا۔

باوثوق ذرائع کے مطابق چھت پر ضرورت سے زیادہ وزن، چھوہارے دھونے کے لئے کیمیکل کا استعمال اور بوائلر کا دھماکہ، چھت گرنے کی وجوہات بتائی گئی ہیں۔ حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے ، تحقیقات کے بعد ہی تمام تر حقائق سامنے آسکیں گے ۔ ایس ایس پی سکھرامجد شیخ کی ہدایت پر پولیس کی جانب سےمقدمہ نمبر 44/2018 روہڑی تھانے میں درج کیا گیا ہے۔ ایس ایچ او روہڑی مشتاق احمد جتوئی کی مدعیت میں 15 افراد کوایف آئی آرمیں نام زد کیا گیا ہے،جس میں گودام کے مالک کرپال لال، ٹھیکیدار لکشمن لال، گودام کے منشی محمد عثمان، کھجور مارکیٹ یونین کے صدر دیدار جتوئی، جنرل سیکریٹری تھیمو مل، اجیت کمار، پامر لال، سخاوت رائے، رمیش لال، حاجی عبدالکریم، سندھ اسمال انڈسٹریز کے ڈائریکٹر علائو الدین جونیجو، سندھ کنٹرول بلڈنگ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر روشن علی کٹپر سمیت 3ملازمین شامل ہیں۔مقدمے میں قتل، دہشت گردی، ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے سمیت دیگر دفعات شامل کرکے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ 

سانحہ کھجور منڈی

ایف آئی آر کے متن کے مطابق، مذکورہ گودام جس کا اصل مالک سیٹھ کرپال لال ہے اس نے اسے سیٹھ لچھمن داس کو کرایہ پر دے رکھا ہے، جس کی چھت پر غیر قانونی طور پر کیمیکل کے بوائلر سے چھوہارا بنایا جارہا تھا کہ بوائلر دھماکے سے پھٹ گیا، جس کے باعث گودام کی چھت جو کہ غیر معیاری، کمزور تھی نیچے گر نے سے اتنا بڑا جانی نقصان ہوا۔

کمشنر سکھر ڈویژن ڈاکٹر محمد عثمان چاچڑ کا اس حادثے کے بارے میں کہناہے کہ انتظامیہ کی جانب سےمذکورہ گودام کو سیل کردیا گیا تھا۔ اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ دوبارہ یہ گودام کس کے احکامات پر کھولا گیا؟ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس اندوہ ناک حادثے کا ہر پہلو سے جائزہ لیاجارہا ہے اور تحقیقات کی جائے گی گودام کی تعمیر میں بلڈنگ قوانین کا خیال رکھا گیا تھا یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکھر کے مختلف گوداموں میںکھجور کو سکھاکر چھوہارا بنانے کیلئے غیر قانونی بھٹیوں کے قیام اور کیمیکل کے استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے ماتحت افسران کو ضروری کارروائی کرنے کے لئے ہدایات دی گئی ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سندھ اسمال انڈسٹریز اور لیبر ڈپارٹمنٹ سمیت متعلقہ اداروں کے ذمہ داران نے آخر گودام مالک کومخدوش عمارت پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ اگر ان محکموں کے افسران اپنی ذمہ داری نبھاتے اور غیر معیاری و ناقص مٹیریل سے تعمیرہونے والےگودام میں ناجائز طور سے بھٹی قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے توایک درجن سے زائد قیمتی جانیں ضائع نہیں ہوتیں۔اب بھی اگر مذکورہ محکموں کے افسران اپنے فرائض، ایمان داری کے ساتھ انجام دیں تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔

سانحہ کھجور منڈی

حادثے کا شکار ہونے والےگودام کی چھت غیر معیاری اور ناقص مٹیریل سے بنی ہوئی تھی ۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سندھ اسمال انڈسٹریز، کھجور مارکیٹ کے عہدیداران، لیبر ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے اپنے مفاد کی خاطر گودام مالکان سے ملی بھگت کر کے ناقص گودام جوکہ مکمل طور پر ناکارہ تھا، اسے سیل ہونے کے باوجود کھولنے کی اجازت دی جس کے باعث یہ افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔

واضح رہے کہ سکھر کی کھجور مارکیٹ ملک کی سب سے بڑی کھجور منڈی ہے، جہاں روزانہ کروڑوں روپے کی کھجور اور چھوہارے سمیت دیگر اجناس کا کاروبار ہوتا ہے۔اس کی بڑی دکانوں اور گوداموں میں محنت کش یومیہ اجرت کی بنیاد پر کھجور اور چھوہارے کی چھانٹی ، دھلائی، پکانے کاکام کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق کھجور مارکیٹ میں کم و بیش 300کے قریب دکانیں اور گودام ہیں، جہاں8سے 10ہزار محنت کش خدمات انجام دیتے ہیں۔ 

اس منڈی میں نہ صرف سکھر بلکہ سندھ کے دیگر اضلاع اورملک کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگ اپنے اہل خانہ کے ہم راہ یہاںروزی کمانے کے لیےآتے ہیں، کھجور مارکیٹ میں غیر قانونی بھٹیوں کی موجودگی کے انکشاف کے بعد ضلعی انتظامیہ ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے متحرک ہوگئی ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین