انجینئرنگ کا تعلق خالصتاً سائنس سے ہے اور اس میں حساب کو خاص دخل ہوتا ہے اور میں تو پہلے ہی یہ اقرار کرلوں کہ میں ان دونوں میں کورا ہوں۔ حساب میں 2جمع 2پانچ کیسے ہو جاتے ہیں؟ اس بار ےمیں تو مجھے بالکل کچھ نہیں معلوم۔ ظاہر ہے جس انجینئرنگ اور سائنس کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ پولیٹکل سائنس ہے اور اس میں 2جمع 2کو پانچ بنانے کاگر سیکھنا ازحد ضروری ہے۔ آج کل جو آپ دیکھ رہے ہیں تو اس سے یقیناً سمجھ میں آ رہا ہوگا کہ 2جمع 2 کو پانچ کون کرسکتا ہے۔
جہاں تک نواز شریف و دیگر سیاسی رہبروں یا جماعتوں کا تعلق ہے تو وہ جو منو بھائی نے کسی زمانے میں مشہور انڈین گانے کا ذکر کیا تھا کہ ’’میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں۔ ذرا ٹھہرو سجن مجبوریاں ہیں۔‘‘ تو نئے نئے آزاد ہوئے یا آزاد ہونے کے قریب اوربقول سہیل وڑائچ ’’قبیلہ مفتوحہ ‘‘ میں اضافہ کرنے والے بمثل ان نو نو چوڑیوں کے ہیں کہ جو نواز شریف ہی کو نہیں عمران اور زرداری کو بھی بتا رہے ہیں کہ اب مجبوریاں کیا کیا ہیں۔ سہیل وڑائچ نے ’’مفتوحہ‘‘ کی جو تعداد لکھی اس دن سے لے کر آج تک ان ’’مفتوحہ ‘‘ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رضا ہراج نے تو بہت دن پہلے ہی بتا دیا تھاکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سبھی اپنے جھنڈے سے ’’ن‘‘ لیگ کا ڈنڈا نکال کر اپنے جھنڈے میں ’’اُن‘‘ کا ڈنڈا ڈالنے والے ہیں۔ یہ ’’اُن‘‘ وہی ہیں جن کے بارے میں حافظ حسین احمد نے فرمایا تھا کہ طاہر القادری کے جھنڈے میں ’’اُن‘‘ کا ڈنڈا ہے۔ لیکن ہم نے جیسے پہلے بھی ایک بار ذکر کیاکہ اس وقت پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں کہ جو ’’اُن‘‘ کے ڈنڈے کو اپنے جھنڈے میں ڈالے بغیر بنی ہو۔ نواز شریف کے جھنڈے کا تو آغاز ہی اس سے ہوا۔ نہ جناب غلام جیلانی کی نظر کرم ان پر پڑتی اور نہ ہی نواز شریف سیاست کاآغاز کرتے۔ باقی کہانی سب کو معلوم ہے کہ کب اورکیوں انہوں نے اپنے جھنڈے سے ’’اُن‘‘ کا ڈنڈا نکال کر اس میںاپنی انا کی ہوا بھری اور سمجھے کہ سب کچھ انہی کے تابع ہو گیا۔ اب اُن کے لئے صرف اور صرف گمنامی اور بدنامی رہ گئی ہے۔ جماعت اسلامی ہو، ایم ایم اے، یا آج کی پی پی پی سب ہی اس ’’اُن‘‘ کے ڈنڈے کے تابع ہیں۔ اگر نہیں ہوں گے تو ’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘‘ کے مصداق صادق سنجرانی ملے، وزیراعلیٰ بلوچستان بزنجو ملے اور پھر قافلہ بنتا گیا اور بھی کئی ملنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اب ان کی ’’ہمدردیوں‘‘ پر ہی غور کرلیں۔ زاہد حامد مشرف کے دور میں وزیر قانون تھے لیکن پھر نواز شریف کے دور میں بھی وزیر قانون بن گئے۔ ان کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہوں گی؟ ان ہی کی طرح ماروی میمن مشرف کے دور میں مشرف کے حق میں بڑھ چڑھ کر تقریریں کرتی تھیں پھر نواز شریف کے ساتھ شامل ہو گئیں اور اب جنوبی پنجاب صوبہ کے داعی خسرو بختیار کا بھی ذکر کرلیں جنہیں الیکشن سےذرا قبل یاد آیا کہ جنوبی پنجاب کے نام کی بھی تحریک چلانی چاہئے۔ سب اگر ’’اُن‘‘ کے لئے نہیں ہو رہا تو پھر کن کے لئے ہو رہا ہے۔ ان جنوبی پنجاب والوں کی ہی بدولت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’مفتوحوں‘‘ میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے اور جو سہیل وڑائچ نے ذکر کیا کہ ان سب کی تعداد سو کے قریب ہو جائے گی، تو لگتا یہی ہے کہ شاید یہ تعداد اس سے بھی بڑھ جائے۔ اب اگر اس کے بعد یہ کیس ، جس کے بننے کے آثار نظر آ رہے ہیں کہ جس شخص کو عدالت نے ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دے دیا اس کے نام کی پارٹی نہیں بن سکتی تو پھر ایک نئی پارٹی بنانا پڑےگی جو شاید مسلم لیگ ’’ش‘‘ ہو۔ اس میں سے کتنے لوگ ٹوٹ کر شامل ہوں گے،اس کا اندازہ بھی اگلے چند دن میں ہوجائے گا اور پھر جو شہباز شریف کے نام کے بھی کئی کیسز زیرسماعت ہیں تو ایک تلوار تو ان کے سر پہ بھی لٹک رہی ہے۔
ایسی ہی تلواریں عمران خان کے سر پر بھی بنی گالہ کی ناجائز کنسٹرکشن اور پھر ٹرین وائٹ کے مسئلہ کے حوالے سے ہمیشہ لٹکتی رہیں گی۔ ’’ایک سو بیماری ‘ ‘ کے حوالے سے تو کئی کیسز کھلے ہیں تو پھر ان تینوں کی کوششیں ہیں کہ ’’اُن‘‘ کی خوشنودی حاصل کی جائے، ہما کس کے سر پر بیٹھے گا۔ یہی سوال سب کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہوگا۔
آیئے علی اکبر عباس کی ایک غزل پڑھتے ہیں شاید کچھ سمجھ میں آجائے۔
ہوا کو حکم دیا جا رہا ہے رخ بدلے
کہ مرغ بادِنما اک طرف رکا ہی رہے
عصا بدست، ستارہ بدوش شام ہے
کسے مجال ہے جو ان کا ہاتھ روک سکے
’’مقام حکم تو خلق خدا کا حق ہی نہیں‘‘
جسے ہے زعم وہ بات کو سمجھے
سلیقہ جس کو نہیں کوئی دل نوازی کا
اسے امیر بنانے کی ضد ہے بڑھ چڑھ کے
کھلاڑی ایک اتارا گیا ہے میداں میں
مقابل ایسے کہ نہ کوئی بھی سامنے آئے
یہ اہتمام مصمم ہے اور بلا کم و کاست
ہر ایک سر جھکے اس انتخاب کے آگے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)