• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عطاءالحق قاسمی

مجھے ہنسنا ہنسانا پسند ہے لیکن کچھ لوگوں کاہنستا دیکھ کر رونے کو دل کرتا ہے۔ ایک صاحب ہیں جو کسی بات پر ہنستے ہیں اور پھر ہنستے چلے جاتے ہیں۔ ان کا مخاطب انتظار کرتا رہتا ہےکہ ان کی ہنسی ختم ہو تو وہ بات کو آگے بڑھائے لیکن ان کے آدھے جملے پر یہ صاحب پھر سے ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اور اتنا ہنستے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے۔

ایک اور صاحب کو میں جانتا ہوں جو قسطوں میں ہنستے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید وہ ہنس چکے ہیں لیکن ایک جھٹکے کی کیفیت کے ساتھ وہ دوبارہ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ مخاطب کی بات جاری رکھنے کے لئے پوچھنا پڑتا ہےکہ بھائی صاحب اگر آپ ہنسنے سے مکمل طور پر فارغ ہو چکے ہوں تو برائے کرم مطلع فرمائیں تاکہ گفتگو کا باقی حصہ بھی پیش خدمت کیا جا سکے۔

ایک صاحب کے ہنسنے رونے کا انداز ایک ہی ہے یعنی وہ جس لے میں روتے ہیں اسی لے میں ہنستے بھی ہیں، پہچان اس لئے بھی مشکل ہو جاتی ہےکہ دونوں صورتوں میں ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے، انہیں کئی دفعہ بے تکلف دوستوں کی محفل قہقہہ میں “رونے“ کی وجہ سے ٹھاپیں پڑ چکی ہیں اور کئی جنازوں میں ہنسنے پر ان کی پٹائی ہو چکی ہے۔ ان کی مظلومیت کا یہ عالم ہےکہ ایسے موقع پر وہ لاکھ وضاحت کریں مگر ان کی سنتا ہی کوئی نہیں ہے۔ایک دوست تو ایسے بھی ہیں جو اپنا بھاڑ سا منہ کھول کر قہقہہ لگاتے ہیں اور یہ قہقہہ ہوتا بھی ہے طویل دورانیے کا۔ 

ان کا منہ اس وقت تک بند ہی نہیں ہوتا جب تک کوئی مچھر یا مکھی ان کے حلق میں نہ چلا جائے۔کچھ لوگ لطیفہ سنانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں ان کے خیال میں پرانے چاول کی طرح پرانا لطیفہ بھی بہت لذیذ ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر ایسا لطیفہ سناتے ہیں ،جس لطیفے کی بھنویں بھی سفید ہو چکی ہوتی ہیں، مہذب سے مہذب شخص کو بھی ایسا لطیفہ پورا سننے کے آخر میں اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دینے کے لئے دل پر پتھر رکھ کر ہنسنے کی اداکاری بھی کرنا پڑتی ہے۔ 

تازہ ترین