• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہناز صدیقی کی یاد میں

دُنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے اسٹیج ڈراموں کے معروف پروڈیوسر،شہناز صدیقی بھی اپنی داستان حیات مکمل کرکے دنیا سے رخصت ہوئے، برسہا برس کا تعلق اور دیرینہ دوستی کا حوالہ قلم انہیں مرحوم لکھنے سے قاصر ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی کی بات ہے، جب شہناز صدیقی سے آرٹس کونسل میں ملاقات ہوئی تھی، وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بہت پرتپاک انداز میں ملے اور اس وقت ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ہماری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی، پھرخبر آئی کہ شہناز بہت علیل ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں ۔ 

کچھ دوستوں نے ان کی اسپتال کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ، تصویر میں وہ بیمار تو نظر آرہے تھے، مگر ایسا محسوس نہیں ہورہا تھا کہ وہ اب دنیا چھوڑنے کی تیاری مکمل کرچکے ہیں ۔ جمعہ کی سہ پہر وہ ملک عدم کو سدھار گئے اور اپنے پیچھے بیوہ، پانچ بیٹیاں، پانچ داماد اور ہزاروں دوستوں کو افسردہ چھوڑ گئے۔ شہناز صدیقی دوستوں کے دوست اور مجلسی آدمی تھے۔ ان کے جان پہچان والوں کی تعداد بھی بہت کثیر تھی۔ لوگ شہناز سے بہت پیار کرتے، یہی وجہ ہے کہ وہ آرٹس کونسل کے الیکشن میں کبھی نہیں ہارے تھے،، جو بھی شہناز صدیقی سے ملتا تھا، تو وہ ان کا گرویدہ ہوجاتاتھا۔ تھیٹر کے حوالے سے شہناز صدیقی کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 

پاکستان اور بالخصوص کراچی میں اسٹیج ڈرامے کے فروغ اور بین الاقوامی سطح پر ڈراموں کے ذریعہ پاکستانی فن کاروں کی پہچان کے حوالے سے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو شہناز صدیقی کا ذکر کیے بغیر مکمل نہ ہوگی۔ یہ اس وقت کا فسانہ ہے، جب کراچی میں اسٹیج ڈراموں کے پاس مفت تقسیم کیے جاتے تھے، ٹکٹ پر ڈرامے دیکھنے کا تصور ہی نہیں تھا۔ شہناز بنیادی طورپر اچھے انسان ہونے کے ساتھ کاروباری شخصیت بھی تھے ، وہ جب پروڈیوسر کی حیثیت سے سامنے آئے تو، ان کی قسمت کام کرگئی۔ 

ابتداء میں وہ قاسم جلالی کی ٹیم کا حصہ بنے۔ آدم جی آڈیٹوریم اُن دنوں اسٹیج ڈراموں کے حوالے سے مشہور تھا، شہناز صدیقی نے بھی ابتداء آدم جی آڈیٹوریم سے کی۔ اسی دور میں ان کا تعلق ہدایت کار سید فرقان حیدر سے ہوگیا، اس وقت عمرشریف، معین اختر، جاوید شیخ، رزاق راجو، شہزاد رضا کے ساتھ مل کر آدم جی آڈیٹوریم میں شاہ کار ڈرامے پیش کیے۔ اُن کے بارے میں ان کے دوستوں بالخصوص ساتھی فن کاروں کا عام تاثر یہ ہے کہ وہ انتہائی پروفیشنل پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے جس فن کار سے جو معاوضہ طے کیا، وہ اسے آخری شو سے قبل ادا کردیتے تھے۔ 

شہناز صدیقی کی یاد میں
قاضی واجد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے

خواہ انہیں اس ڈرامے میں نقصان ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ اسی وجہ سے تمام فن کار ان کے ڈرامے میں کام کرنے میں بہت کنفرٹ محسوس کرتے تھے۔ وہ ساتھی فن کاروں کے ذاتی کاموں کے حل کرانے میں بھی نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ وہ ایک ڈراما پروڈیوسر ہونے کے ساتھ میوزیکل پروگراموں کے آرگنائزر کی حیثیت سے بھی اپنا مقام رکھتے تھے۔ 

انہوں نے متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سالانہ شوز کے علاوہ فن کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت سے میوزیکل شوز بھی آرگنائز کیے، جن میں ایک شام محمد علی کے نام، ایک شام مصطفے قریشی کے نام، ایک شام غلام محی الدین کے نام سمیت بہت سے فن کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے شوز کیے۔ اداکار غلام محی الدین سے ان کی بہت گہری دوستی تھی۔

ان کی وفات کے بعد غلام محی الدین نے لاہور سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں آج اپنے بڑے بھائی، جگری دوست سے محروم ہوگیا ہوں۔ کراچی میں میرے تمام معاملات وہ دیکھتے تھے، مجھے کبھی ان کی ذات سے مایوسی یا تکلیف نہیں ہوئی۔‘‘ عمرشریف کا بھی شہناز صدیقی سے 79سے تعلق تھا ۔ 

عمر شریف کے فنی کیرئیر کی ابتداء تھی کہ انہیں فرقان حیدر اورشہناز صدیقی جیسے ساتھی ملے۔ عمرشریف کا کہنا تھا کہ میں اپنے پائوں میں سوجن ہونے کے باعث جنازے میں شریک نہ ہوسکا، مگر جب سے ان کے جانے کی اطلاع ملی ہے، میری کیفیت بہت عجیب ہے۔ انتہائی جینٹل مین شخصیت کے حامل تھے۔ ویل آرگنائزڈ شخص تھے، جب بھی ملتے بہت ہی تپاک سے ملتا تھے، ہم نے بہت سے ڈرامے ساتھ کیے۔ بڈھا گھر پر ہے، میری جان تھانیدار، ٹارزن معین اختر، وی آئی پی روم، بکرا بلیک، ذرا بچ کے، وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ وہ کبھی کسی دوست سے شکوہ نہیں کرتے تھے۔ 

شہناز صدیقی کی یاد میں
آرٹس کونسل کراچی کی گورننگ باڈی کے ساتھ

اسد جعفری سے بھی ان کی دوستی اچھی تھی، معین اختر کا وہ دل سے احترام کرتے تھے۔ ہر فن کار کے اچھے بُرے وقت کے ساتھی تھے۔ بکرا قسطوں پر 1987 میں عید کے موقع پر ہم نے کیا تھا، جسے اہل کراچی نے بے پناہ پزیرائی دی، جس سے ہمارے حوصلے بھی بلند ہوگئے ،اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اسے وڈیو کے لیے بھی ریکارڈ کیا۔ ڈرامے کی وڈیو بہت پسند کی گئی اور پاکستانی فن کاروں کو گلف، بھارت، امریکا، سعودی عرب، سائوتھ افریقا میں پہچان ہوگئی ، پھرمسلسل عید کے موقع پرہم نے بکرا قسطوں پر کو پارٹ 1، پارٹ 2، پارٹ 3 غرض تمام ڈراموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ 

ایک موقع پر امیتابھ بچن کی فلم شہنشاہ، وی سی آر پرریلیز ہوئی، اسی روز ہمارا ڈراما بکرا قسطوں کا پارٹ ریلیز ہوا، تو شہنشاہ کی جتنی وڈیو کیسٹ فروخت ہوئی تھیں، ہمارے ڈرامے کی وڈیو کیسٹ اس سے زیادہ فروخت ہوئی تھیں۔‘‘ اسی روز ڈرامے کے پروڈیوسر شہناز صدیقی، ہدایت کار فرقان حیدر اور مصنف عمرشریف بھی رینبو سینٹر میں موجود تھے، جس کا راقم الحروف بھی چشم دید گواہ ہے کہ کس طرح شائقین ڈرامے کی وڈیو کیسٹ کو بھارتی فلم پر تر جیح دے رہےتھے۔ شہناز صدیقی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ انہوں نے ہفت روزہ اخبار جہاں میں کالم لکھے،جس کی وجہ سے انہوں نے بہ طور صحافی بھی نام کمایا۔ 

شہناز صدیقی کی یاد میں
پروڈیوسر ظہیر خان کو ایوارڈ دیتے ہوئے

اخبار جہاں کی وجہ سے ان کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے ان کی عاجزی، سینئرز کا احترام اور وہ جو تقاریب میں دیکھتے تھے، کالم میں بلا خوف وخطر من و عن لکھتے تھے ۔ اسی صحافتی دور میں وہ آرٹس کونسل کے ممبر بھی بنے، اس کے بعد انہوں نے بطور رکن گورننگ باڈی کے لیے سالہا سال الیکشن لڑتے رہے اور کام یابی ان کے قدم چومتی رہی۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ بہ طور خازن خدمات انجام دے رہے تھے اور احمد شاہ کی ٹیم کا عرصہ دراز سے حصہ تھے۔ شہناز صدیقی جنہیں ان کے تمام دوست احباب شنے بھائی کہتے تھے ۔ 

امریکا اور یورپ میں پیش کئے جانے والے ڈراموں میں خود بھی اداکاری کی۔ ٹیلی ویژن کے بعض ڈراموں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھاتے رہے، مگر ان کی اصل توجہ ڈراما پروڈکشن کی جانب ہی تھی۔ کہتے ہیں کہ فن کار بہت حساس ہوتے ہیں۔ شہناز صدیقی نے اپنی زندگی کا بہترین وقت جن فن کاروں اورثقافتی و ادبی شخصیات کے ساتھ گزارا تھا، وہ مرحوم کے جنازے میں نظر نہیں آئیں۔ 

کراچی کے نامور فن کاروں کی عدم شرکت نے بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں کہ کیا اس طرح کسی سے محبت کی جاتی ہے، حالاں کہ شنے بھائی ہر کسی کے غمی اور خوشی کے موقع پر بدرجہ اتم موجود ہوتے تھے، جنازے میں صف اول کا کوئی بھی فلم یا ٹیلی ویژن سے وابستہ فن کار موجود نہ تھا، اگر چے کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے مرحوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، مگر اس کا حق دوستی کا قرض ادا ہونے سے رہ جاتاہے۔ 

مرحوم اکثر خود بھی کہاکرتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے، اس عمرمیں بھی اللہ نے کسی کا محتاج نہیں کیا۔ اپنے ہاتھوں پائوں پر سلامت رکھا ہے، رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے اور یہی دُعا ہے کہ اللہ اسی طرح چلتا پھرتا ہی اپنے پاس بلالے، میری 5بیٹیاں ہیں، بیٹا کوئی نہیں ہے، مگر اللہ نے مجھے دامادوں کی صورت میں 5بیٹے عطا کیے ہیں، اس طرح میں بہت ہی خوش قسمت انسان ہوں، میرے داماد بہت ہی سعادت مند ہیں اور بیٹیاں بھی میری بہت خدمت گزار ہیں، اللہ ان سب کو خوش رکھے۔‘‘ ہماری بھی دُعا ہے اللہ تعالی شہناز صدیقی کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین