• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ اقبال اور بچے

سید انوار احمد … حیدرآباد

بچے کی دعا

لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب!

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

پیارے بچو! یقیناً آپ ہر روز صبح سویرے اسکول میں اسمبلی کے دوران بڑے پرجوش انداز میں یہ دعا پڑھتے ہوں گے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خوبصورت دعا کس نے لکھی ہے؟ ہو سکتا ہے کچھ بچوں کو معلوم ہو اور کچھ کو نہیں بہرحال ہم بتائے دیتے ہیں، یہ خوبصورت دعا ہمارے قومی شاعر ، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے آج سے تقریباً ایک صدی قبل آپ جیسے پیارے پیارے بچوں کے لئے لکھی تھی۔ 

اس کے علاوہ انہوں نے بڑے لوگوں کے لئے بھی بے شمار نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کا احساس دلایا اور انہیں سمجھایا کہ مسلسل محنت، ثابت قدمی اور پختہ یقین سے ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔

علامہ اقبال 9/نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین اور اسلامی ذہن کے حامل تھے۔ آپ کو قرآن پاک کی تلاوت کا بڑا شوق تھا۔ صبح سویرے بلاناغہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ان میں جذبہ آزادی کو بیدار کرنا تھا۔

علامہ اقبال کو بچوں سے بڑی محبت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آج کے بچے کل کے معمار ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان کی بہتر انداز میں تربیت کی جائے اور انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ علامہ اقبال نے بچوں میں اچھی اچھی عادتیں پیدا کرنے اور ان کی بہتر تربیت کے لئے نہایت دلچسپ، آسان اور سبق آموز نظمیں لکھیں۔ 

جن میں بچے کی دعا، ہمدردی، مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری، پرندے کی فریاد، بچہ اور جگنو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام نظمیں ان کے پہلے مجموعہ کلام بانگ درا میں شامل ہیں۔ ان نظموں میں بچوں کیلئے خاص نصیحت ہے۔ مثلاً نظم ’’ہمدردی‘‘ کے ذریعے انہوں نے بچوں کو دوسروں سے ہمدردی اور بھلائی کرنے کا درس دیا ہے جبکہ ’’مکڑا اور مکھی‘‘ کی داستان بیان کرکے بچوں کو مکروفریب سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ 

اسی طرح ’’پہاڑ اور گلہری‘‘ کے ذریعے بچوں کو سمجھایا کہ کبھی غرور و تکبر نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی کو اپنے سے کمتر اور ادنیٰ سمجھنا چاہئے۔ ’’پرندے کی فریاد‘‘ سنا کر علامہ اقبال نے بچوں کو آزادی اور غلامی میں واضح فرق کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ آزادی جیسی نعمت کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ 

انہوں نے بچوں کو بتلایا کہ غلامی کی لعنت کو انسان تو انسان حیوان بھی پسند نہیں کرتے۔ ’’ماں کا خواب ہو‘‘ یا ’’بچہ اور جگنو‘‘ یا دیگر نظمیں اُن کی تمام نظموں میں ایک خاص پیغام اور نصیحت پنہاں ہے۔ 

ایک صدی قبل لکھی گئی نظمیں آج بھی اپنے اندر وہی تازگی اور جاذبیت رکھتی ہیں۔ پیارے بچو! اگر آپ معاشرے کا فعال رکن بننا چاہتے ہیں اور زندگی کی طویل شاہراہ پر کامیابی و کامرانی کا علم بلند کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ بھرپور طریقے سے کریں اور ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہوں جن کا ذکر شاعر مشرق نے کیا ہے، تاکہ کل جب آپ کے کاندھوں پر ملک و قوم کی ذمہ داری عائد ہو تو آپ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نباہ سکیں۔

تازہ ترین