تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ (اٹھارہویں قسط) (مقام موسیٰ علیہ السلام کی طرف روانگی) بیت اللحم کے تاریخی شہر سے الوداع ہوکر ہم مقام نبی موسیٰ کی طرف روانہ ہوئے جو بیت المقدس سے تقریباً بیس تیس کلومیٹر دور ہے ۔ اسی روڈ پر دائیں طرف مقام موسٰی اور بائیں طرف چھ سات کلو میٹر دنیا کا سب سے قدیمی شہر اریحا ہے ۔ اس کی بھی قارئین کو سیرکرائیں گے لیکن آج مقام موسی چلتے ہیں ۔مقام موسی جاتے ہوئے چونکہ بیت القدس راستے میں پڑتاتھا اس لیے اسرائیلی فورسز نے وہاں چوکی بنا رکھی ہے۔ سخت تفتیش کی جاتی ہے ۔ اچانک ہمارے سامنے ایک طویل و عریض دیوار نظر آنا شروع ہوگئی ۔یہ ویسٹ بینک دیوارہے جسے فلسطینی علاقوں اور یہودی قابضین کے درمیان جدائی کرنے والی دیوار کہاجاتاہے ۔ اسے بھی قریب سے دیکھا بلکہ اس کے نیچے سے گزرکرہم مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوگئے ، سامنے چیک پوسٹ تھی اور وہاں گاڑیوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی ۔ہمیں سمجھا دیاگیاتھا کہ چیکنگ کے وقت اپنی توجہ باہمی گفت و شنید پرمرکوز رکھیں ، قابض فورسز کی طرف متوجہ ہوں اور نہ اس میں دلچسپی لیں ورنہ تفتیش لمبی ہوجاتی ہے ۔ ہماری باری آنے پر دو کمانڈوز ہماری گاڑی کی طرف بڑھے ،میں اگلی سیٹ پر تھا ،دروازہ کھولنے کاکہاگیا ، میں نے آٹھ دس پاسپورٹ پکڑ رکھے تھے ۔ ایک فوجی اندر داخل ہوا۔ میں نے اسے کچھ پوچھنے کا موقع ہی نہ دیا اور بتایاکہ ہم برطانیہ سے ہیں اور سیر وسیاحت کیلئے آئے ہیں ، اس نے پوچھا سبھی ؟ کہاگیاہاں سبھی۔ اس نے ایک پاسپورٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھااور واپس پکڑادیا۔اس کارویہ عام فوجیوں سے ذرا مختلف نظر آیا میں نے بات بڑھانے کی خاطر ایک دو باتیں پوچھیں کہ یہاں سے Dead Seeeاور Greco ڈیڈ سی اور جریکو( بحر لوط اور اریحا) کتنی دور ہے اورکیاہم شام تک وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس نے جواب دیا کوئی زیادہ دور نہیں بیس سے تیس کلو میٹر ہے، آگے نشیب میں احتیاط سے اترنا۔ بہت خطرناک راستہ ہے ، میں نے سوچایہ راستہ اتناخطرناک نہیں جتنا تم قابضین و غاصبین نے بنایا رکھا ہے ۔لیکن دل نے یہ بات اتنی آہستگی سے کہی کہ شاید دل خود بھی نہیں سن سکاتھا، تبھی تو غاصب فوجی نے جانے کااشارہ کردیا اس بات چیت کے باوجود اس کے چہرے پر کرختگی تھی ، ہائے وائے کے باوجودذراسی بھی رونق نہیں تھی، اگرگورا ہوتا تو سب سے پہلے ہیلو ہائے کہتا،مسکراتا اور پھر کام کی بات کرتا،۔انگریزوں کی اسی نرم روئی نے انہیں پاپولر بنایا، اور یہودیوں کی سخت مزاجی نے انہیں ساری دنیا سے دھتکار رکھا ہے ، اس فوجی کاچہرہ بالکل سپاٹ اور مسکراہٹ سے عاری تھا میری کوشش کے باوجود اس نے صرف مطلب کی بات کی نہ آتے ہوئے ہیلو کہا،نہ جاتے ہوئے بائے بائے، اور جو مشین گن اس نے اٹھا رکھی تھی، شاید اس کے اپنے وجود سے بھی زیادہ بوجھل تھی ۔یہاں سے گزرنے والے احباب نے جوتفتیشی غراہٹوں کے بارے میں بیان کررکھاتھا ۔اس کے برعکس ہمارے ساتھ معاملہ بالکل مختلف ہوا یہ شاید ان دعاؤں کانتیجہ تھا جو ہم نے اسرائیلی ائرپورٹ پر داخلے کے وقت سے پڑھنا شروع کررکھی تھیں۔ اللہ کے سوا کوئی مولیٰ و وکیل نہیں ہے توکل کرنے والوں کو صرف اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے(وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون)اورشاید یہ وہ واحد نقطہ تفتیش تھا جس سے ہمیں اس سفرمیں گزرنا پڑا ورنہ پورے سفر میں بحمد اللہ خیریت ہی رہی ۔وادی سلوان سے جو راستہ اریحا اور بحرمیت کی طرف اترتاہے ، اتنا ڈھلوان زدہ ہے کہ گاڑی کا ڈرائیور ہی نہیں ہر مسافربھی بریکوں پر پاؤں بڑی سختی سے رکھ لیتا ہے ۔حالانکہ بریک صرف ڈرائیور کے کنٹرول میں ہوتی ہے ۔سڑک بہت تنگ اور اس کے دونوں طرف گنجان آبادی ہے ۔خدانخواستہ کسی گاڑی کا بریک اڑ گیا تو خیر نہیں ، راستہ بلاک ہوجاتاہے، اورلمبی لائن لگ جاتی ہے ۔ جن دنوں برفباری ہوتی ہے ، ڈرائیور حسینی بتارہاتھا کہ ان راستوں کی حالت بہت خطرناک ہوجاتی ہے ۔ایک خاتون ڈرائیورکودیکھا جوبار باراس کیفیت سے گزررہی تھی نہایت ہی خوفزدہ ،لیکن خیریت گزری کہ ہماری گاڑی نے اسے بحفاظت کراس کرلیا۔ بیت المقدس کودائیں طرف چھوڑتے ہوئے ہم یروشلم کو عبور کرآئے تو اچانک ہائی وے پرتھے ، کھلے کھلے ماحول کودیکھ کر جان میں جان پڑگئی ۔ یروشلم اور اس کے اردگردکے پہاڑ اتنے خوبصورت تھے کہ زندگی میں پہلی مرتبہ اس قسم کے تروتازہ اور پر بہارپہاڑ دیکھے تھے ۔انہی کی بابت قرآن کریم نے بارکنا حولہ فرما رکھاہے ۔ہرطرف انگور، خوبانیاں آلوچے اوردیگرپھلوں اورپھولوں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ایک جگہ گاڑی روک کر ہم نے رفقاء کی ضیافت کیلئے دوپیٹیاں فروٹ کی خریدیں۔کافی فاصلے تک گاڑی فراٹے بھرتی رہی ، کئی جگہ سبز رنگ کے سائن بورڈ نظر آرہے تھے جن پر عربی ، انگریزی اور عبرانی میں مقامات کی نشاندھی کی گئی تھی ۔ مقام موسیٰ کی نقشہ گری پھراچانک پہاڑوں کارنگ بدلنا شروع ہوگیا ، پہلے سفید اور قلعی کی آمیزش سے بنے پہاڑ اور اب سرخ مگر حیرت زدہ پہاڑوں کے سلسلہ کاآغاز ہوگیا ۔ایسے پہاڑ جہاں ہریالی نام کو نہیں تھی۔اچانک فلسطینی ڈرائیور نے ایک ذیلی سڑک پر گاڑی موڑ لی جو خاموش پہاڑوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی ایک خوبصورت وسیع وعریض عمارت کے سامنے جاکھڑی ہوئی ۔یہ مقام نبی موسیٰ (علیہ السلام) تھا۔یہ مقام موسیٰ ’’بریۃ القدس ‘‘ کے علاقے میں واقع ہے۔اردگردکے پہاڑ سرخ ہیں ۔اس مقام کامکمل تعارف کرانے پہلے ہم صاحب مقام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بابت کچھ عرض کردیں تاکہ اس مقام کا منظراور پس منظربا آسانی سمجھا جاسکے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوا العزم رسولوں میں سے ہیں، ان کا لقب کلیم اللہ ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا قرآن کریم میں ان کا ذکر 133دفعہ آیا ہے۔تیس سے زیادہ سورتوں میں ان کانام آیا ہے موسیٰ ، فرعون اوربنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سومرتبہ سے زیادہ اشارہ ہوا ہے ۔زبور داؤد میں6دفعہ، انجیل لوقا میں7بار،اور تورات میں متعدد بار ذکر آیاہے ۔ان کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے’’ موسیٰ بن عمران بن یصھربن قابث بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم علیہم السلام یعنی ان کا نسب چھ واسطوں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملتا ہے فرعون مصر کی بمعہ قوم غرقابی کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ صحرائے سینا میں رہے، اسی دوران میں انہیں کوہ طور پر بلا کر تختیوں پہ لکھی ہوئی توریت عطا کی گئی ،اللہ تعالیٰ نے قوم موسیٰ کو ارض مقدسہ بیت المقدس میں داخلے کا حکم دیا لیکن یہ جہاد سے جی چرانے والی قوم خوفزدہ ہوگئی جس سبب سے ان پر سرزمین ارض مقدس میںچالیس سال تک کیلئے داخلہ حرام قراردے دیا گیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی دوران میں علاقہ موآب میں۲۱۔ رمضان کی شب120 سال کی عمرمیں انتقال کرگئے ان کی قبر کثیب احمر (سرخ ٹیلوں کی زمین پر) بڑی شاہراہ پربنی لیکن کسی کومعلوم نہ ہو سکی تاکہ پوجاگاہ نہ بن سکے (عمدۃ القاری للعینی 12/474) شب معراج نبی ﷺ نے انہیں اپنی قبر میں نماز اداکرتے ہوئے دیکھا تھا مسلم2375۔کثیب احمر (سرخ ٹیلوں والی زمین) جبل نیبو والی زمین ہے جو بیت المقدس کے راستے میں آتا ہے ھٰذا الحدیث (المفہم6/192(۔تورات بھی یہی بتاتی ہے سفر تثنیہ5/34۔۹) (ایک نکتہ ۔ کہاجاتاہے کہ توریت موسیٰ پرنازل کردہ ہے ، کوئی شک نہیں ضرور ہے لیکن موجودہ توریت تحریف شدہ ہے کیونکہ اس میں دفن موسیٰ والی عبارت موجود ہے اور قبرموسیٰ کابھی بیان ہے اور ان کی وفات پر تیس دن تک بنی اسرائیل کے گریہ زاری کرنے کا بیان بھی ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ توریت بعدمیں مرتب کی گئی ورنہ قبر موسیٰ کے تذکرے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔) اس تفصیل سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ارض فلسطین میں داخل نہیں ہوئے ، ان کی قبر جبل نیبو کے قریب سرخ ٹیلوں والے پہاڑی راستے پرجوبڑی گزرگاہ تھی اس پہ بنی ہے ۔اور اسے کوئی نہیں جانتا ۔یہ مقام موسیٰ اسی سرزمین میں ہے، جبل نیبو یہاں سے نظر آتاہے اور اس علاقے میں سرخ ٹیلے بھی موجود ہیں اوربیت المقدس بھی یہاں سے دور نہیں ہے ۔ان چند مناسبتوں کی وجہ سے اس جگہ کو پہلے مقام موسیٰ قرار دیا گیا پھر رفتہ رفتہ قبر موسیٰ بن گئی جودراصل ایک تفریحی مقام تھا کیونکہ بیت المقدس کے شہریروشلم کی گلیاں تنگ تنگ سی تھیں جو ابھی تک ویسی ہی ہیں یہاں کوئی ثقافتی میلہ یاتجارتی بازار نہیں سج سکتا تھا مگریہ علاقہ ( مقام موسیٰ) دنیا کے سب سے بڑے قدیمی شہر کے اریحا کے قریب تھا ۔ تجارتی قافلے جو یروشلم اور اس کے گردونواح سے آتے، اور جو لوگ یہاں سے گزر کر مکہ مکرمہ حج کرنے جاتے ، انہیں یہاں ٹھہرنے کی خاطر اور موسم بہار کی آمد پر یہاں رونق و میلہ لگا رہنے خاطر اسے ہی مقام موسیٰ کانام دے دیا گیا اور عقیدت کی چاشنی کی خاطربعد میں قبرموسیٰ کے طورپر مشہور کردیاگیاتاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے احترام میں یہاں آئیں اور رونق میلا لگا رہے ۔چونکہ توریت اور حدیث نبویہ کے مطابق قبر موسیٰ بے نشان کردی گئی تھی۔ورنہ موسیٰ علیہ السلام کا اس مقام سے کوئی تعلق ثابت ہوتاہے ،نہ آپ یہاں تشریف لائے بلکہ اس سے پیچھے پیچھے سرزمین موآب میں کہیں دفن ہوئے تھے چونکہ علاقہ یہی تھا اس لیے اس مقام کوان کی طرف منسوب کر دیا گیا۔واللہ اعلم بالصواب۔اسلام کی آمد کے صدیوں بعد جب سلطان صلاح الدین ایوبی یہاں سے گزرے تو انہیں اس مقام کی اہمیت بتائی گئی ۔اورانہوں نے اسے آباد رکھنے کی خاطر یہاں عمارت بنوا دی جسے چالیس پچاس سال بعد کے خاندان غلاماں کے بادشاہ مصر بیبرس نے مکمل کروایا،پھر جیسے جیسے لوگ بڑھتے گئے اس عمارت کی توسیع ہوتی گئی 1269ء میں یہاں زائرین کیلئے 164حجرے بنائے گئے تھے 1475ء میںمزید حجرے بنے۔ اسی طرح 1820ء عثمانیوں کے دور میں بھی اس میں توسیع کی گئی یہ معلومات اسی قدیمی پتھر سے حاصل ہوئی ہیںجوعمارت کے ایک کونے میں لگایاگیاتھا۔ جس پر لکھاہواہے ’’ تم بناء ھٰذا المقام علی قبر النبی م الذین تکلم مع اللہ سبحانہ و تعالیٰ وھو موسیٰ علیہ السلام بنائً علی امر من جلالۃ السلطان طاہر ابواالفتاح بیبیریس سنۃ668ھجری لقب ابوالفتاح یعنی الفاتح وقد لقب بھٰذا الاسم بعد تحریرہ لفلسطین من ایدی الصلیبین ‘‘ کہ یہ مقام قبر نبی موسیٰ کلیم اللہ کی تکمیل 668ھجری میں عزت مآب سلطان ابوالفتاح بیبیرس کے حکم سے ہوئی ۔ انہیں یہ لقب فلسطین کو عیسائیوں کے ہاتھوں سے آزاد کرنے کی وجہ سے عطا کیا گیا اریحا کاایک خاندان یک خانوادہ فلسطینی از اھالی اریحا بہ عنوان خادمان حرم در ایں مکان خدمت مے کند و عہدہ دار پذیرائی از زوارند ۔اس کے خداموں میں سے ایک خادم ’’ حسن احمد خلیل‘‘ تقریبا تین سو سال پہلے فوت ہوئے تھے ’’ویعرف قبرہ باسم مقام الراعی۔ مقام موسی ٰ سے ایک کلو میٹر دور ان کی قبر پائی جاتی ہے۔مقام موسیٰ کے ایک احاطے میں قبے بھی بنے ہوئے ہیں ایک جگہ زائرین کے رہائشی کمرے درمیان میں جامع مسجد ہے جس کا ایک بڑا منارہ ہے وہاں ایک محراب ہے جس سے قبلہ رخ کا تعین ہوتا ہے وہیں آئمہ مسجد کے رہائشی کواٹر بھی ہیں ۔ مشرقی جانب مردوں کیلئے اور مغربی جانب عورتوں کیلئے مخصوص ہے ۔ مسجد میں داخل ہوں تو دائیں جانب ایک چھوٹا ساکمرہ ہے جس کے وسط میں ایک قبر کی شکل بنائی گئی ہے جس پر سبز غلاف چڑھا ہواہے اور کہاجاتاہے کہ یہ مقام دفن موسیٰ ہے ۔ یہاں آنے والے زائرین کا تذکرہ وزارۃ الاوقاف والشئون الدینیۃ موسسۃ احیاء التراث والبحوث الاسلامیہ بیت المقدس کی جناب سے شائع کردہ تعارفی کتابچے میں ذکر ہے کہ نویں صدی ہجری کے مشہور مصنف علامہ حافظ جلال الدین سیوطی (880ھ /1475)نے اتحاف الاخصاء بفضائل المسجد الاقصیٰ میں اس کاذکر کیاہے ۔کہ لوگ اس جگہ کی زیارت کیلئے آ تے ہیں ، یہاں راتیں گزارتے ہیں ، کافی پیسہ خرچ کرتے ہیں اوریہاں مزدوری کرنے والوں کی موج بنی ہوئی ہے جیساکہ عام قاعدہ ہے ۔(والناس یتحملون المشقۃ الذھاب الیہ مقام النبی موسی علیہ السلام ویبیتون عندہ و مشقۃ الایاب ویبذلون الاموال فی عمل الماکل والمشارب واجرۃ الدواب یفعل ذالک الرجال والنساء من اھل بیت المقدس وغیرھم من والواردین علیہ بقصد الزیارۃ لایخلون بذالک حتی الاٰن )اسی دور کے ایک اورمصنف نجم الدین نے (الدرالنظیم فی اخبار سیدنا موسی الکلیم ) میں مقام موسیٰ کی بابت یہی لکھا( وصار ذالک الموضع ، موضع القبۃ التی انشاؤھا الظاہر بیبرس و عرفت بمقام النبی موسی علیہ السلام علما یقصدہ الزوار والناس )اوراسی طرح ایک اور معروف وقائع نگار جناب مجیرالدین الحنبلی نے’’ الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل‘‘ میں مقام موسیٰ میں ہونے والے اجتماعات کاذکر کیا ہے کہ عصر مملوکی میں حجام کرام حج کیلئے جاتے وقت اور واپس آتے وقت فلسطین میں اسلامی مقدسات کاوزٹ کرنے کیلئے یہاں قیام کرتے تھے۔ کیونکہ بیت المقدس شہرکی گلیاں بہت تنگ ہیں اور عثمانیوں کے دور میں یہ جگہ حدود فلسطین سے باہر شمار ہوتی تھی ،اوریہاں مختلف مواسم کے اجتماعات ہوتے تھے ۔جرمنی سیاح’’ اولریش زیٹسن‘‘ بھی یہاں آیااس نے لکھا کہ مجھے کہاگیاکہ ’’جوتے اتارو‘‘ قبرموسیٰ سبزغلاف میں لپٹی ہوئی تھی ۔ جوایک حجرے کی کھڑکی سے نظر آرہی تھی اور لوگ وہاں کپڑوں کی ٹاکیاں ٹانکتے تھے ۔ جیساکہ قبروں پر حاجات مانگنے والے اس قسم کے کام کرتے ہیں ۔تو اتنے تاریخی مقام’’ مقام موسیٰ ‘‘کے سامنے جب ہماری گاڑی رکی تومقامی دوکاندار نے ہمیں خوش آمدید کہا اوروہاں کے کنویں کاپانی پیش کیا ۔جس کا ذائقہ پہاڑی چشموں کے پانی کا تھا ۔ قریب ہی ایک شخص اونٹ لیے کھڑاتھا کہ اس پر سواری کریں یہ بھی مقامی روایات میں سے ہے ہمارے ایک دوساتھیوں نے اس طرح اس سفر کو انجوائے کیا۔وضو کیلئے ہم طہارت خانے گئے وہاں تعمیری کاموں کی وجہ سے وضو بنانا آسان نہیں تھا جیسے تیسے ہوا ہم نے وضو بنایا اورمسجدمیں جاکرتحیۃ المسجد کے طور پردورکعت اداکیں۔ مسجد کے دائیں جانب ایک بہت بڑاچبوترا غلاف میں لپٹا ہواتھا جسے قبر موسیٰ کا نام دیا گیاہے ، یہ اڑھائی میٹر اونچاہے ۔جس کے اوپر قرآنی آیت کا ٹکڑا{ وکلم اللہ موسی تکلیم} مقام موسی کی مناسبت سے لکھا ہواتھا ۔ ہم نے اس کے دونوں طرف جاکر غلاف اور مقام موسیٰ کی تصاویر بنائیں ۔قبلہ جانب ایک طاق بنا ہوا ہے ، جس میں ایک کافی ضخیم قرآن کریم پڑاہواتھا، قدیمی فن کتابت کا شاہکار نمونہ ،میرے موبائل کی بیٹری کم ہونے کی وجہ سے اہلیہ کے موبائل سے اس کا عکس اتاراگیا لیکن وہ صاف پڑھا نہیں جارہا، آج ( 29/3/2018) کو اسے کئی بار پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ غالباً لکھا ہے کہ مصحف التہجد واللہ اعلم۔ اس سے زیادہ کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔ اتنے میں مسجد کا ایک خادم ہمارے ساتھ ہولیا۔ بتانے لگا یہاں موسیٰ علیہ السلام کا قیام ہواتھا۔ اسی لیے لوگ یہاں کچھ دن حجروں میں رہتے اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔