نوشی گیلانی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ’’ہوا ‘‘میری سہیلی تھی اور میرے رخساروں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر اسم آگہی یاد کراتی ،پھر زرد پھولوں کی بارش سے لے کر گلابی روشنیوں کی بشارت کا سارا سفر میں نے اسی کے پہلو اد رفاقت میں طے کیا۔یہ اور بات ہے کہ اس سفر میں کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوا جیسے میرا دل لمبی پرواز سے تھکی ہاری چڑیا کی مانند دھڑک رہا ہے،پیشانی پر مشقت کے پسینے کے نادیدہ قطرے انگارے بن گئے ہیں،پروں سے طاقت پرواز روٹھ چکی ہے،آسمانوں پر اذن ِسفر کا نقارہ بھی گنگ ہے اور افق ہجرتوں کی طرح سرک کرآندھی کا غبار کی طرح ٹھہر گیا ہے،اس پر تکان کیفیت کے باوجود بھی میں جستجوئے وصال ذات کی ایک شاخ بے نمو پر آن بیٹھی، چند لمحوں کو سہی ،مگر ساری عمر گزار دینے کی خواہش سے لبریز۔ایسے ہی موسم خوش خیال میں سرخروئی کا نشہ وارد ہوتا اور ایسا لگنے لگتا ہےکہ جیسے آج عشق نے پتھر سے نمی مانگ لی،انا کے دریا کا بند ٹوٹ گیا اور محبت کی وادی کے تمام دکھ بہا کے لے گیا ،فلک بوس غرور زمین بو س ہو گیا۔پہاڑ سے آبشار پھوٹ پڑی،شبنم نے الاؤ کو مسخر کر لیا،ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ تیرہ و تار، راتوں کو منور کر گیا۔خوشبو کا جھونکا محبوس جسموں اور دماغوں کو معطر کر گیا،پنچھی قفس میں پھڑپھڑا کر پرسکون ہو گیا،ایک کلی مسکرانے ،کی ابدی جزا پا گئی،ایک زخم شفیق پوروں کی جراحی سے شفا یا ب ہو گیا۔۔۔شاید یہ عالم جنوں تھا یا لمحہ ادراک جو بھی تھا میلے میں اکیلا کر دیتا تھا۔
میلے میں اکیلا تو عشق بھی کر دیتا ہے،اہل عشق، جن کے سینوں کے اندر ہمہ وقت ایک صف ماتم بچھی ہوتی ہے،جہاں آرزوئیں آنکھوں میں آنسو لیے، بال بکھرائے، سینہ کوبی پہ مجبور بین کرتی نظر آتی ہیں اور پھر یہی آزردگی جب حروف و معنی اوڑھ لے تو شاعری کہلاتی ہے مکتب عشق کے صوفیوں کو خبر ہے کہ جو عشق میں دیانتدار نہیں وہ شاعری میں دیانتدار نہیں۔
شاعری جو میرا یقین ہے کئی بار جی چاہتا ہے کہ یقین کی اس پوٹلی کو ہاتھ میں لے کر تنہائی کے جنگل میں جا نکلوں، جہاں وحشی خوشبوؤں کا راج ہو،ہتھیلیوں کی تقدیر بدلتی ہو،آنکھوں کی روشنی بکھیرتی خوشبو۔۔۔۔سینوں کی محصور کرتی خوشبو۔۔۔ہونٹوں کی شعر کہتی خوشبو۔۔۔یہی خوشبو تو ہےجو محسوسات کو پتھر کر دینے والی رزق کی دوڑ میں مگن اس لڑکی کے پیروں میں حرف و معنی کی جھانجھریں ڈال دیتی ہے ،جن کی چھن چھن اسے اس کے ہونے کا احساس دلاتی ہے اور روح مسکرا کر پکار اٹھتی ہے۔یہ جو ہماری روح ہے نا!یہ چاندی کے کٹورے کی مانند ہوتی ہے ،جس میں ذات سے باہر کے تعصبات کی ذرا سی بھی گرد ٹھہر جائے تو وجدان کا سپید میٹھا دودھ گدلا اور بے لذت ہو جاتا ہے۔
بے لذت تو زندگی بھی ہو جاتی ہے جب کہ کچھ طبقات اپنے اور خلق کے ذہن و بدن کے لئے ان دیکھی زنجیروں کا انتظام کرنے میں منہمک رہتے ہیں اور پھر آزادی کی قدرتی تنظیم و توانائی کے لطف کی فضا سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
فضا تو وہ بھی کیسی دل میں اتر جانے والی ہوتی ہے جب سردیوں کی کسی گہری اداس شب میں سنہرے الاؤ کے گرد کوئی دعا جیسی صحرائی آواز محبت کے درد میں ڈوبی پر وقار سچائی کا اہتمام کر رہی ہوتی ہے۔۔۔تب آسمان پر کونجیں گواہی دیتی ہیں کہ انسان کی فطری سرکشی اس کے بدن سے ہجرت کر رہی ہے،انحراف اثبات میں بدل گئے ہیں،سر تسلیم خم ہو چکے ہیں،سجدے نیکیوں کی صورت جبین نیاز پر اتر رہے ہیں۔