• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتابوں کے آنسو نہیں ہوتے

کہتے ہیں کہ آنکھیں تب تک بے نور ہوتی ہیں ،جب تک وہ سپنے نہ دیکھیں ، جب تک دل کی آنکھیں کھلی ہوئی نہ ہوں اور جب تک ہم دماغ کے بند کواڑوں کو کھولنے کی کوشش نہ کریں نہ کچھ اچھا دیکھ سکیں ، نہ کچھ اچھا کر سکیں یا کم ازکم اچھا اور مثبت سوچ ہی نہ سکیں ۔سوچنے کے لئے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے ذہن کی غذا مطالعہ اور غور و فکر ہے ۔

آج کل کے اس سوشل میڈیا کے دور میں ہم یہ حقیقت ہی فراموش کر چکے ہیں کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ کتابیں بھی خواب دکھانے کے کام آتی ہیں ، فرق محض یہ ہے کہ کتابوں میں خواب مجسم نہیں ہوتے۔آنکھیں اور کتابیں دونوں ہی سپنے دیکھتی اور دکھاتی ہیں ، دونوں ہی خوابوں کو پورا کرنے کی سمت پر غور کرتی ہیں ، دونوں خوب صورت ہوتی ہیں، کتابوں سے شعور ملتا ہے اور آنکھوں سے روشنی ، بالکل وہی روشنی جو کتابوں کے مطالعے سے ملتی ہے اور اس روشنی سے ہمارے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔

لیکن دونوں میں بس ایک فرق ہے کہ آنکھیں اپنا درد آنسوئوں سے بتا دیتی ہیں ، اپنے دکھ کی ترجمانی کر دیتی ہیں لیکن نہ پڑھی جانے والی نادر کتابیں اپنا دکھ نہیں بتا سکتیں ، اپنی بے قدری کا اظہار نہیں کر سکتیں کیونکہ کتابوں کے آنسو نہیں ہوتے ۔

(راضیہ سید)

تازہ ترین