• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چچا چھکن کی موبائل بیتیاں

راجا محمد عتیق افسر

موصوف کا اصل نام لقمان ہے۔ عمر اور تجربے کے لحاظ سے انہیں لقمان حکیم مشہور ہونا چاہیے تھا ،مگر اس کے برعکس ان کی ظریفانہ حرکتوں کی بدولت انہیں لوگ چچا چھکن کہہ کر پکارتے ہیں۔ہم نے بھی چچا چھکن کی تصویر ٹانگنے والی کہانی نصاب میں پڑھی تھی جو اب قصہ ٔپارینہ بن چکی ہے۔ اب تو ہمارے چچا چھکن جدید کے قصے ہی زبان زد عام ہیں ۔ اس ڈر سے کہ کہیں یہ قصے بھی وقت کی دھول نہ بن جائیں، ہم انہیں قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر کے قارئین کے لیے لطف کا ساماں کیے دیتے ہیں ۔

چچا چھکن عمر کا بیشتر حصہ گزارکر اپنے تجربات، معلومات،اور فکاہیہ و معصوم حرکتوں کو لیے اکیسویں صدی میں داخل ہوئے جو کمپیوٹر اور موبائل فون جیسی ٹیکنالوجی کے ساتھ شروع ہوئی۔اس ٹیکنالوجی نے نہ صرف ابلاغیات میں ایک انقلاب برپا کیا ہے بلکہ ہماری معاشرت پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ ہماری تہذیب و ثقافت ہی بدل گئی ہے ۔ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی جگہ اب گھنٹوں موبائل فون پہ بات چیت ہو جاتی ہے ، خط کتابت کی جگہ ایس ایم ایس نے لے لی ہے، نیز کیمرہ، ویڈیو، ٹی وی ، گھڑی،جیسی سہولیات بھی اب اسی ایک آلے میں ڈھل چکی ہیں ۔ 

دور جدید کے لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا اور دیگر اپنا معاشقہ اسی آلے کے ذریعے باآسانی انجام دیتے ہیں ۔ موبائل کمپنیوں کے پیکجز کی بدولت اب ہر گلی، ہر محلے میں نوجوان اسی لت میں پڑے نظر آتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ موبائل فون بھی کسی دل جلے نے معاشرے سے انتقام لینے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کے تحت متعارف کرایا ہے۔ غرض ایک انقلاب ہے ،جس نے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔

اکیسویں صدی کے آغاز پہ چچا کے ہا ںٹیلی فون کی سہولت موجود نہ تھی، البتہ ان کے ایک ہمسائے کے ہاں فون لگا تھا ۔ چچا کے رشتہ داروں کو ان کا نمبردے دیا گیا تھا، اگر کبھی کسی رشتے دار کو بات کرنا ہوتی تو پڑوسی کے گھر فون کرتا اور پڑوسی چچا کو بلا لاتے ۔ چچا کو فون پربات کرنے کے کئی مواقع ملے ،مگر وہ اس سے آشنا نہ ہوئے جب بھی بات کرنے لگتے ٹیلیفون کا ریسیور ہمیشہ الٹاپکڑ لیتے اور پھر زور زور سے ہیلو،ہیلو پکارکر سارا محلہ سر پہ اٹھا لیتے ۔ 

ان کی یہ افتاد دیکھ کر صاحب خانہ ان کی داد رسی کرتے اور ریسیور سیدھا کرا دیتے ۔دور جدید کے اس نومولود جن (موبائل فون) نے چچا کو بھی متاثر کیا ، دیگر افراد کی دیکھا دیکھی انہیں بھی موبائل فون خریدنے کا اشتیاق ہوا ۔چچی کی جمع پونجی سے ایک اینٹ کی شکل کا موبائل خرید لائے اور لاتے ہی گھر بھر میں اس کی نمائش شروع ہو گئی ۔

چچا نے اسے کئی بار نیچے گرا کر اس کی مضبوطی کی پڑتال بھی کی۔سب اس نئے مہمان کی آمد سے بہت خوش تھے۔ہر فرد کی گردن ایسے اکڑی ہوئی تھی ،جیسے اس میں لوہا آگیا ہو۔ چچا چچی اور دیگر اہل خانہ بات کرتے رہے اور اپنے رشتہ داروں کو مس کال کرتے رہے ،کسی کو خالی ایس ایم ایس بھیجتے رہے اور یوںایک ہی دن میں بیلنس ختم ہو گیا ۔ فورا بیلنس ڈلوانے پی سی او گئے اور دکاندار سے بیلنس کارڈ طلب کیا۔ 

دکاندار نے 200روپے مالیت کا کارڈ پیش کیا تو چچا نے عالم حیرت میں دکاندار سے استفسار کیا ” ارے میاں یہ وہی کارڈ ہے ناں جو موبائل میں ڈالا جاتا ہے ؟” دکاندار نے اثبات میں جواب دیا تو تشفی نہ ہوئی اور دوبارہ وہی سوال کیا ۔ دوکاندار نے دوبارہ یقین دلایا تو چچا نے بادل نخواستہ یقین کر ہی لیا۔اس موقع پر میاں فصیحت بھی وہیں موجود تھے، چچا کو مضطرب دیکھ کر ان کے قریب آئے ۔ بعد از سلام انہیں موبائل فون خریدنے پہ مبارکباد دی ۔ چچا سے پریشانی کی وجہ دریافت کی تو چچا نے کہا” ارے میاں موبائل میں پیسے ختم ہو گئے ہیں، میں نے یہ کارڈ خریدا ہے لیکن یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی کارڈ ہے “۔ 

میاں فصیحت کی یقین دہانی پہ انہوں نے سوال داغ دیا ارے میاں اگر یہ مطلوبہ کارڈ ہے تو پھر یہ موبائل میں کیو ںکر ڈلے گا ،یہ کارڈ تو اتنا بڑا ہے اور موبائل چھوٹا ؟ارد گرد سننے والوں پر تو گویا ہنسی کا دورہ پڑگیا، البتہ میاں فصیحت نے بڑی مشکل سے خود پرقابو پایا ۔ چچا کو جیب سے سکہ نکالنے کو کہا اور سکے کی مدد سے کارڈ کھرچ کر بیلنس ڈالنے کی مفت تربیت فراہم کی ۔تربیت مکمل ہوتے ہی چچا نے گھر کی راہ لی۔

چچا نے سوچا کہ موبائل فون کی یہ متاع انتہائی قیمتی ہے، لہذا اس کی حفاظت کا بندوبست ہونا چاہیے۔گھر سے باہرنکلتے تو اسے انسانی چشم بد سے محفوظ رکھنے کے لیے چچا کے تینوںصاحبزادے گارڈ کی صورت چچا کے ہمراہ رہتے ، موبائل فون ،چوںکہ برآمد کیے جاتے تھے، اس لیے ہمارے ملک کی آلودہ آب و ہوا کو اس کے لیے مضر تصور کیا گیا ۔ فون کو گرد وغبار اور آلودگی سے بچانے کی غرض سے موبائل کو ایک رنگین رومال میں لپیٹا گیا اور کپڑے کے خود ساختہ دستی بستے میں ڈال دیا گیا، جو سر کی جانب ڈوری سے بند ہوتی تھی ۔ 

اس دستی بستے کی تیاری میں چچی اور ان کی صاحبزادیوں نے خوب مغز کھپایا تھا ۔ یہ دستی بیگ اہل محلہ میں بے حد مشہور ہوا اُن کے ہاں تو وجہ شہرت طنزیہ تھی، مگر چچا کے اہل خانہ کے اس خیال کو کاروباری دنیا میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ آپ اگرعطر فروش کے ہاں جائیںاور اچھا سا عطر خریدیں تو آپ کو اسی طرح کے خوشنما چھپائی والے بیگ میںپیک کر کے پیش کیا جائے گا۔ 

بہر حال اہل محلہ چچا کی اس ایجاد کی قدروقیمت سے ناآشنا تھے ۔ ایک دن چچا اسی آفت کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چل دیے ۔ دوران نماز فون کی گھنٹی بجنے لگی اب چچا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کیا جائے ۔ موبائل سات پردوں میں چھپا ہوا تھا اور مسلسل بج رہا تھا ۔ بعد از نماز تمام نمازیوں نے بشمول امام صاحب ان کی خوب خبر لی۔کسی نے چچا کی سلیقہ شعاری دیکھی تو اس سے رہا نہ گیا ۔ اس نے چچا کو شفاف پلاسٹکی غلاف (Transparent Plastic Cover)چڑھانے کا مشورہ دیا جو بازار میں مناسب نرخ پہ دستیاب تھا۔ 

اس نے اپنا کور چڑھا موبائل چچا کو دکھایا تو چچا کے من کو یہ بات بہت ہی بھائی ، اس کے نتیجے میں انہیں تھیلی اور رومال میں لپٹا موبائل باربار کھولنے کی زحمت سے چھٹکارہ جو مل رہا تھا۔ چچا نے فوراً کور چڑھایا اور گھر کی راہ لی ۔ راستے میں کسی رشتے دار کا فون آیا تو چچا نے بات کرنا چاہی، مگر فون سے آواز برآمد نہیں ہو رہی تھی ۔ چچا بہت پریشان تھے کہ اس بار پھر میاں فصیحت ان کے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئے ۔ میاں صاحب نے فون کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ موبائل فون کے سپیکر کی جگہ پربنے چھید کو کرید کر کور سے جدا ہی نہیں کیا گیا تھا۔ میاں فصیحت نےا سپیکر کی جگہ سے پلاسٹک کو کریدا تو آواز بحال ہو گئی ۔

رفتہ رفتہ چچا اور ان کے اہل خانہ موبائل فون کے تمام ہی ناز و انداز سے آگاہ ہو گئے اور یہ سب بھی ماضی قریب کا حصہ بن گیا۔ چچا کے اہل خانہ میں اضافہ بھی ہو گیا اور ان کے ہر فرد کے ہاتھ میں جدید قسم کا موبائل آگیا۔ چچا کے ہردلعزیز بیٹے دلنواز کی شادی بھی ہو گئی اور اولاد نرینہ سے بھی مالامال ہو گیا۔ ان ہی دنوں ٹچ ا سکرین والا موبائل منظر عام پہ آیا ۔دلنوازکا بھی ایک فون پہ دل آگیا اور اسے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔لیکن اس کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے فوری خریدا نہیں جا سکتا تھا ۔ اس نے چچا سے مشورہ کیا ۔ چچا نے سوچ بچار کے بعد ایک حل تلاش کیا ۔ 

وزیراعظم نے حاتم طائی کی قبر پہ لات مار کر نوجوانوں کے لیے چھوٹے قرضے دینے کا اعلان کر رکھا تھا، انہوں نے سوچا کیوں نہ قرضے کے لیے درخواست دی جائے قرض ملنے پہ موبائل لے لیں گے بعد میں قرضی معاف کرا لیں گے ۔ سادہ لوح چچا کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس طرح کا قرضہ غریب لوگوں کو کہاں ملتا ہے ؟وہ دلنوازکو لیے بینکوں کے چکر لگاتے رہے، مگر سعی لا حاصل ۔ مناسب منصوبہ ظاہر نہ کرنے کہ وجہ سے ان کی درخواست داخل دفتر کر دی گئی ۔ 

اس سے د ل گرفتہ ہو کر دلنواز اور چچا نے مشورہ کیا اور مطلوبہ موبائل سیٹ خریدنے کے لیے گھر کے ماہانہ بجٹ پہ غور و غوص شروع کر دیا۔ آخر کا ر فیصلہ ہوا کہ ٹماٹر، گھی اور دیگر غیر ضروری اشیائے خوردنی کے بجٹ اور مرغن غذاؤں میں کمی کی جائے ۔ اس فیصلے پہ گھر کی خواتین نے خوب احتجاج کیا ،مگر چچا نے مذاکرات کے ذریعے حالات کو قابو کرلیا۔پراٹھوں اور مرغن غذاؤں پہ پابندی کے باعث اتنی بچت تو نہ ہوئی، البتہ دوستوں سے ادھار لے کر دلنواز نیا سیٹ لینے میں کامیاب ہو ہی گیا ۔ چچا کے اہل خانہ نے اس موبائل فون کا بھی بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ 

رات بھر گھر پہ محفل کا سماں تھا ،سب باری باری موبائل کی اسکرین پہ مخصوس انداز سے مَس کر رہے تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے سب کے سب موبائل میں سے سیدھی انگلی کے ساتھ گھی نکالنے کا فن جان گئے ہیں، جو ان روزمرہ کی غذاؤں سے بچت کی غرض سے کم کر دیا گیا تھا ۔ موبائل فون میں ایک رنگ ٹون ایسی بھی تھی جو بچے کے رونے کی آواز پہ مشتمل تھی، یہ ٹون سب کو بے حد پسند آئی سب اسے بار بار سنتے اور ہنسی مذاق کرتے تھے ۔رات تاریک ہوئی تو صحن میں ہی سب لوگ سو گئے ۔ 

دلنواز بھی موبائل چارج پر لگا کے سو رہا ۔ فجر کے قریب دلنواز کا بیٹا چارپائی سے گر پڑا اور رونے لگا ۔ شور سن کر ہر ایک نے دل نواز کو آواز دی کہ اس وقت موبائل بند کرو اور ہمیں سونے دو ۔دلنواز بھی بڑبڑایا کہ کسی نے میرے موبائل پہ بچے والی ٹون کا الارم کیوں لگا دیا اور ٹٹول کر موبائل فون بند کرنے لگا ،اس وقت اس پہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ یہ الارم موبائل فون کا نہیں بلکہ ا س کے فرزند، ارجمند کی آواز ہے جو انہوں نے اپنا درد سنانے کے لیے بلند کی ہے ۔چچاچھکن کی ظریفانہ طبیعت ان کے وارث میں منتقل ہو چکی ہیں۔

اب یہ معلوم ہوا ہے کہ صرف جاگیر ، سیاست اور شرافت ہی وراثت میں نہیں ملا کرتیں بلکہ ظرافت پر بھی موروثیت کا عمل دخل بدرجہ اتم موجود ہے ۔ دور خواہ کوئی بھی ہو ،اس میں چچا چھکن موجود ہونا چاہیں،کیونکہ ان کی وجہ سے ہر طرف مسکراہٹیں بکھرجاتی ہیں ۔ یہی لوگ تو زندگی کی علامت ہیں کیونکہ زندگی تو فی الحقیقت وہی ہے جو ہنس مکھ رہ کر گزاری جائے۔ لوگوں کو ہنساتے رہنے کی بھاری ذمہ داری دلنواز کے کندھوں پہ ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اگلی نسل کے لوگوں کو کس حد تک کھلکھلا سکتا ہے ۔

تازہ ترین