کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ میں خود واپسی کا فیصلہ نہیں کرسکتا، ڈاکٹرز کی ایڈوائس پر فیصلہ ہوگا، دل چاہتا ہے جتنی جلدی ہوسکے پاکستان واپس آؤں، کسی شخص کے ہاتھ میں اس کی صحت نہیں ہوتی ہے، مجھے صحت کے دو بڑے مسائل کا سامنا ہے، ایک دل کا مسئلہ ہے جو پہلے نہیں تھا، 2013ء میں جب پاکستان دیوالیہ ہورہا تھا تو مجھے فنانس کی ذمہ داری دی گئی تھی، میں اس چیلنج سے نپٹنے کیلئے دن رات آفس میں کام کرتا تھا، اس محنت کی وجہ سے پانچ مہینے میں مجھے دل کا مسئلہ ہوا اور نومبر 2013ء میں مجھے اسٹنٹ بھی پڑا تھا، زیادہ بیٹھنے کی وجہ سے مجھے سروائیکل اور لوئر بیک کے مسائل کا بھی سامنا ہے، میں مغرب اور عشاء کے بعد فائل ورک کھڑے ہو کر کرتا تھا، میری چار سال کی محنت کے بدلے مجھے اتنا ٹینشن اور اسٹریس دیا گیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مجھے کیس کی فکر نہیں ہے میرا کیس آج بھی مضبوط ہے ، میرا نام پاناما پیپرز میں نہیں تھا، عدالت میں 34سال کا ریکارڈ پیش کردیا ہے، برطانیہ میں جعلی میڈیکل رپورٹس نہیں بنتی ہیں، اگر احتساب عدالت میں جج میری میڈیکل رپورٹس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے اور مجھے مفرور قراردیدیں تو اس میں میراقصور نہیں ہے، آج میں نے چار اپریل کی میڈیکل رپورٹ بھیجی ہے ،ڈاکٹروں نے مجھے چھ سے آٹھ ہفتے سفر نہ کرنے کیلئے کہا ہے، دوسرے ڈاکٹر سے مشورے کے لئے 26اپریل کا وقت ملا ہے، میں خود واپسی کا فیصلہ نہیں کرسکتا، ڈاکٹرز کی ایڈوائس پر فیصلہ ہوگا، سفر کے حوالے سے ڈاکٹر جو مشورہ دیں گے وہی کروں گا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ مجھے حفاظتی ضمانت کی ضرورت تب ہوگی جب میں جان بوجھ کر پاکستان نہ جارہا ہوں، میری وطن واپس نہ آنے کی وجہ صحت کی خرابی ہے جس پر میرا کنٹرول نہیں ہے، مجھے سروائیکل کا ایشو ہے، ٹینشن نے میری صحت کو مزید خراب کیا ہے، آٹھ مئی کو پاکستان واپس آنے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، مجھے جو میڈیکل ایڈوائس ملے گی اس کے مطابق آگے چلوں گا، میرے خلاف کرپشن اور کک بیک کا کیس نہیں ہے، جب تک صحت کی خرابی کا مسئلہ نہیں تھا عدالت میں پیش ہوتا رہا، میرا کیس سیدھا سیدھا ایف بی آر کا کیس ہے، چارج شیٹ کسی ماہر کو دیدیں۔ ماہر قانون سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے این آر او کالعدم کرنے کے فیصلے کے نتیجے میں جو ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوسکا تھا، فیصلے کے تحت بیرون ملک نشاندہی کی گئی رقوم اور اثاثوں کو واپس حاصل کرنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، سوئس حکام کو خط نہیں لکھا گیا یہاں تک کہ سوئٹزرلینڈ میں کیس کی میعاد ختم ہوگئی، درخواست گزار چاہتے ہیں کہ این آر او بنانے والوں اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے والوں سے رقوم حاصل کی جائیں مگر یہ بہت مشکل ہوگا، ایک برا قانون بنانے والوں کو سزا دینے کی مثال نہیں ملتی لیکن نئی بات ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ کی طرف سے کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد این آر او کا اثر ختم ہوگیا تھا۔ میزبان محمد جنید نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج سوا آٹھ سال بعد ایک بار پھر سپریم کورٹ میں این آر او کی گونج سنائی دی، 2007ء میں پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے معاہدے کے معاملہ نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے،این آر او کے ذریعہ عوامی اور سرکاری عہدے رکھنے والے لوگوں کیخلاف زیرالتوامقدمات ختم کرنے کی منظو ری دی گئی، این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں 34سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریٹس اور سفارتکاروں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، سپریم کورٹ نے دسمبر 2009ء میں این آر او کو کالعدم قرار دیدیا تھا، منگل کو ایک طویل عرصے بعد این آر او سے متعلق کیس سپریم کورٹ کے سامنے آیا ہے ،درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ این آر او کی وجہ سے ملک کو ار بو ں روپے کا جو نقصان ہوا اسے این آر او بنانے والے اور فائدہ اٹھانے والوں سے وصول کیا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اس درخوا ست کی سماعت کی، چیف جسٹس کے سوال پر درخواست گزار نے بتایا کہ درخواست میں پرویز مشرف، آصف زرد اری، ملک قیوم اور نیب کو فریق بنایا ہے، عدالت نے پرویز مشرف، آصف زرداری، ملک قیوم اور نیب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔محمد جنید نے بتایا کہ این آر او کے تحت ختم کئے گئے کیسوں میں مبینہ کرپشن کا حجم اندازاً ایک ہزار 65ارب روپے تھا، این آر او کے تحت سب سے زیادہ 7ہزار 739مقدمات سندھ میں ختم کیے گئے، این آر او کے تحت بانی ایم کیو ایم کے خلاف 72مقدمات ختم کیے گئے جبکہ فاروق ستار کے 23، بابر غوری کے 5، شعیب بخاری کے 21، ڈاکٹر عمران فاروق کے 18، وسیم اختر کے 7، سلیم شہزاد کے 8، کنور خالد یونس کے 12 اور عشرت العباد اور طارق انیس کا ایک ایک مقدمہ این آرو کے تحت ختم کیے گئے، ایم کیو ایم کے علاوہ پیپلز پارٹی نے بھی این آر او سے فائدہ اٹھایا تھا، این آر او کے تحت آصف زرداری کے 8، جہانگیر بدر کے 2، نصرت بھٹو، نواب یوسف تالپور ،آغا سراج درانی ، احمد مختار اور حسین حقانی کا ایک ایک کیس ختم کیا گیا۔