جنسی استحصال ایک قدیم عمل اور جدید موضوع ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ ویسٹرن ورلڈ میں روشن خیالی کے باوجود ایسے واقعات کثرت سے رونما ہوتے ہیں لیکن وہاں متاثرہ مر د و خواتین بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جبکہ ہمارے معاشرے میں لب کشائی کا رواج جمہوریت کی طرح نیا ہے ۔ماہر ِ نفسیات نے جنسی ہراسگی کو مختلف درجوں میں تقسیم کر رکھا ہے تاہم کرپشن کی طرح جنسی ہراسگی ہر درجے میں ایک نا قابل ِ معافی عمل ہے ۔باشعور افراد اسے ایک گھناؤنا عمل سمجھتے ہیں جبکہ اہل ِ ہوس کا ماننا ہے کہ اگر ’’ رقص ا عضاء کی شاعری ہے تو ہراسمنٹ کو وہ نظم قرار دیاجاسکتاہے جس کے بحر واوزان اخلاقیات سے ماورا ہوتے ہیں۔ شاعری ایک خداداد صلاحیت، ایک ودیعت کا نام ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔شاعر اپنے مشاہدات ، تجربات اور محسوسات کو قلمبند کرتا ہے تو حالات اور جذبات میں مماثلت کی وجہ سے وہ شعر بیک وقت بہت سے لوگوں کے دل کی آواز بن جاتا ہے ۔شاعرجس ماحول میں رہتا ہے ، اسی کا رنگ اس کے اسلوب میں جھلکتا ہے ۔زمانے کے نشیب و فراز اس کے تخیل پر ایسے حاوی ہوتے ہیں ، جیسے جمہوری حکومت پر اسٹیبلشمنٹ ۔ غالب اور مومن سمیت انیسویں صدی کے وہ استاد شعرا جنہوں نے 1857 ء کی جنگ آزادی سے پہلے اور بعد کے حالات دیکھے ہیں ان کی شاعری میں کہیں کہیں وہی ڈپریشن نظر آتا ہے جو آج کل ن لیگی وزراء اور شریف فیملی کے بیانات میں پایا جاتا ہے ۔اسی طرح موجودہ حکومت کےکاموں میںبھی وہی مزاحمت دکھائی دیتی ہے جو فیض ، ساحر ، جالب اور فراز سمیت بیسویں صدی کے نامور شعرا ء کی شاعری میں پائی جاتی تھی ۔ شعرا ء اپنے قلم سے عوامی جذبات کی ترجمانی تو کرتے ہی ہیں لیکن ہراساں کرنے کی خواہش ان کے ہاں بھی ملتی ہے ۔اب پتا نہیں ایسے اشعار دانستہ ہوتے ہیں یا غیر دانستہ ، جیسے میر درد کہتے ہیں
بےخودی پر نہ میر کی جاؤ
تم نے دیکھا ہے اور عالم میں
مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شاعری ہر اس انسان کے لیے مشعل ِ راہ ہے جسے شعر کا نزول ہو۔غالب کو پڑھے بغیر شاعر ی کرنا، بغیر سیاسی جدوجہد کے وزیر اعظم بننے جیسا عمل ہے ۔یعنی یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایسے شاعر کو شعرا ء میں وہی مقام ملتا ہے جو وزرائے اعظم میں شوکت عزیز کو حاصل ہے۔اردو شاعری جب تک ہوتی رہے گی ، اس پر غالب کا غلبہ رہے گا لیکن اکثر غالب کا کوئی شعر پڑھ کر علی ظفر یاد آ جاتا ہے جیسا کہ ،
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
اسی طرح غالب کی ایک اور غزل کا مطلع ہے ،
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا
انیسویں صدی کو اردو شاعری کا جوبن کہا جاتا ہے ، ہر شاعر بڑا شاعر تھا ۔ جگہ جگہ مشاعرے ایسے ہوتے تھے گویا ٹارگٹ کلنگ ہو ۔ایسے میں غالب کے سامنے امیر مینائی کا ہٹ ہو جانا ایسے ہی تھا جیسے شاہ رخ خان کے سامنے ٹائیگر شیروف ۔امیر مینائی جہاں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
وہیں کہیں کہیں ان کی شاعری میں اعصاب کی مضبوطی بھی نظر آتی ہے ، جیسے
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے
اسی طرح حسرت موہانی جب یادوں کے دریچے کھولتے ہیں تو برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ،
تجھ سے ملتے ہی وہ کچھ بیباک ہو جانا میر ا
اور تیرا دانتوں تلے انگلی دبانا یاد ہے
شرم و حیا کا دور تھا اور پھر سوشل میڈیا بھی نہیں تھا لہٰذا دانتوں تلے انگلی دبانا ایک واحد ری ایکشن تھا ۔جدید اردو شاعری میں نظم کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔نظم میں نئے موضوعات اور رجحانات متعارف کرانے میں ن م راشد اور مجید امجد نے نہایت اہم کردار ادا کیا ۔جس طرح عمران خان فیس بک اور میاں نواز شریف دِلوں کے وزیر ِ اعظم ہیں اسی طرح ن م راشد شاعروں کے شاعر ہیں اور مجید امجد کا تو کوئی ثانی ہی نہیں ۔ن م راشد کی شاعری میں جہاں فینٹسی اور دیو مالائیت دکھائی دیتی ہے وہیں ایسے اقبال ِ جرم بھی ملتے ہیں کہ ،
گناہ کے تندو تیز شعلوں سے روح میری بھڑک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں جوانی میری بھٹک رہی تھی
مجید امجد کی نظمیں ان کی معصومیت اور شرافت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔انہوں نے خواہش کی بھی تو بُن ِ گوش میں بُندا ہونے کی ، جہاں چہرہ بھی ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا
البتہ وصی شاہ نے اس تخیل اور زمین کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔احمد فراز ایسے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہیں کہیں خود جذباتی ہو جاتے تھے اور یہ کیفیت ان کے اس شعر میں ملاحظہ کیجئے
دل میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہوں کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کسی کو ہراساں کرنا یا ایسی خواہش رکھنا کوئی نفسیاتی مرض ہے جبکہ ماہرین ِ نفسیات اس سے انکاری ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ کمزور لمحہ ہوتا ہے جس میں منفی یا جنسی خواہشات انسان پر حاوی ہو جاتی ہیں ۔کچھ کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں ماضی کی بے تکلفی کو ہی ہراسمنٹ کا کیس بنا دیا جاتا ہے شاید علی ظفر کا کیس بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میشا شفیع نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جیسے میاں نواز شریف کے لئے لفظ ’’گاڈ فادر ‘‘ استعمال کیا گیا تھا کیا اسی طرح علی ظفر کو ’’ عمران ہاشمی ‘‘ کہا جائے گا ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)