• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیسا لگے گا آپ کو اگر آپ کسی انٹرویو کےلئے جائیں اور آپ کا انٹرویو لینے والاایک خوبصورت عورت کی شکل کاروبوٹ ہو،جی ایسا بالکل ممکن ہے اور ایسا ہوچکا ہے۔ روس میں ایک ادارے نےامیدواروں کے انٹرویو لینے کے لئے ایک روبوٹ ’’ویرا‘‘ کو متعین کیا ہے۔ اس روبوٹ کو AI چپ سے مزین کیاگیاہے جس میں علم کابہترین خزانہ ہے اور یہ آپ سے انتہائی ذہین سوالات پوچھتا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ آخر اب انسان کامتبادل کیا روبوٹ ہونے جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب میں ذراتاخیر سے دوںگا اس لئے کہ آپ پہلے ایک اور واقعہ سن لیں۔
IKEA یورپ میں فرنیچر بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک روبوٹ کو ایک کرسی بنانےکے لئے منتخب کیا۔ اس روبوٹ نے یہ کرسی صرف 2گھنٹوں میں بنالی۔ IKEA اب سوچ رہاہے کہ عام مزدور بھرتی کرنےکےبجائے ایسے روبوٹ اس کام پر لگا دے جس سے کئی دنوں کاکام اب گھنٹو ںمیں ہوجائے اور وہ بھی انتہائی کم دام ہیں۔
اگرآپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں تو ایک اور واقعہ سن لیں۔ یورپ کے ایک شہر کے باسیوں نےاس دفعہ اپنےمیئر کے انتخاب میںایک روبوٹ کو کھڑا کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کسی بھی عام آدمی کی نسبت مسائل کے حل کے لئے روبوٹ بہتر تجاویز دے سکتا ہے۔ ابھی تو خیر روبوٹ کھڑا ہی ہوا ہے مجھے تو ڈر اس وقت سے ہے جب اس طرح کا کوئی روبوٹ واقعی الیکشن جیت لے گا۔
یہ سب میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ایک بڑے ادارے کی ایک ریسرچ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر آپ اپنی تعلیم میں جلد جدت اور تنوع نہیں لائیں گےتو آپ کی جاب کوئی روبوٹ لےلے گا۔اس لئے کہ جس طرح تیزی سے سائنس ترقی کر رہی ہے، آنے والے دنوں میں اداروں کو عام جدت سے محروم لوگوں کی ضرورت نہیں رہےگی۔یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں اسی لئے روزبروزاپنے کورسز میں تبدیلی لارہی ہیں تاکہ انسان کو آنے والے وقت سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تنوع اور جدت پیداکریں۔ ملکوں کے بارے میں بھی یہی کہا جارہاہے کہ صرف وہی ملک ترقی کریں گےجن کی تعلیم سائنسی اصولوں پر مبنی ہوگی اور جو آئے دن نئی تخلیقات کریں گے۔ ایسے میں ہمیں چاہئے کہ ذراہم بھی اپنے ملک میں تعلیم کی صورتحال اور پھر پڑھے لکھے لوگوں کے اندر تنوع اور جدت کے لحاظ سے کچھ سوچیں۔
ہم تعلیم میں دنیاکے ترقی یافتہ ممالک سے شاید صدیوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایک تو ہماری نصف سے زیادہ آبادی یاتو تعلیم اور خاص طور پر جدید تعلیم سے میلوں دور ہے ،دوسرے باقی نصف میں سے بھی چند ہزار کو چھوڑ کر صورتحال خاصی ابتر ہے یعنی آپ اندازہ لگایئے کہ اب بھی جس صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بڑے فخر سے اپنے صوبے کی ترقی کا ذکر کرتے ہیں، اس میں کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اسی صوبے میں یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 50لاکھ بچیاں سکول نہیں جاتیں اور جو بچے جاتے بھی ہیں ان کی ذہنی صلاحیت اتنی کم ہے کہ صوبے کے کرتا دھرتا افراد کے لئے باعث شرم ہونی چاہئے ۔ ایسے میں کیا ذکر سائنسی اور جدید تعلیم کا۔
ہم بارہا اس کا ذکر کر چکے ہیں کہ اس ملک میں پانچ کروڑ سے زائدبچے ذہنی پسماندگی کاشکار ہیں۔ اس کی وجہ غربت بھی ہے اور ناقص خوراک وتعلیم بھی۔ اس کے علاوہ اگر مڈل اور ہائر لیول کی تعلیم کا ذکرکریں تو نقل اور رٹے نے بیڑہ غرق کردیاہے۔ اساتذہ ہوں یا طلبہ ، حکام کو صرف نمبر پورےکرنے سے غرض ہے۔ یہ تو کہہ دیاجاتاہے کہ پی ایچ ڈی حضرات و خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو کچھ تخلیق کر پائیں گے۔ سائنسی تعلیم کا اس سے بھی ابتر حال ہے۔ اسی لئے کچھ نیا نہیں ہورہا۔ ہم دنیا کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ ایسی باریک فلم بن گئی جو گردے کا متبادل ہے۔ ایسے سٹیم سیل بنالئے گئے ہیں جو معذور افراد کو لگائے جائیں گے تووہ دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ایسے سٹیم سیل انجیکٹ کرکے تجربے کرلئے گئے کہ جو ٹوٹے دانت کی جگہ لگانے پر نئے دانت اگ آئیں گے لیکن کیا ان سب میں سے کچھ ہمارے لوگوں نے بھی کیاہے؟ جو پاکستان اسٹڈیز اور اسلامیات، عربی، فارسی، فزیکل ایجوکیشن اور ایسے مضامین کےکتابچوں کو پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم دنیافتح کرلیں گے۔ جان لیجئے کہ ان کے لئے آنےوالے دور میں اب کوئی نوکری نہیں ہوگی۔ وہ بہت پیچھے رہ چکے۔
دُم:گزشتہ روز الحرا آرٹس کونسل کی انتظامیہ نے فلم کے زوال کے اسباب پر لیکچر دینےکےلئے سیدنور صاحب کو دعوت دی تھی۔ چہ خوب۔ یعنی جو زوال کا سبب ہیں انہی سے آپ دوا لینے کی بات کررہے ہیں۔اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور نہیں ہوسکتی۔ لیکن الحمرااور ایسے ہی اداروں میں بٹھائےگئے لوگوں سے اورتوقع ہی کیاکی جاسکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین