• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چمچہ گیری

چمچ دراصل ترکی زبان کے لفظ چمچہ کا اُردو تلفظ ہے لیکن یہ اُردو کے لشکری زبان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر جلد ہی چمچہ بھی بن گیا۔ اگر یہ چمچہ نہ بنتا تو صرف کھانا کھانے والا چمچ ہوتا ،مگر اس نے چمچہ بن کر دیگر بہت سی ذمہ داریاں بھی اپنے پلے باندھ ڈالیں۔ یہ ایک ہو تو چمچہ کہلاتا ہے، زیادہ ہوں تو چمچے بن جاتے ہیں۔ ویسے تو برتنوں میں چمچہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا لیکن فرائضِ منصبی کے لحاظ سے دیکھئے تو اس چھوٹی سی شے نے بہت بڑی ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔ ان کی قسمیں بھی بہت ہیں لیکن عام طور پر دو قسم کے چمچے مشہور ہیں۔ ایک کھانے کے چمچے دوسرے بولنے کے۔ 

پہلی قسم کے چمچے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کھانا پکانے کے علاوہ سالن کو دوسرے برتن میں نکالنے کے کام آتا ہے، دوسری قسم کے چمچے کا کام کسی کی چمچہ گیری کرکے مطلب نکالنا ہوتا ہے۔ کام دراصل دونوں کا ایک ہی ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک دیگ میں چلتا ہے، جبکہ دوسرے کی زبان چلتی ہے۔ پکانے والا چمچہ نہ ہو تو کھانا مزے کا نہیں بنتا ۔بولنے والا چمچہ تھوڑی بہت چمچہ گیری کرکے بھی بہت کچھ کھا جاتا ہے بلکہ بنا بھی جاتا ہے ۔ ایک چمچہ وہ بھی ہوتا ہے جو کھانا بنانے کے علاوہ مظلوم شوہروں کے سر سے پاؤں تک کا حال جانتا ہے۔ ایسے چمچے کا دستہ ہمیشہ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے تاکہ اُس کا شوہر فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن سکے۔

چمچہ گیری کی جامع تعریف تو کوئی چمچہ گیر ہی کر سکتا ہے، البتہ اسے ایک فن ضرور کہا گیا ہے اور اس کی تربیت کے باضابطہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ذاتی سوچ، خیالات اور دماغ سے فارغ ہو اور اپنی چرب زبانی کے ذریعے کسی کو خوش کرنے اور اپنا مطلب نکالنے کی غرض سے اُس کی جھوٹی تعریفیں شروع کر دے، ایسے شخص کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں نہ جانے کیا طنزیہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اسے چمچہ ہی کہتے ہیں ۔

ایک سیاسی چمچے بھی ہوتے ہیں، یہ چمچوں کی اُس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو بولنے والے چمچے کہلاتے ہیں۔ آج کل کی سیاست میں لوٹوں کی طرح چمچوں کی بھی بھرمار ہے اور یہ دونوں اپنے کردار کی بدولت زبان زدِ عام رہتے ہیں۔ چمچوں کی اہمیت یوں تو ہر دور میں رہی ہے لیکن سیاست اور چمچے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ چمچہ گیری سے بہتر سیاست میں اور کوئی اہم نہیں کیوںعہدے اسی سے حاصل ہوتے ہیں۔ 

سیاست میں چمچہ گیری کا زیادہ امکان اُس وقت ہوتا ہے جب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا ارادہ ہو۔ سیاسی لیڈروں کے گرد منڈلانے والے چمچوں کی وجہ سے ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کی جگہ اب چمچہ گیری کی سیاست نے لے لی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں چمچوں کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔

حکومتی سربراہ یا سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اپنے مطلب کی بات کہلوانے کے لیے ان ہی چمچوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ سیاست میں کامیاب چمچہ وہی کہلاتا ہے جو ٹی وی، اخبارات کے ذریعے بڑے صاحب کا زبردست دفاع اور اُس کے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کا ماہر ہو۔

(نجیم شاہ)

تازہ ترین