• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کینیڈا میں مقیم پاکستان کی معروف شاعرہ، ذکیہ غزل سے ملاقات

کینیڈا میں مقیم پاکستان کی معروف شاعرہ، ذکیہ غزل سے ملاقات

گفتگو: اختر سعیدی

عکاسی: اسرائیل انصاری

س: آپ کی شادی کب ہوئی، کیا آپ کی اولاد میں بھی ادبی ذوق پایا جاتا ہے؟

ج: میری شادی 1986میں وسیم قریشی سے ہوئی۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے کی شادی ہوگئی، بیٹی کی شادی اسی سال ہوگی۔ تینوں بچوں میں شاعری کے جراثیم موجود ہیں۔ وسیم میرے بہت اچھے ہم سفر ہیں، اگر ان کی اجازت نہ ہوتی تو میں آج یہ مقام حاصل نہیں کرسکتی تھی، جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے۔ بڑے بیٹے عمیر کا تعلق، بزنس امڈمیسٹریشن سے ہے۔ چھوٹا بیٹا، عزیر سافٹ وئیر انجینئر ہے۔ بیٹی آمنہ ایچ آر اینالسٹ بنی ہے، ماشااللہ سب بچے اپنی اپنی جگہ سیٹ ہیں۔

س: آپ کی ادبی مصروفیات سے آپ کی ازدواجی زندگی تو متاثر نہیں ہوئی؟

ج: میں نے بڑی متوازن زندگی گزاری ہے، اگر شوہر نے کسی تقریب میں جانے سے روکا تو میں نے ضد بھی نہیں کی، اُنہوں نے کہہ دیا کہ فلاں مردیا خاتون سے آئندہ نہیں ملنا تو میں نے اس طرف کبھی رخ بھی نہیں کیا، میں نے کبھی انا کا مسئلہ نہیں بنایا، ہم دونوں کے درمیان بڑی حد تک ذہنی ہم آہنگی ہے، بعض دفعہ میں جو سوچ رہی ہوتی ہوں تو وہی اُن کے ذہن میں بھی ہوتا ہے۔ ہماری ناراضی بھی زیادہ دیر نہیں رہتی ، کبھی وہ منالیتے ہیں، کبھی میں، وسیم بحیثیت شوہر اور بحیثیت باپ، بہت اچھے انسان ہیں، عموماً مائیں بچوں کا زیادہ خیال رکھتی ہیں، لیکن وسیم مجھ سےبھی زیادہ بچوں کو عزیز رکھتے ہیں۔

کینیڈا میں مقیم پاکستان کی معروف شاعرہ، ذکیہ غزل سے ملاقات
گھر والوں کے ساتھ

س: کیا کبھی آپ عشق کے تجربے سے بھی گزریں؟

ج: میں نے شوہر سے عشق کیا اور اُنہوں نے مجھ سے۔ عشق کی کارفرمائی نے ہم دونوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیا، اب ہم خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔ میری والدہ سے وسیم کی والدہ نے کہا تھا کہ ہم شادیاں اپنے خاندان میں کرتے ہیں، ہماری شادی نے یہ طلسم توڑا اور اب یہ سلسلہ بحال ہوگیا ہے۔ یہ راز کی بات بھی بتاتی چلوں کہ وسیم ہی نے مجھے پسند کیا تھا۔ میرے بڑے بھائی سے اُن کی دوستی تھی۔

س: آپ خواتین کی آزادی کی کس حد تک قائل ہیں؟

ج: عورت کو قید کس نے کیا ہے، وہ آزاد تھی، آزاد ہے اور آزاد رہے گی، لیکن میں مادر پدر آزادی کے خلاف ہوں۔ عورت عورت ہے، مرد مرد ہے۔ دونوں کو باحیا ہونا چاہیے۔ مرد مار قسم کی عورتیں مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ مجھے آج تک یہ پتا نہیں چلا کہ وہ کون سی آزادی ہے، جو عورت مانگ رہی ہےاور عورت کو باوقار انداز میں زندگی گزارنی چاہیے۔

س: کیا زندگی میں کبھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: اللہ کی ذات پر بھروسا کرنے والا، کبھی مایوس نہیں ہوتا، میں نے مایوسی کو کبھی اپنے اوپر طاری نہیں کیا، ہر مشکل کا بڑے حوصلے سے مقابلہ کیا۔ میری زندگی میں بہت کڑے وقت آئے، لیکن میں کبھی پریشان نہیں ہوئی۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کسی آزمائش میں ڈالے اور آپ مذہبی اقدار سے دور ہوجائیں تو یہ آپ کی سزا ہے۔

س: والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گی؟

ج: والدین کی محبت کا تو کوئی مول ہے ہی نہیں۔ میں نے والدہ سے محبت کی اور والد سے عشق کیا، دونوں ہستیاں میرے لیے قابل احترام ہیں۔ دعائیں دینے والے تو آج بھی ہیں، لیکن وہ تاثیر کہاں سے لائوں، جو والدین کی دعائوں میں تھی۔ والدین کا خلا تمام زندگی پُر نہیں ہوتا، خدا اُن کی مغفرت فرمائے (آمین)

کینیڈا میں مقیم پاکستان کی معروف شاعرہ، ذکیہ غزل سے ملاقات
شوہر وسیم قریشی کے ہمراہ

س: دولت، شہرت اور محبت میں سے کس کو ترجیح دیں گی؟

ج: دولت، آدمی کے ہاتھ کا میل ہے، انسان کی شہرت بھی ہمیشہ نہیں رہتی، البتہ محبت، ایک لافانی جذبہ ہے، محبت ، آدمی کو انسان بناتی ہے، محبت، سچے جذبوں سے عبارت ہوتی ہے۔ میرا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

اتنی نفرت میں، محبت کو پکاروں کیسے

کام آساں ہے پہ دشوار ہوا جاتا ہے

محبت کا پھیلائو ہی، معراجِ انسانیت ہے، محبت کے ذریعے دشمنوں کو بھی اپنی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔

س: کوئی ایسا دوست ملا ، جس سے دوستی پر فخر ہو؟

ج: میں اپنا بہترین دوست اپنے شوہر کو سمجھتی ہوں، اپنے والد سے بھی ہر قسم کی بات کرلیا کرتی تھی، کچھ سہیلیاں کالج کے زمانے کی ہیں، جن سے ملنا جلنا رہتا ہے، فرحت، میری بچپن کی دوست ہے، جس سے آج بھی رابطہ رہتا ہے۔

س: کوئی ایسی یاد، جو آپ کے دل سے جدا نہیں ہوتی؟

ج: والد کی بیماری اور موت کا صدمہ ایسا ہے ، جو بھلائے نہیں بھولتا، وہ کبھی دل سے جدا نہیں ہوتے۔ میری زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے، لیکن میں ثابت قدم رہی، مجھے توڑنا چاہا، لیکن میں نہیں ٹوٹی۔

س: زندگی کا کون سا دور سب سے اچھا لگااورمشاغل کیا ہیں؟

ج: فکر اور پریشانی سے آزادی کا دور، بچپن کی یادیں، ناقابل فراموش ہوتی ہیں۔ مجھے بچپن میں بھی کتب بینی کا شوق تھا، بچوں کی کہانیاں اور رسائل بڑی توجہ کے ساتھ پڑھا کرتی تھی۔ مطالعے کا وہ شوق، اب میری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ کتاب زندگی کی علامت ہے۔ نعت خوانی بھی اُسی دور کا تحفہ ہے، مجھے پینٹنگ بنانےسے بھی دلچسپی رہی، میری والدہ نے مجھے ڈرایا کہ ان تصویروں میں جان پڑجائے گی، اس خوف سے پینٹنگز بنانا چھوڑ دیں۔ میری والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں، انہوں نے مجھے سلائی کڑھائی سکھائی، کھانا پکانے کے طریقے بتائے، اب میں ہر کام کرلیتی ہوں۔

س: کیا آپ نے کبھی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچا؟

ج: 70سال گزرنے کے بعدبھی پاکستان کو کوئی مخلص لیڈر نہ مل سکا، جسے قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خاں شہید کا پیرو کار کہا جاسکے۔ ہر دور میں کوئی ایسا نام نہاد لیڈر آجاتا ہے، جو عوام کو سنہری خواب دکھا کر اپنی طرف کرلیتا ہے اور پانچ سال حکومت کرکے چلا جاتا ہے، عوام کے لیے کچھ نہیں کرتا، پاکستان کو مخلص قیادت کی ضرورت ہے، جس کے دُور دُور تک آثار نہیں۔ میری تو پوری شاعری میں وطن کا درد موجود ہے۔

میں نے مانگی تھی اجالے کی فقط ایک کرن

تم سےیہ کس نے کہا، آگ لگادی جائے

خوف آنکھوں میں کوئی، سب کی چھپا ہو جیسے

ایسے زندہ نہ رہو، جرم کیا ہو جیسے

س: سیاست دانوں کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟

ج: سیاست دان، اپنے مفادات پیش نظر رکھتے ہیں۔ جدی پشتی سیاست چل رہی ہے۔ کراچی سب کا پیٹ بھرتا ہے، لیکن اس کا کوئی ہمدرد نہیں۔ اگر سیاست دان، وفادار ہوتے تو کراچی کی یہ صورت حال نہ ہوتی، جو آج میں دیکھ رہی ہوں۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر، پانی کا بحران، بجلی کی لوڈشیڈنگ، آپ عوام کو کیا دے رہے ہیں۔

تازہ ترین