• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سماجی رابطے کی ویب سائٹس یا جاسوس

سائنس کی ترقّی نے جہاں ہمیں بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں وہیں ہمارے لیے بہت سے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔لیکن ایسا انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لے کر آتی ہے۔چناں چہ آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔لیکن آج فرق یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی کی رفتار بہت زیادہ ہوگئی ہے،لہذا خطرات اور خدشات بھی اسی رفتار سے بڑھتے جارہے ہیں۔آج کے د ور کا بہت بڑا خطرہ اس ٹیکنالوجی کی جانب سے ہے جس نے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی ہے اور ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں پیداکردی ہیں۔

ہمارا اشارہ ا طلاعا تی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کی جانب ہے۔اس ٹیکنالوجی نے اس شعبے میں تھوڑی سی بھی مہارت رکھنے والے فرد کے لیے دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کرکسی بھی خاص و عام کی سر گرمیوں پر نظر رکھناور اُن کی گفتگو ریکارڈکرناممکن بنادیا ہے۔چناں چہ آج کسی بھی ملک اور اس کےعوام کے لیے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔

اس ضمن میں ماہرین کی جا نب سے انٹر نیٹ اور موبائل فون کو بہت خطرناک قرار دیاگیا ہے۔ان کے مطابق ان کے ذریعے آج دنیا بھر میں کسی بھی شخص کی چوبیسوں گھنٹے نگرانی یا جاسوسی کرنا ممکن ہوگیا ہے۔اوریہ حقیقت خطرے کی سطح میں مزید اضافہ کردیتی ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرنے والے کو اپنی جاسوسی ہونے کے بارے میں شک تک نہیں ہوتا،لہذاوہ خلوت اور جلوت میں بے دھڑک ان کا استعمال جاری رکھتا ہےاور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی گفتگو اور افعال کرتا رہتا ہے۔اس دوران اسے ذرّہ برابر یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی کونے میں اس کی گفتگو اور افعال ریکارڈ کیے جارہے ہیںجنہیں کسی بھی وقت اس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان کی مدد سے اسے بلیک میل کرکے کوئی بھی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

پہلے عموما ریاستی ادارےجاسوسی کرتے تھے،لیکن نئی ٹیکنالوجی نے عام آدمی اور نجی وتجارتی اداروں کے لیے بھی یہ کام کرنا ممکن بنادیا ہے۔حال ہی میںفیس بُک کی انتظامیہ کے خلاف یہ الزام سامنے آیا ہے کہ اس نے اپنے صارفین کے بارے میں معلومات امریکاکی ایک سیاسی شعبے کی کنسلٹنسی کمپنی کیمبرج اینالیٹکا (سی اے)کو فراہم کی تھیں۔اطلاعات کے مطابق تقریباً 5؍ کروڑ سے زاید صارفین کا ڈیٹا لیک کرنے کی خبریں سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ فیس بک کے خلاف امریکا میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے فیس بک کی انتظامیہ کے خلاف ڈیٹا لیک کرنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد فوراً کارروائی شروع کر دی ہے۔ 

تحقیقات کے آغاز کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں فیس بک کے شیئرز کو 60؍ ارب ڈالرز (66؍ کھرب 37؍ ارب روپے سے زاید) کے زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سیاسی کنسلٹنسی کمپنی کیمبرج اینالیٹکا (سی اے) کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسی کمپنی نے فیس بک کے صارفین کا ڈیٹا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ جیتنے میں کام یاب ہوئے تھے۔

امریکی فیڈ ر ل ٹریڈ کمیشن اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا فیس بک نے 2011ء کے معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ کمپنی پر یہ الزامات عاید کیے گئے ہیں کہ اس نے سی اے کو صارفین کاڈیٹا ان کی مرضی کےخلاف فراہم کیا۔ 2011ء کے معاہدے کے تحت، فیس بک نے اپنی پرا ئیویسی سیٹنگز میں تبدیلی کو صارفین سے رضامندی حاصل کرنےسے مشروط کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ 

یہ معاہدہ اس لیے کیا گیا تھا کہ فیس بک پر اُس وقت بھی یہ الزام عاید کیا گیا تھا کہ اس نے صارفین کو ان کی مرضی کےخلاف اپنی زیادہ نجی معلومات شیئر کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ایف ٹی سی کی جانب سے اُس وقت جاری کردہ بیان میں کہا گیاتھا کہ یہ شکایت اس وقت سامنے آئی تھی جب کمپنی نے اپنے صا ر فین کو مطلع کیے بغیر اپنی پرائیویسی سیٹنگز میں تبدیلیاں کی تھیں۔ایف ٹی سی کی رائے ہے کہ فیس بک نے شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔واضح رہے کہ امریکی سرکاری تحقیقاتی ادارے کو یہ اختیارحاصل ہے کہ وہ فیس بک کی انتظامیہ پرہر خلاف ورزی کے لیے ہزاروں ڈا لر ز کا الگ الگ جرمانہ عاید کرسکتا ہے۔

یہ الزام عاید ہونے بعد دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین، مبصرین اور سماجی کارکنوں و سیاسی شخصیات نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی سینیٹ کی کامرس کمیٹی اور برطانیہ کی پارلیمانی کمیٹی بھی اس حوالے سے سرگرم ہے۔امریکا میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے اراکین نےجو عموماً نجی کاروبار کے حوالے سے قانون سازی کی مخالفت کرتے ہیں فیس بک کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ ایری زونا کے سینیٹر جیف فلیک کا کہنا ہے کہ نجی معلومات افشا کرناسنگین معاملہ ہے۔ فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے انکشافات کے بعد پریشان ہیں۔

ان حالات میں 20اپریل کو پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں یہ خبر آنااچنبھے کی بات نہیں کہ مالی سال 2018۔2019کے بجٹ میںوزیرِ اعظم ہاوس کی سیکیو رٹی کے لیے دو نئے منصوبوں کی غرض سے ایک کروڑ 55لاکھ روپے مختص کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق وزیرِ اعظم ہاوس میں ہونے والی گفتگو اور سر گر میو ں کی ریموٹ مانیٹرنگ اور سیٹیلائٹ ریکارڈنگ کو روکنے کےلیےبلاک وائزنگ وائس ڈیٹا کا نیا سیٹ نصب کیا جا ئے گا۔ مذکورہ رقم ان آلات کی تنصیب پر خرچ ہوگی۔اس ضمن میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پرو گر ا م ( پی ایس ڈی پی)میں دو نئے منصوبے شامل کرلیے گئے ہیں۔

وفاقی کابینہ کی جاسوسی

جوہری بم اورخطّے اور دنیا میں اہم سیاسی اور جغر ا فیا ئی اہمیت کا حامل ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے بہت سے دوستوں کے ساتھ اس کے متعدد دشمن بھی ہیں۔ چناں چہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک کے ذمّے داروں کو بھی بہت سے معاملات میں بہت پھونک پھنک کر قدم رکھنے ہوتے ہیںکیوں کہ ہم پر ہر لمحے نظر رکھنے والے کبھی اپنے کام سے غافل نہیں ہوتے۔یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اس کمرے میں جا سوسی کرنے والے سگنلزپکڑے گئے تھے جس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہونا تھا۔چناں چہ حفاظتی نکتہ نظر سے وہ اجلاس اس وقت ملتوی کردیا گیا تھا۔اس وقت کے وزیرِ داخلہ ،رحمن ملک کا اس ضمن میں جون 2015 میں دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان میں 2 غیر ملکی سفارت خانے سابق صدر آصف علی زرداری اوراس وقت کے وزیر ا‏عظم نواز شریف کی جاسوسی کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور حکومت میں کابینہ کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی اور دو غیر ملکی سفارت خانے ٹیلی فون ٹیپنگ میں ملوث رہے۔سابق صدر آصف علی زرداری اور نوازشریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میںگفتگو کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اہم ترین عہدے دار بھی جاسوسی سے محفوظ نہیں۔ہمارے دور حکومت میں ایوان صدر سمیت تمام سرکاری محکموں کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی ہے ۔دو غیر ملکی سفارت خانےٹیلی فون ٹیپنگ میں بھی ملوث ر ہے۔رحمن ملک کا کہنا تھاکہ ٹیلی فون ٹیپنگ، لیزر مائیکرو فو ن اورسییٹلائٹ کے طاقت ور سگنلز کے ذریعے مانیٹرنگ کی جاتی ہے اوران سگنلز کو روکا نہیں جاسکتا۔

ایک مرتبہ ایسے ہی سگنلزپکڑے جانے کی اطلاع ملی،جنہیںنہ رو کے جانےکے سبب کابینہ کا اجلاس مؤخر کرنا پڑاتھا۔وہ سگنلز ڈپلومیٹک انکلیو کی جانب سے موصول ہورہے تھے ۔ان کا کہنا تھاکہ ان کے ذاتی فون سمیت سابق صدر آصف زرداری اور نوازشریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔تاہم سابق وزیر داخلہ نے ان دو سفا ر ت خانوں کا نام نہیں لیاتھاجن کے سامنے پاکستان اتنا بے بس ہے۔

رحمن ملک کا کہنا تھا کہ غیر متعلقہ افراد 2012 میں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ا جلا سوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور ممکن ہے کہ ایسا اب بھی ہورہا ہو۔سابق وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک نے یہ اور دیگر رازوں کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ملک میں ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے کے معاملات کی ریگولیٹری سے متعلق ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیاتھا۔انہوں نے یہ انکشافات اس وقت کیےتھے جب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)کے چیئرمین ڈاکٹر اسمعیل شاہ نے ان کے سوالات کے جواب میں کہا تھاکہ جاسوسی کی روک تھام کسی اور کی ذمّے داری ہے۔

اس موقعے پر رحمن ملک نے اپنی وزارت کے اس دور کو یاد کیاتھاجب جاسوس سگنلز وزیراعظم ہاؤس کے کیبنٹ روم میں پکڑے گئےتھے، مگر چوں کہ پاکستان کے پاس جاسوس کی سر گر میوں کی روک تھام کی صلاحیت زیادہ نہیں لہٰذا اس وقت کابینہ کے اجلاس کو ملتوی کردیا گیاتھا۔انہوں نے مزید بتایاتھا کہ ان کے گھرکی دو کھڑکیاں سیمنٹ لگا کر بندکرنی پڑی تھیں تاکہ جاسوس سگنلز کو بلاک کیا جاسکے۔ان کا دعویٰ تھاکہ امریکی انٹیلی جینس کے ادارے، سی آئی اے نے 2013 میں پاکستان میں اپنی جاسوس کی سرگرمیوں کا اعتراف کیا تھا جس کے مطابق اس نے سابق صدر آصف علی زرداری،وزیراعظم (2015میں)نواز شریف اور دیگر پاکستانی راہ نماؤں کے فونز ٹیپ کیے۔ 

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں طلب کیے گئے پی ٹی اے کے چیئرمین ڈاکٹر اسمعیل شاہ نےاس وقت کہا تھا کہ اس جاسوسی کی روک تھام کے لیے ایجنسیز کو خود کچھ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی اے کے عملے میں صرف ایک درجن سے زاید ٹیکنیکل افراد موجود ہیں جن کا بنیادی کام ملک کے ٹیلی کام سیکٹر کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیز نے ملازمین رکھنے سے پہلے ان کی چیکنگ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں ان کی تعلیمی اسناد،سابقہ ملا ز متوں کی تصدیق، نادرا سے شناختی کارڈز کی تصدیق، ملازمت کے دوران سیکیورٹی واچ اور فراڈ ڈیٹابیس پر چیک شامل ہیں۔

مصر اور بھارت کی بھی جاسوسی

سابق وزیرِ داخلہ کے ان انکشافات سے تقریبا ایک برس قبل یعنی جولائی 2014میں امریکی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے پیپلز پارٹی کی جاسوسی اور نگرانی کی تھی۔ اسی عرصے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور مصر کی حکم را ں جماعت ،اخوان المسلمون کو بھی امریکی جاسوسی کے نظا م نے مانیٹر کیا تھا۔ 

اس بارے میں حاصل کردہ معلومات کا ڈیٹا بھی اب سامنے آگیاتھا۔اس وقت وائٹ ہائوس کی بریفنگ میں بھی بی جے پی کے حوالے سے کیے گئے سوالات کے جواب میں ترجمان کے نوکمنٹ اور مبہم بیا نا ت اور اشاروں سے بھی تصدیق ہوگئی تھی کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی نے پی پی پی، بی جے پی اور اخوان المسلمون سمیت پانچ سیاسی جماعتوںکی جاسوسی کی تھی۔

اس انکشاف کے لیے ان جماعتوں کو مفرور امریکی ایڈورڈ اسنوڈن کا شکر گزارہونے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اُن ہی دنوںرحمٰن ملک نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ جب ان کے دور میں حکومت کی کابینہ کا اجلاس ہوتا تھا تو بعض اوقات مختلف سگنلز کوحفاظتی اداروں کے ذریعے کلیئر کرایا جاتا تھا۔ اُن کا یہ بیان کسی سائبر نظام کے ذریعے جاسوسی کی نشان دہی تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو اس انکشاف پر امریکی محکمہ خارجہ کے سفارت کاروں کو نئی دلی طلب کرلیاتھا اور تمام صورت حال جاننے اور اعترافات کے بعد آئندہ ایسا نہ کرنے کی امریکی یقین دہانی حاصل کی تھی۔لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی۔ظاہر ہے کہ امریکا عالمی طاقت ہے اور اس کے مفادات امریکی سرحدوں سے باہر بھی ہیں۔ لہٰذا اپنے عالمی مفادات کے لیے اس کا جاسوسی کانظام بہ قول ایڈورڈا سنوڈن 193ممالک اور اُن کے سربراہان اور حکومتی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔

اس خِطّے میں اس کے مفادات افغانستان، پاکستان، بھارت، چین اور وسطی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اگر پی پی پی کی جاسوسی کرنے کے بارے میں امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے ایک سابق ملازم ایڈورڈاسنوڈن کے فرار ہو نے اور دستاویزات کا انکشاف کرنے سے سامنے آگیا تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکم راں، حزبِ اختلاف اور حساس ادارے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی اور دیگر امریکی اداروں کی جاسوسی اور نگرانی کی زد میں ہو ں۔ 

ویسے بھی انٹرنیٹ، ای میل، اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے جدید سائنسی آلات نے دنیا کے ہر حکم راں سمیت عام شہریوں کو بھی ان کی ’’پرائیویسی‘‘ سے محروم کردیا ہے۔

ماہرین کے مطابق فیس بک، ٹوئٹر،وٹس ایپ وغیرہ اورٹیلی کمیونی کیشن کے مختلف ادارے امریکی نظام کو اتنی معلومات فراہم کر دیتے ہیں کہ کسی بھی عام شہری کی زندگی کے نجی لمحات سےلے کر اُس کی عادات و مزاج، پسندو ناپسند بلکہ نقطہ نظر اور سوچ کے بارے میں اچھا خاصا خا کہ تیار ہو جاتا ہے۔ آج کے دور کا انسان یہ نہیں سوچتا کہ اطلاعات اور مواصلات کی جدید ایجادات اور سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کے شوق میں وہ اپنے فون اور کمپیوٹرپراپنےبا رے میں معلومات کا ڈھیر خود لگا رہا ہے ۔اس ضمن میں اگر مزید تصدیق اور یقین کرنا ہو تو صرف امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘میں نیشنل سیکیورٹی کے حوالےسے چند برسوں میں شایع ہونے والی چند رپورٹس کو توجہ سے پڑھنے پر آپ کو بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا کہ 193ممالک کے حکم راں، سرکاری اہل کار اور پالیسی بنا نے والے افراد تو جاسوسی کے سائبر نظام کی لپیٹ میں ہیں ہی، لیکن عام ،بے ضرر اور کسی قسم کی سیاست یا مکتبہ فکر سے لاتعلق شہری بھی اپنی عادات، سوچ، تحریر اور ذاتی تفصیلات سمیت جاسوسی اور معلومات اکٹھا کرنے کے عالمی خفیہ نظام کی لپیٹ میں ہے۔ اس ضمن میں ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی 6جولائی2014 کی اشاعت میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے بارے میں شایع شدہ تفصیلات میںکیے گئے بعض انکشافات پیشِ خدمت ہیں۔

(1) نیشنل سیکیورٹی ایجنسی اپنے دوپروگرام Prismاور Upstream کے ذریعے یاہُو، گوگل اور دیگر ڈیٹا کمپنیز سے ڈیٹا حاصل کرتی ہے۔وہ ڈیٹا نیٹ ورکس کے بارے میں معلومات اور وائس ڈیٹا بھی اکٹھا کرتی ہے۔ لہٰذا ذاتی تصاویر، سمندر کے کنارے تفریح اور بچوں کی تعلیمی اسناد اور تصاویرکے علاوہ آپ کا طبّی ریکارڈ،محبت کے ضمن میںکی گئی خط و کتابت اور دل ٹوٹنے اور محبت کی داستانوں تک کا ریکارڈڈیٹا کی شکل میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے پاس ہے جو بہ بوقتِ ضرورت آپ کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 

حکم رانوں سے لے کر عام شہری تک کی انفرادی اور ذاتی زندگی کے بارے میں تمام تر مواد جو آپ نے فیس بک، ٹوئٹر، ای میل، اسکائپ پر لکھا یا محفوظ کیا وہ سب آپ کی ذات و حالات کا تجزیہ کرنے کے لیے کافی ہے جو این ایس اے کے پاس ا نٹر نیٹ اور کمیونی کیشن کمپنیز کے ذریعے پہنچ رہا ہے اور یہ آپ کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کو جاننے کے لیے کافی ہے۔ 2011ء میں ایبٹ آباد میں بم بنانے والے محمد طاہر شہزاد کی گرفتاری اور انڈونیشیا کے جزائر بالی میں دہشت گردی کرنے والے عمر پاٹک کو ایسی ہی معلومات اور ڈیٹا کے ذریعے گرفتار کیا گیاتھا۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے بعض تفصیلات اور انکشافات اس لیے شایع نہیں کیے تھے کہ بعض قومی راز اور بعض جاری آپریشنز کے بارے میں راز افشا ہونے کا ڈرتھا۔

(2) امریکا کے جاسوسی سے متعلق حکام میں این ایس اے نے ایک پاکستانی اورایک امریکی نوجوان کے درمیان ہونے والی ایسی گفتگو بھی ریکارڈ کی جس میں 2009ء میں پاکستانی بچے نے امریکی نوجوان سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کی جنگ کو 44کافر ممالک (نیٹوکے رکن ممالک) کے خلاف مسلمانوں کی مذہبی جنگ قرار دیاتھا اور امریکی شہری نے اس پاکستانی نو جو ا ن کا موقف رد کر دیا تھا۔

(3) این ایس اے کا معلومات اور ڈیٹا حاصل کرنے والا پروگرام ایٹمی عدم پھیلائو اور انسداد دہشت گردی پر مرکوز ہے اور اس حوالے سے 193ممالک کی جاسوسی اور معلومات حاصل کرنے کا کام خفیہ طور پر کرتا ہے۔ ایک ملک کا نام لیے بغیر یہ کہا گیا کہ اس ملک کے نیو کلیئرپروگرام کےبارےمیں بھی جاسوسی اور خفیہ معلو ما ت جمع کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ قارئین سمجھ لیں کہ مغربی طاقتوں کو کس کس ملک کا ایٹمی پروگرام کھٹکتاہے۔اسی طرح عام شہریوں کے عشق و محبت، دل ٹوٹنے اور انتہائی قربتوں کی تفصیلات بھی این ایس اے نے اس لیے جمع کر رکھی ہیں کہ نہ جانے یہ معلومات کب اور کہاں استعمال کی جاسکتی ہیں۔

امریکامیں شہری آزادیوں اورحقوق کی نام ورامریکی اورعالمی تنظیمیں اس ضمن میںاحتجاج کررہی ہیں اور اسے شہری آزادیوں اور پرائیویسی کا خاتمہ قرار دے رہی ہیں، لیکن امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی آج بھی اس کام میں مصروف ہے ۔چناں چہ آپ کسی بھی ملک میں رہتے ہوں، عام شہری ہوں یا حکم راں، امریکا کی قومی سلامتی اور مفاد کے لیے آپ کی تمام معلومات کمیونی کیشن کمپنیزکے ذریعے جمع کی جارہی ہیں اور نہ جانے کن کن مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہوں گی یا کی جائیں گی۔

ویب سائٹس یا جاسوس

یہ اکتوبر 2017کی بات ہے۔عالمی ذرایع ابلاغ کے حوالے سے ساری دنیا میں یہ رپورٹ پھلی تھی کہ فیس بک اور انسٹاگرام دنیا بھر میں اربوں صارفین کی جاسوسی کررہی ہیں- یاد رہے کہ دنیا بھر میں فیس بک کے ڈیڑھ ارب سے زاید اور صرف پاکستان میں کروڑوں صارفین موجود ہیں۔لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہر وقت آپ کی جاسوسی کرتی رہتی ہیں؟

اس ضمن میں متعدد ماہرین کی جانب سے یہ الزامات سامنے آچکے ہیں کہ فیس بک اور انسٹاگرام ایپ لوگوں کے اسمارٹ فونز کے مائیک استعمال کرکےان کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں جنہیں اشتہارات دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق فیس بک ویب کی انتظامیہ خود بھی تسلیم کرتی ہے کہ اس کی ایپ صارفین کے ارگرد کی آوازوں کو سنتی ہے، مگر اس کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ لوگ کیا سن یا دیکھ رہے ہیں تاکہ پوسٹس کے حوالے سے ان کی پسنداور ناپسند کا خیال رکھا جاسکے۔ 

ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ ڈامیان لی نویلی کا تویہاں تک دعوی ہے کہ ا نسٹاگرام تو مختلف زبانوں میں لوگوں کی باتیں سن کر انگریزی زبان کے متعلقہ اشتہارات دکھاتی ہے ۔بعض رپورٹس کے مطابق کسی موضوع کی پوسٹ دیکھنے سے پہلے ہی اس سے متعلق اشتہارات سامنے آنے لگتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فیس بک کےہزاروں صارفین کا ماننا ہے کہ چند منٹ کی بات چیت کے بعد ہی فیس بک اور انسٹاگرام حیران کن حد تک متعلقہ اشتہارات دکھانے لگتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ایپس لوگوں کی با تیں سن رہی ہوتی ہیں۔فیس بک نے کئی بار اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ موبائل فون کے مائیکرو فون سے لوگوں کی بات چیت سنتی یا ریکارڈ کرتی ہے اور مائیکرو فون کو کبھی اشتہارات یا نیوز فیڈ اسٹوریز کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

کچھ عرصہ قبل بھی ایک صارف کے ٹوئٹ کے بعد فیس بک کی انتظامیہ کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ کمپنی نے کبھی بھی اشتہارات کے لیے مائیکرو فون کو استعمال نہیں کیا۔فیس بک کی انتظامیہ کے مطابق مائیکرو فون تک رسائی مانگنے کی وجہ وڈیوز کو ریکارڈکرنے، جیسے فیس بک لائیو یا انسٹاگرام اسٹوریز وغیرہ ہوتی ہے۔تاہم بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک یا انسٹاگرام کی انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کی باتیں چپکے سے سننا بالکل ممکن ہے۔ایک خاص برانڈ کے موبائل فون کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ اس کی ایپس مائیکرو فون کو خاموشی سے صارف کی مرضی کے بغیر آن کردیتی ہیں جس کی وجہ اس کے ایپ اسٹور کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے یا وہ مخصوص ایپ اوپن ہونا وجہ بنتی ہے۔

فیس بک کی انتظامیہ کے مطابق اگر آپ کی نیوزفیڈ پر آپ کی بات چیت سے متعلق اشتہارات سامنے آتے ہیں تو یہ اتفاق یا آپ کا تخیل ہوسکتا ہے کیوں کہ روزانہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں اشتہارات فیس بک ایپ پر نظر آہی جاتے ہیں۔اشتہاری کمپنیز لوگوں کو مختلف طریقوںسے اپنا ہدف بناتی ہیں جیسے براؤزنگ ہسٹری، فیس بک انٹرسٹس اور دیگر۔یہاں تک کہ کمپنی کا الگورتھم ہی اتنا ڈیٹا پوائنٹس بنالیتا ہے جو اشتہارات دکھانے کے لیے کافی ثابت ہوتے ہیں۔ اگر فیس بک کی تردید پر یقین نہ ہو تو آپ مائیکرو فون تک ایپ کی رسائی ختم کرسکتے ہیں ۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے صحافیوں کی جاسوسی

گزشتہ برس فروری کے مہینے میں یہ خبر آئی تھی کہ جرمنی کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف صحافیوں کی جاسوسی کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔غیر ملکی جریدے اسپیگل نے صحافیوں کی جاسوسی کا انکشاف کرتے ہوئے لکھاتھا کہ جرمن خفیہ ایجنسی بی این ڈی نے دنیا بھر میں صحافیوں کی جاسوسی کی جن میںبی بی سی،رائٹرز اورنیویارک ٹائمز کے صحافی بھی شامل تھے ۔ اس ایجنسی نے ٹیلی فون ٹیپ کیے ،صحافیوں کی ریکی بھی کی ۔فرانسیسی ٹی وی 24 کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافی آزنلڈ زجتمان،جن کا تعلق بیلجیئم سے تھا اوروہ افریقی ملک کانگو میںکام کرتے تھے ،جرمن خفیہ ایجنسی نے ان کی نقل و حرکت کو واچ کیا اور اس کی باقاعدہ رپورٹ بھی تیار کی گئی ۔

اس رپورٹر نے 10سال تک خدمات سرانجام دیں ۔ مذکورہ جریدے میں شایع ہونے والی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان میں بی بی سی کے لیے کام کرنے وا لے نمائندے کے بھی فون ٹیپ کیے جاتے رہے۔بی این ڈی کی لسٹ سے نیویارک ٹائمز کا بھی حوالہ ملا ہے جو پا کستان،افغانستان اور نائجیریا کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔زمبابوے کے اخبار ڈیلی نیوز کی بھی جاسوسی کی جاتی رہی ہے۔جریدے اسپیگل کے مطابق جرمن خفیہ ایجنسی نے 1999 کے بعد صحافیوں کے پچاس نمبروں کی جا سو سی کی ۔

امریکا کی جاسوسی کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبر

یہ گزشتہ ماہ کی بات ہےکہ برطانوی اخبار دی گارڈین نے انکشاف کیا کہ امریکا نے پاکستان سے اس برس مارچ کے مہینے میں 13 ارب خفیہ معلومات اکٹھا کیں ۔ یہ معلومات ٹیلی فون اور کمپیوٹر نیٹ ورک سے لی گئیں۔ برطانوی اخبار نے امریکا کی دنیا بھر میں خفیہ ڈیجیٹل معلومات جمع کرنے کی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جاسوسی کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبرہے۔امریکی ا د ا ر ے نے رواں سال مارچ کے 30 دنوں میں پاکستان سے ساڑھے 13 ارب خفیہ معلومات اکٹھا کیں۔ سب سے زیادہ ڈیٹا ایران سے لیا گیا جہاں سے امریکا نے 14 ارب معلومات لیں۔ اردن سے 12 ارب سے زاید، مصر سے 7 ارب سے زاید اوربھارت سے 6 ارب 3 کروڑخفیہ معلومات اکٹھا کی گئیں۔ امریکی ایجنسی نے اسی عرصے میںامریکا سے بھی 3 ارب خفیہ معلومات اکٹھا کیں۔

تازہ ترین