• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

"All happy families are alike, each unhappy family is unhappy in its own way"(لیو ٹالسٹائی، 9ستمبر 1828تا 20نومبر1910 )
اگر کسی کا خیال ہے کہ ملک کے حکمران مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اُن کے لئے فکر مند ہیں، کوئی حکومتی ادارہ محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے دن رات کوشاں ہے، کسی مِل کا مالک رات کو اپنے کارکنوں کے غم میں کروٹیں بدلتا رہتا ہے، کوئی این جی او مزدوروں کی کسمپرسی کو اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھ کر اس کا حل ڈھونڈنے کی کوششوں میں مصروف ہے، کوئی کالم نگار چٹپٹے موضوعات کی قربانی دے کر مزدوروں کے مسائل پر کالم لکھنا چاہتا ہے، کوئی اینکر اپنے پروگرام کی ریٹنگ کی قربانی دے کر مزدوروں کے حق میں پروگرام کرنا چاہتا ہے یا کوئی مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ فقط یہ بتانے میں صرف کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ ’’مزدور کو اس کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو‘‘،تو یہ ہماری خوش فہمی کی انتہا ہے۔ یکم مئی ایک چھٹی کا دن ہے جو عام آدمی سو کر، سیاست دان بیان دے کر اور مزدور یہ سوچ کر گزارتا ہے کہ کل وہ اپنے بچوں کی روٹی کیسے کمائے گا۔ ہاں کچھ مزدوروں کی تنظیمیں تقریریں وغیرہ کرتی ہیں، اخبارات میں ایک آدھ بیان چھپ جاتا ہے، تھوڑی رونق لگ جاتی ہے، اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی غریب بچے کے یتیم ہونے کی صورت میں چند لوگ افسوس کرنے پہنچ جاتے ہیں، اسے ’’حوصلہ کرو‘‘ کہتے ہیں، بارہ تیرہ سال کا بچہ خالی خالی نظروں سے ان سمجھدار لوگوں کو دیکھتا ہے اور پھر وہ دو گھنٹے بعد قبر کی مٹی سے ہاتھ جھاڑ کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، خود کو یہ تسلی دے کر کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ بچہ جی ہی لے گا۔
پاکستان میں محنت کش لوگ تین طبقات میں بٹے ہیں، ایک وہ جو کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں، دوسرے وہ جو حکومتی اداروں میں کام کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو پہلے دو میں شامل نہیں اور کسی سیٹھ کی فیکٹری میں، سڑک پر مزدوری کی تلاش میں، ہوٹلوں، کھانے پینے کی دکانوں، شاپنگ مالز، گھروں اور بازاروں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا طبقہ ان سب میں بہتر ہے، یہ وہ ’’خوش قسمت غریب‘‘ ہیں جنہیں غیر ملکی کمپنیوں یا بڑے ملکی کاروباری اداروں میں ملازمت ملی ہوئی ہے، وہاں انہیں لیبر قوانین کے مطابق تنخواہ دی جاتی ہے، ان کی زندگی اور صحت کا بیمہ کروایا جاتا ہے، ملازمت سے برخواستگی کی صورت میں ایک مناسب رقم ادا کی جاتی ہے، سال میں دو تین ہفتے کی چھٹی مع تنخواہ دی جاتی ہے اور کام بھی انسان سمجھ کر لیا جاتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں، غیر ملکی ادارے، بڑی پاکستانی کمپنیاں (خاص طور سے ایکسپورٹر جن پر اُن کے غیر ملکی خریدار اس حوالے سے کڑی نظر رکھتے ہیں)، بین الاقوامی تنظیمیں اور سفارت خانے ایسی جگہیں ہیں جہاں اگر کسی محنت کش کو نوکری مل جائے تو اس کی زندگی سنور جاتی ہے، میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جنہوں نے ڈرائیور کی ملازمت کرتے ہوئے اپنا مکان بنا لیا، یہ سب کچھ لیبر قوانین پر عمل کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ملٹی نیشنلز میں سب اچھا ہے، کچھ غیر ملکی کمپنیاں نہایت چالاکی کے ساتھ کسی لیبر فرم سے معاہدہ کرتی ہیں، یہ لیبر فرم کارکنوں کو نہایت کم تنخواہ اور کڑی شرائط پر ہائر کرتی ہے جنہیں کسی بھی وقت بغیر کوئی وجہ بتائے فارغ کیا جا سکتا ہے، انہیں گھنٹوں کے حساب سے کام کرنے کے پیسے دیئے جاتے ہیں اور چھٹی کی صورت میں کچھ نہیں ملتا۔ اِس کے بعد یہ لیبر فرم ان ملازمین کو ٹھیکے پر ملٹی نیشنل کمپنی کے حوالے کر دیتی ہے جو ان سے جانوروں کی طرح کام لیتی ہے، فائدہ ملٹی نیشنل کو یہ ہوتا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے یہ لوگ اِس کے ملازم نہیں ہوتے اور یوں وہ کمپنی کسی بھی قسم کے لیبر قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جاتی ہے اور دوسری طرف جس لیبر فرم نے انسان سپلائی کرنے کا یہ ٹھیکہ لیا ہوتا ہے وہ لیبر قوانین کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان ملازمین کو وہ مراعات بھی نہیں دیتی جن پر اُن کا حق ہوتا ہے۔ اس پورے کھیل میں وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کے کھانے کی ’’چین‘‘ کئی براعظموں میں پھیلی ہے۔
دوسرا طبقہ حکومتی اداروں سے جڑا ہے۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو غیر مستقل ہیں، ان کی ملازمت پکی نہیں، مختلف ادارے انہیں دیہاڑی پر رکھتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں، ان کا کوئی بیمہ نہیں اور چھٹی کی صورت میں کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ مگر فائدہ انہیں یہ حاصل ہے کہ حکومت گاہے گاہے انہیں مستقل کرنے کی پالیسی جاری کرتی رہتی ہے اور یوں یہ حکومتی ملازمت حاصل کر لیتے ہیں اور انہیں سڑک پر بیٹھے مزدور کی طرح روزانہ اس اذیت سے بھی نہیں گزرنا پڑتا کہ نہ جانے آج کام ملے گا یا نہیں، سو اس لحاظ سے یہ تیسرے طبقے سے بہتر ہیں۔ ان کے لئے ایک کام حکومت یہ کر سکتی ہے کہ تمام سرکاری اداروں کو پابند کر دے کہ ایسے دیہاڑی دار ملازمین کی کم از کم اجرت، اگر وہ پورا مہینہ کام کریں، تو چودہ ہزار سے کم نہ ہو، تاحال کئی ایسے سرکاری ادارے ہیں جہاں یہ اجرت نافذ العمل نہیں، دوسرا کام حکومت کے کرنے کا یہ ہے کہ یکم مئی کو اس مزدور طبقے کی چھٹی والے دن ان کی اجرت نہ کاٹی جائے۔ لیکن حال حکومتی اداروں کا یہ ہے کہ یکم مئی کی چھٹی کا نوٹیفیکیشن بھی ڈھنگ سے جاری نہیں کر سکتے، لسبیلہ یونیورسٹی، بلوچستان نے یکم مئی کی چھٹی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ یکم مئی کو بند رہے گی تاہم پلمبر، ڈرائیور، سیکورٹی گارڈ، مالی اور جنریٹر اور ٹیوب ویل آپریٹر وغیرہ کام پر آئیں گے۔ یہ ہے ہمارے شعور اور سماجی رویوں کا کُل خلاصہ۔
تیسرے طبقے کا حال سب سے برا ہے۔ یہ روزانہ صبح اٹھ کر ایک نئی قیامت کا سامنا کرتے ہیں، فٹ پاتھ پر مزدوری کی تلاش میں بیٹھ جاتے ہیں، کوئی امیر انہیں کام پر لے جائے تو ٹھیک ورنہ شاید بھوکے رہتے ہیں، میں نے کبھی پتہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ کام نہ ملنے کی صورت میں یہ کیا کرتے ہیں! جو لوگ کسی سیٹھ کی مِل میں ملازم ہیں انہیں تنخواہ کے ساتھ بونس کی جگہ ذلت مفت میں ملتی ہے اور جو کھانے پینے کی دکانوں میں دوڑتے بھاگتے آرڈر لیتے نظر آتے ہیں انہیں تنخواہ نہیں ملتی، ان کا گزارہ فقط ٹِپ پر ہوتا ہے۔ کسی کا کوئی بیمہ نہیں، کوئی چھٹی نہیں، کوئی کم از کم اجرت نہیں اور بندہ مزدور کے اوقات کا کوئی تعین نہیں۔ ان میں بھٹہ مزدور بھی شامل ہیں اور ایسے محنت کش بھی جنہیں مسلسل پچاس پچپن ڈگری سینٹی گریڈ میں اسٹیل فرنس میں کام کرنا پڑتا ہے۔ جس دن اِن لوگوں کو کام نہیں ملتا، اُس روز اِن کے گھر کا چولہا کیسے جلتا ہے کوئی نہیں جانتا اور نہ کوئی جاننا چاہتا ہے۔
ہمارے ملک کے مسائل نہایت اہم اور پیچیدہ ہیں جنہیں بڑی مشکل سے ہم نے پیدا کیا، ایسے میں کس احمق کے پاس وقت ہے کہ وہ مزدوروں کے حقوق جیسے بے رنگ موضوع پر اپنا سر کھپائے۔ آئیے کسی کی پگڑی اچھالتے ہیں، اس میں زیادہ مزا ہے۔
کالم کی دُم:آج کا وقت اور تاریخ نوٹ فرما لیں۔ پاکستان میں آزادیٔ اظہار کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ اب کسی کو اس آزادی کی جنگ لڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین