پاکستانی نژاد اطالوی لڑکی ثناء چیمہ کی اپنے آبائی علاقے میں پراسرار موت نے ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی توجہ پاکستان کی طرف مرکوز کردی ہے، عالمی میڈیا میں پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جہاں کے باسی اپنے ہاتھ خواتین رشتہ داروں کے خون سے رنگنے کو قابل فخر کارنامہ گردانتے ہیں، بدقسمتی سے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل سوشل میڈیا ماڈل قندیل بلوچ سمیت بے شمار پاکستانی لڑکیاں اپنے قریبی مرد رشتہ داروں کے ہاتھوں جان گنوا چکی ہیں۔ میری نظر میں ایسے تمام واقعات کے پس منظر عوامل میں زبردستی شادی سے انکار، پسند کی شادی پر اصرار، طلاق کا تقاضا، ناجائز تعلقات کا شبہ، زنابالجبر اور جائیداد میں حصہ نہ دینے جیسی دیگرسماجی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن مذہبی کسی طور نہیں۔میں نے جب ایسے ناپسندیدہ واقعات کے بارے میں ریسرچ کی تو سب سے قابل توجہ امر یہ سامنے آیا کہ ایسے واقعات کے پیچھے کسی ایک خاص ملک، مذہب یا معاشرے کا تعلق نہیں بلکہ صدیوں پرانی ایک ایسی دقیانوسی سوچ کارفرما ہے جسکے مطابق عورت کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں، شادی سے پہلے وہ باپ اور بھائیوں کی عزت ہے اور شادی کے بعد شوہر کی، اس سلسلے میں عورت نے ذرا سی بھی اپنی مرضی کی کوشش کی یا بدقسمتی سے حالات کے جبر کا شکار ہوئی تو خاندان میں اپنی عزت قائم رکھنے کیلئے عورت کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو خواتین کے خلاف قابلِ نفرت رویہ کا مظاہرہ کم و بیش ہر معاشرے میں کیا گیا، قدیم دور میں شکست خوردہ اقوام نے اپنی خواتین کو دشمن کے قبضے میں جانے سے بہتر خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرنا مناسب سمجھا تو تقسیم ہند کے موقع پر ہزاروں خواتین کو عزت بچانے کیلئے کنوئیں میں دکھیلا گیا۔ آج عالمی برادری پاکستان اور اسلامی ممالک کو غیرت کے نام پر قتل سے نتھی کرتے وقت یہ بھول جاتی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے قدیم رومن سلطنت میں آگسٹاس سیزر نے اخلاقی اقدار کو برقرار رکھنے کیلئے ایسا قانون متعارف کرایا جس کے مطابق باپ کیلئے اپنی بے راہ روبیٹی اور اسکے آشنا کو قتل کرنا جائز تھا، اسی طرح رومن شوہر کو غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث بیوی کے آشنا کے قتل کی قانونی طور پر اجازت دی گئی، رومن معاشرے میں ایک مرد کو اپنی بیوی اور بچوں کی جانوں پر مکمل اختیار حاصل تھا، اگر کوئی مرد سماجی دباؤ کے نتیجے میں غیرت کے نام پر قتل کرنے سے انکار کردیتا تو اسے بھی قتل کی سزا کا حقدار سمجھا جاتا۔اسی طرح یورپ کی تاریخ میں بھی غیرت کے نام پر قتل کے شواہد ملتے ہیں، جنیوا میں جان کالون کے دورحکومت میں زناکاری میں ملوث خواتین کو دریائے رھون میں سمندربرد کردیا جاتا تھا،اٹلی میں 1981ء سے قبل غیرت کے نام پر قتل کرنے کی سزا فقط تین سے سات سال تک تھی۔ قدیم چینی معاشرے میں بھی غیراخلاقی سرگرمیوں کے نتیجے میں کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔ عظیم فاتح نپولین بوناپارٹ نے فرانس اور مشرق وسطیٰ کے مقبوضات پر کلیدی نوعیت کے اثرات مرتب کیے، نپولین کے مرتب کردہ فرنچ سول کوڈ کے مطابق شوہرکو آوارہ بیوی اور اسکے آشنا کو جان سے مارنے کاقانونی حق حاصل تھا، اس حوالے سے نپولنک کوڈ کے آرٹیکل نمبر 324کا تفصیلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے، یہ قانون جوفرانس میں 1810ء میں منظور کیا گیا،بعد ازاں فرانس کے بیشتر مقبوضات اور مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول اردن، الجزائر، مصر، عراق، کویت، لبنان، لیبیا، مراکش، شام، یمن،وغیرہ وغیرہ میں بھی نافذہوا۔ فرانس نے تو 1975ء میں اس قانون سے چھٹکارہ پالیا لیکن اسکے منفی اثرات آج بھی بیشتر مقبوضات پر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور پاکستان کو دنیا کے نقشے پر قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک قابلِ تقلید مثال بن کر ابھرنا تھا لیکن ہم نے حصولِ آزادی کے فقط ایک سال بعد ہی اپنے آپ کو غلط سمت میں گامزن کردیا۔قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد اسلام کے نفاذ کیلئے عرب ممالک سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو خودغیروں کی سوچ کے زیراثر تھے۔ جنرل ضیاء کے دور ِ حکومت میں پاکستان نے عرب جنگجوؤں کیلئے دروازے کھول دئیے تووہ اپنے ساتھ فرانسیسی قوانین کے زیرسایہ پروان چڑھنے والے سماجی رویے بھی ساتھ لے آئے، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ضیاء دور سے قبل کوئی غیرت کے نام پر قتل پاکستان میں رپورٹ ہوا ہو،کچھ قوانین نے پاکستانی خواتین کو عدم تحفظ کا شکار کردیا تو پاکستانی معاشرے میں روایتی سوچ نے بھی سراٹھانا شروع کردیا، جائیداد میں حصہ نہ دینے کیلئے مقدس کتاب سے شادی یا پھر جائیداد خاندان میں ہی رکھنے کی خاطر زبردستی شادیوں کے رسم و رواج سے مقصد حاصل نہ ہوسکا تومظلوم خاتون کو راستے سے ہٹانے کیلئے غیرت کامہلک ہتھیار استعمال کیا جانے لگا ، آئے دن ایسی خبریں آنے لگیں کہ باپ بھائی نے غیرت کے نام پر قریبی عزیزہ کو کاروکاری کردیا، پولیس کے سامنے پیش ہوکر آلہ قتل حوالے کردیا اور معاشرے میں پھر سے بلند مقام حاصل کرلیا،انسانی حقوق کیلئے سرگرم سول سوسائٹی کے مطابق عمومی طور پر ایسے ناپسندیدہ واقعات میں قانون بھی قاتلوں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، جسکی بڑی وجہ قاتل اور مقتول کا قریبی رشتہ دار ہونا بھی ہے، مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کردیتے ہیں اور یوں معاملہ ختم ہوجاتاہے،بیشتر واقعات تو سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ وقت آگیا ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے اس حساس مسئلے کے حل کیلئے انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کرنے کیلئے متحد ہوجائیں، سب سے پہلے تو ہمیںخواتین سے متعلق اپنی سوچ میں بہتری لانا ہوگی،ہمیں غیرت کے نام پر قتل کو ایک سماجی ناسور قرار دیتے ہوئے اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانا ہوگا، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ خواتین پر ظلم ڈھانے والا سماج کسی طور ترقی نہیں کرسکتا، تمام مکاتب فکر کا اتفاق ضروری ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتا ہے، اگر ہم حقیقت میںخدا کی رحمت کے طلبگار ہیں تو ہمیں قتل و غارت نہیں بلکہ تحمل مزاجی اور شائستگی کا راستہ اپنانا ہوگا، آج مغرب بھی متنازع قوانین سے چھٹکارا پاچکا ہے تو ہمیں بھی خواتین کاجائز مقام یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کرنی ہوگی، میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ بچوں کی پہلی تربیت گاہ انکا اپنا گھر ہوتا ہے، ہمیں اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے، والدین کو اپنے بچوں پر اعتماد کرنا چاہیے تو بچوں کو بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو والدین کیلئے معاشرے میں رسوائی کا باعث بنے۔ آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں اپنی ذات پات میں شادی کی روایتی سوچ دم توڑ رہی ہے ، دورِ جدید میں دنیا بھر میں مختلف مذاہب، اقوام، قومیتوں اور نسلوں کے مابین شادیاں ایک عام بات ہے، اگر کوئی لڑکی خاندان سے باہر شادی کی خواہشمند ہے تو ہمیں اسکی پسند کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ کسی کا گھر بسانا خدا کی نظر میں بہت اعلیٰ نیکی ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسے ناپسندیدہ واقعات ملک دشمن عناصر کو ہمارے پیارے وطن کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا بھی جواز مہیا کرتے ہیں، ثناء چیمہ کا واقعہ بھی سب سے پہلے اطالوی میڈیا میں رپورٹ ہوا جس کے بعدعالمی سطح پر پاکستان کے خلاف منفی رپورٹنگ کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، ایسے حساس ایشو پر ہمارے میڈیا کو بھی نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)