• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کی جانب سے 4ہزار ایکڑ زمین کی غیر قانونی فروخت، نیب تحقیقات کرے گا

اسلام آباد(وسیم عباسی) مشرف کی جانب سے 4ہزار ایکڑ زمین کی غیر قانونی فروخت‘نیب تحقیقات کرے گا۔درخواست گزار کرنل ریٹائرڈانعام نےمبینہ طور پر الزام عائد کیا ہے کہ سابق ڈکٹیٹر نے اپنے منظور نظر جنرلزکو 5پلاٹس اور 50ایکڑ زمین تقسیم کی تھی۔تفصیلات کے مطابق،نیب نے سابق ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ان پر تقریباً4ہزار ایکڑقیمتی زمین فروخت کرنے کا الزام ہے، جس کی مالیت اربوں میں ہے۔یہ زمینیں ملک بھر میں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کرکے فروخت کی گئیں۔نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی ریٹائرڈ افسر کرنل ایڈوکیٹ انعام الرحیم نے جمعرات کے روز دستاویزی ثبوت جمع کرائے ہیں، جس سے سابق آرمی چیف کے اختیارات کے غلط استعمال کو ثابت کیا گیا ہے، جس کا استعمال انہوں نے قیمتی فوجی پلاٹس کی غیر قانونی فروخت اور الاٹمنٹ میں کیا تھا، جس کا مقصد اپنے منظور نظر افسران کو خوش کرنا تھا۔نیب کے ایک عہدیدار نے دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیب، سابق فوجی حکمران کے خلاف ثبوتوں کا جائزہ لے رہا ہے اور مشرف کے اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق انکوائری کررہا ہے۔اس سے قبل نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن ناصر رضا نے کرنل انعام سے سابق ڈکٹیٹر کے خلاف ایک انکوائری میں دستاویزی ثبوت حاصل کیے تھے، جو کہ نیب آرڈیننس 1999کے تحت تھے۔نیب کے خط کے جواب میں کرنل انعام نے سابق دفاعی سیکریٹریوں اور فوجی عہدیداروں کے متعدد ہائی کورٹس میں بیانات جمع کرائے تھے، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی تھی کہ مشرف نے ملک کے بیشتر حصوں میں ہزاروں ایکڑ زمین غیرقانونی طور پر فروخت کی تھی۔درخواست گزار نے کہا تھا کہ سینئر فوجی افسران کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پرویز مشرف نے 5رہائشی/کمرشل پلاٹس اور 50ایکڑ زرعی زمین جنرل رینک کے افسران کو دینے کا فیصلہ کیا تھا، جب کہ قانون کے تحت وہ اس طرح کا صرف ایک پلاٹ ہی پاک۔فوج کے جنرل رینک کے افسر کو دے سکتے تھے۔اپنے دعوے کے حوالے سے کرنل انعام نے اس وقت کے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن کا اقرار نامہ منسلک کیا تھا، جسے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میںمیجر جنرل احسان کے کیس (WP No.1124/2015) میں جمع کرایا گیا تھا۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق دفاعی سیکریٹری نے تحریری طور پر اس بات کا اقرار کیا تھا کہ مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کے مختلف زونز میں قیمتی زمینیں دینےکے لیے تلاش کی گئیں۔ جب کہ ہزاروں ایکڑ زمینیں جو کہ شہدا کے گھروالوں اور نچلے رینک کے فوجیوں کے لیے مختص تھیں، انہیں بغیر کسی قانون کے تحت غیر متعلقہ اشخاص کو الاٹ کیا گیا تاکہ ان کی سیاسی حمایت حاصل کی جاسکے۔ان 10علاقوں میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر زمینیں مشرف نے غیر قانونی طور پر فروخت کیں۔ ان میں کراچی میں 2125ایکڑ زمین، لاہور میں 1145ایکڑ زمین اور کوئٹہ میں 200ایکڑ زمین شامل ہے۔اس کے علاوہ ملتان کی 6جائدادیں جس کی پیمائش 130ایکڑ، پشاور کی 3جائدادیں جو کہ 70ایکڑ سے زائد ہے، ڈیرہ اسماعیل خان زون میں 8ایکڑ کی 5جائدادیں، گوجرانوالہ زون میں 157ایکڑ کی 14جائدادیں، راولپنڈی زون کی 125ایکڑ کی 22جائدادیں، سرگودھا زون میں 3ایکڑ کی 2جائدادیں اور ایبٹ آباد زون میں 4600اسکوئر گز سے زائد کی 2جائدادیں شامل تھیں۔درخواست کے مطابق، مشرف نے بحیثیت چیف آف آرمی اسٹاف اپنا عہدہ 6اکتوبر،1998میں سنبھالا اور وہ اس عہدے پر 7اکتوبر،2001تک تین سال تک رہے۔جس کے بعد انہوں نے بغیر کسی آئینی، قانونی اور اخلاقی جواز کے یونیفارم میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
تازہ ترین