اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے کہا ہے کہ ججزنے آئین پراس کی روح کے مطابق عمل کرنے کاحلف اٹھا رکھا ہے، اپنا حلف نہیں توڑیں گے، آئین کی کمانڈ یہی ہے کہ ملک منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی چلایا جائے گا، بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اسلئے عدلیہ کے ہوتے ہوئی کوئی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، معاشرے قانون کی حکمرانی سے کامیابی حاصل کرتے ہیں، آئین کی خلاف ورزی پر عدالت کو جائزہ لینے کا اختیار ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں آٹھویں جوڈیشل کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات پر عملدرآمد کیلئے جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میںکمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہخصوصی عدالتیں نہیں ہونی چاہئیں، پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد نہ ہونے کا نوٹس لیا جانا چاہیے، ہر کام کا بوجھ عدالت پر کیوں ڈالا جاتا ہے؟ اس سے قبل جوڈیشل کانفرنس کے شرکاء نے علاقائی، معاشی انضمام اورسی پیک پر سفارشات دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے تناظر میں ٹرانزٹ اور سمندری مال برداری قوانین بنانے، کثیر الملکی سرمایہ کار گارنٹی ایجنسی، تنازعات کے حل کیلئے علاقائی ثالثی مرکز کا قیام، دہرے ٹیکس کے قانون میں ترمیم، دہشت گرد تنظیموں کے ارکان پر الیکشن لڑنےاور کالعدم تنظیموں کے پراپیگنڈے پر پابندی لگانے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی حاصل نہیں جا سکتی ،ریاست چلانا عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے جبکہ آئین کے ان احکامات کی پابندی کرناہم سب پر لازم ہے، بنیادی حقوق کیلئے قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے ، عدلیہ نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، قرآن پاک اور الہامی کتابوں کے بعد آئین سب سے مقدس کتاب ہے، ججز نے آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے، ججز کسی صورت اپنے حلف سے روگردانی نہیں کرینگے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ایکشن لینا عدلیہ کا فرض ہے، آئین کی خلاف ورزی قانون ساز کریں یا انتظامیہ،عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے، عدلیہ پر پہلے ہی مقدمات کا بہت بوجھ ہے،ججز کی تعداد بڑھانے سے بھی مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو سکتا، اسلئے تنازعات کے حل کا متبادل نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے،متبادل نظام ملکی و زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے معاشرے میں بابا رحمتے لوگوں کے تنازعات حل کرتا ہے، بابا رحمتے کو فیصلے پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، متبادل نظام انصاف (اے ڈی آر)سٹم میں عدالت پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ انہوںنے کہاکہ یہ کہا جاتا ہے کہ عدالت کے کئی فیصلے آپس میں متضاد ہیں ،متضاد فیصلوں سے ماتحت عدلیہ کو مشکلات در پیش آتی ہیں،اسلئے وکلا ء ایسے فیصلوں کی نشاندہی کریں۔ انہوں نے کہاکہ آئندہ ہفتے سات رکنی لارجر بنچ فوجداری قوانین سے متعلق مقدمات کی سماعت کرے گا، لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان ، نظام انصاف میں اصلاحات کی کئی سفارشات کر چکا ہے جو تاحال ایگزیکٹو فورم پر زیر التوا ہیں، اس لئے اٹارنی جنرل اس معاملے کا جائزہ لیکر سفارشات پارلیمنٹ کو بھجوائیں۔ انہوں نے کہاکہ آخر میں اہم اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں سفارشات پرعملدرآمد نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے، آج تک ہونے والی جوڈیشل کانفرنسز کی سفارشات پر عمل نہیں ہوا،کئی گھنٹوں کی محنت سے آج بھی سفارشات تیار کی گئی ہیں ان سفارشات پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس فائز عیسی، جسٹس عمر عطابندیال،جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو چار ماہ کے اندر کانفرنس کی سفارشات پر عملدرآمد یقینی کو بنائے گی، میںجوڈیشل کانفرنس کے انعقاد میں تعاون پر تمام ساتھی ججز اور سٹاف کا مشکور ہوں۔ قبل ازیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی ممالک میں اگر عدلیہ غلط فیصلہ بھی کرے تو پورا ملک تسلیم کرتا ہے،کسی ملک میں متوازی عدالتی نظام نہیں ہو سکتا لیکن پاکستان میں ڈرگ، انسداد دہشتگردی اور فوجی عدالتوں سمیت کئی قسم کی عدالتیں ہیں، ٹرائل کی سطح پر یکساں نظام ہونا چاہیے، عدالتی دائرہ اختیار کا فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ کوہی طے کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں خصوصی عدالتیں نہیں ہونی چاہئیں،ہمیں قومی سطح پر اس معاملے کا جائزہ لینا ہوگا ، ایڈیشنل سیشن ججزکو ہی ڈرگ، لیبر اور دہشت گردی کے مقدمات بھی سننے چاہئیں، ایس ایچ او کو ہدایات دینا ایگزیکٹو کام ہوتا ہے، مقدمہ درج کرنے کیلئے ایڈیشنل سیشن ججز کے حکم کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہاکہ پولیس آرڈر 2002 پر عملدرآمد نہ ہونے کا نوٹس لیا جانا چاہیے،حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شکایات کیلئے فورم قائم کرے۔ انہوںنے سوال کیا کہ ہر کام کا بوجھ عدالت پر ہی کیوں ڈالا جاتا ہے؟ اس سے قبل جوڈیشل کانفرنس کے شرکاء نے علاقائی، معاشی انضمام اورسی پیک پر سفارشات دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے تناظر میں ٹرانزٹ اور سمندری مال برداری قوانین متعارف کرائے جائیں اور اس عظیم منصوبے کو دیکھتے ہوئے علاقائی سطح پر کثیر الملکی سرمایہ گارنٹی ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے،کانفرنس کے شرکاء نے سفارش کی کہ سی پیک کے دوران اٹھنے والے تنازعات کے حل کیلئے علاقائی ثالثی مرکز قائم کیا جائے،پاکستان اور چین کے درمیان دوہرے ٹیکس سے بچنے کیلئے آرٹیکل آٹھ میں ترمیم کی جائے، کانفرنس کے شرکاء نے سفارش کی کہ سی پیک منصوبوں کے دوران ماحولیات کا اعلیٰ معیار برقرار رکھا جائے، وزارت منصوبہ بندی سی پیک کے معاہدوں اور دستاویزات کو عام لوگوں کی دسترس میں لائے۔کانفرنس میںجسٹس گلزار احمد نے علاقائی، معاشی انضمام، سی پیک پر سفارشات پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے تناظر میں ٹرانزٹ اور سمندری مال برداری قوانین متعارف کرائے جائیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے تنازعات کے متبادل حل کے حوالے سے سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات کے حل کا متبادل نظام جلد انصاف کیلئے اہم ہے ،کمرشل تنازعات کے حل کیلئے دنیا میں کئی ماڈلز موجود ہیں، دنیا میں رائج اس نظام کو نافذ کرکے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، عدلیہ کی نگرانی میں ثالثی زیادہ مفید ہے،نئے نظام کیلئے ججز کی ٹریننگ بھی لازمی ہوگی،عوام کی اکثریت کی عدالت تک رسائی ہی ممکن نہیں، عوام کی عدالتوں تک رسائی نہ ہونے کی کئی معاشرتی وجوہات ہیں،جبکہ ہم ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ان مسائل پر بات کرتے ہیں، اگراس روٹ سطح پر انصاف کیلئے تنازعات کے حل کے متبادل نظام کی ضرورت ہے، انصاف تک رسائی عوام کا بنیادی آئینی حق ہے ،لیکن ملک کے چالیس فیصد عوام انصاف کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظام انصاف کے تناظر میں سیاسی و معاشی استحکام کی سفارشات پڑھ کر سناتے ہوئے کہاکہ سیاسی عدم استحکام معیشت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے،سیاسی عدم استحکام سے ملک میں آنے والی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچتا ہے، ملزمان کا بائیومیٹرک اور تصویری ریکارڈ ہونا لازمی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شواہد اکٹھے کرنے کی تربیت دینا ضروری ہے، جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث افراد کیخلاف فوجداری کارروائی ہونی چاہیے ،جائے وقوعہ سے شواہد ضائع ہونے سے بچائے جانے چاہئیں، فوجداری مقدمات کو بغیر کسی التوا ء کے نمٹانے کی ضرورت ہے ،گواہان کو نقصان پہنچنے کے خدشے کے پیش نظر انکے بیانات جلد ریکارڈ کیے جانے چاہئیں۔انہوںنے کہا کہ میمو کمیشن میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا گیا تھا، ویڈیو لنک سے بیان لینا بظاہر مشکل تھا لیکن ریکارڈ باآسانی ہوا۔ انہوں نے کہاکہ دہشتگرد تنظیموں کے اراکین کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، کالعدم تنظیموں کے پروپیگنڈا پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے، انسداد دہشت گردی کے قوانین پر مکمل طور پر عملدرآمد ، دہشت گردی کے واقعہ کے بعد سکیورٹی اداروں کے ردعمل کا طریقہ کاربھی وضع ہونا چاہیے۔ جسٹس مقبول باقر نے قانون کی تعلیم سے متعلق سفارشات پڑھتے ہوئے کہا کہ لاء کالج میں اساتذہ کی تعیناتی اور داخلے میرٹ پر ہونے چاہئیں، قانون کی تعلیم میں فرضی ٹرائل بھی ہونے چاہئیں تاکہ طلبہ عدالتی کارروا ئی کے طریقہ کار کو بھی سمجھ سکیں، طلبہ کو تنازعات کے حل کے متبادل نظام کی تعلیم بھی دی جانی چاہئے، قانون کے نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنا چاہیے، قانون کی تعلیم کا معیار ملک بھر میں یکساں جبکہ قانون کی تعلیم کے امتحانات کیلئے سنٹرل امتحانی نظام ہونا چاہیے۔